حکیم علی رضا بابا پورہ حبہ کدل کے حکیم حسن علی کے ہاں 1323ھ یعنی 1903ء میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کی اور شروع سے ہی تحریک حریت کے ہراول دستے میں شامل رہے۔ تحریک سے والہانہ وابستگی کی بنا پر حکیم صاحب ریاست کے سیاسی حالات اور منظر نامے سے ہمیشہ با خبر رہتے۔ شہر میں ڈوگرہ شاہی کے خلاف کوئی بھی عوامی جلسہ ہوتا تو حکیم صاحب اُس میں بصد شوق شریک ہوتے، کوئی جلوس نکلتا تو حکیم صاحب جلوس میں سب سے آگے ہوتے۔رفتہ رفتہ وہ تحریکی اور وعوامی حلقوں میں مشہور و معروف ہوئے اور بہت حکام کی عتابی نظروں میں بھی آگئے۔ 1931ء میں شہر خاص خانقاہ معلی میں احتجاجی جلسے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی پاداش میں انہیں گر فتار کیا گیا۔ پولیس نے ان کے خلاف فوجداری مقدمہ د ائر کیا۔ جسٹس حکیم امتیاز حسین کے مطابق رول 21 کی نوٹیفیکیشن 19/L آف 1988 SVTکے تحت چودھری بھگت سنگھ ، ایڈیشنل ڈ سٹرک مجسٹریٹ سرینگر کی عدالت میں بعنوان سرکار بذریعہ کاشی ناتھ بنام حکیم علی رضا ساکنہ بابا پورہ حبہ کدل مقدمے کی شنوائی ہوئی۔حکیم صاحب کو پندرہ کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ اس کڑی سزا سے بھی حکیم صاحب کا حوصلہ نہ ٹوٹا اور وہ برابر والہانہ انداز میں تحریک سے وابستہ رہ کر اس کی آبیاری کرتے رہے۔ مہاراج کی مجاز عدالت سے یہ سزا پا نے سے حکیم صاحب ان خوش قسمت افراد میں شامل ہوئے جن کے جسموں پر چابک کے نشان اس قوم کی عظمت و مزاحمت کی دلیل سمجھے جاتے تھے۔ یہ کوئی معمولی سزا نہ تھی۔ جن لوگوں نے سزا دینے کا یہ ہولناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ راوی ہیں کہ کوڑے مارنے پر مامور پولیس اہل کار کی ہیبت ناک شکل دیکھ کر ہی انسان تھرتھر کانپ کے رہ جاتا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق صرف ایک چابک کھاکرہی سزایافتہ لوگ موت کی تمنا کرنے لگتے تھیکیونکہ اس کی مار انتہائی ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ ڈوگرہ شاہی کے خاتمے پر حکیم صاحب محکمہ مال میں ملازم ہوئے جہاںوہ اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ ملازمت میں بھی وہ اعتدال پسند رہے۔ لوگوں کا کام کرنے اور مسائل کا ازالہ کرنے میں ان کو خاص قسم کی روحانی لذت ملتی تھی۔ حکیم صاحب5 ؍ جنوری 1994ء کو دنیائے فانی سے فوت ہوئے ۔ مرحوم کو آبائی مقبرہ واقع حسن آباد سری نگرمیں سپرد خاک کیا گیا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648