’’ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں ۔اس عالمی ادارے میں جو قراردادیں اتفاق رائے سے پاس ہوئی ہیں ان میں استصواب رائے کو مسئلہ کشمیر کا حل تسلیم کیا گیا ہے ۔‘‘ ۔یہ ایک جملہ ستر سال سے کشمیر میں گونج رہا ہے اور یہ گونج اب پانچویں نسل کے اعصاب میں منتقل ہوچکی ہے ۔اقوام متحدہ نے قراردادوں پر عمل درآمد کی جو بھی کوششیں کیں وہ ناکام ہوگئیں ۔ اس طویل عرصے میں برصغیر کے حالات میں بھی بہت سے تغیرات ہوئے اور عالمی حالات میں بھی ۔سرد جنگ کا دور بھی ختم ہوا اور دہشت گردی کا ایک نیا عنصر بھی عالمی کشاکش کے منظرپرنمودار ہوا ۔محاذ آرائی کے ہدف بھی بدل گئے اور مقاصد بھی ۔ فوجی محاذ آرائی پر اقتصادی محاذ آرائی کو فوقیت حاصل ہوئی ۔ دوستی اور دشمنی کے معیار بدل گئے ۔ فوجی اتحاد بھی بدل گئے اور سیاسی اتحاد بھی ۔ پرانی دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل ہوگئیں اور دشمنیاں دوستیوں میں ۔نئی اقتصادی اورفوجی طاقتوں کا جنم ہوا اور محاذ آرائیوں کے میدان بھی بدل گئے ۔
ان وسیع تر تبدیلیوں نے اقوام متحدہ کوسب سے زیادہ متاثر کیا اور اسے ایک بیکار اور بیمار ادارہ بنادیا ۔ عالمی تنازعات میں اس کا کردار بے اثر اور نمائشی بن کر رہ گیا ۔بیشتر ملکوں اور قوموں کا اعتبار اس ادارے پر سے اُٹھ گیا لیکن کشمیر میں ان قراردادوں پر اٹل اعتماد اب بھی اسی طرح برقرار ہے جس طرح چھ دہائیاں پہلے تھا ۔کشمیر کے علیحدگی پسند محاذ کی جدوجہد کا منتہائے مقصد انہی قراردادوں کی عمل آوری ہے ۔ساری مالی اور جانی قربانیاں انہی قراردادوں کی عمل آوری کیلئے دی جارہی ہیں اور ساری تباہیاں انہی کیلئے جھیلی جارہی ہیں۔عسکری محاذ کا زور بھی انہی قراردادوں پر ہے حالانکہ اقوام متحدہ نے کبھی کسی عسکری جدوجہد کو قبولیت نہیں بخشی ہے ۔جس بھارت نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا وہ ان قراردادوں کو یکسر مسترد کرچکا ہے ۔پاکستان کو جب بھی موقع ملتا ہے اقوام متحدہ میں ان قراردادوں کی عمل آوری کیلئے آواز اٹھاتا ہے لیکن کئی دہائیوں سے یہ قراردادیں زیر بحث نہیں آئی ہیں ۔ بلکہ ان پر جمی ہوئی گرد بھی صاف کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ذیلی کمیٹیوں میں مختلف معاملات پر بحث ہوتی ہے جن میں حقوق البشر قابل ذکر ہے ۔
اقوام متحدہ ہر اس موقعے پر جب ہند وپاک کے درمیان فوجی تناو تشویشناک حد تک بڑھ جاتا ہے مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دیتا ہے خود نہ وہ قراردادوں کی کوئی بات کرتا ہے اور نہ ہی کسی عملی اقدام کی ۔ سابق سیکریٹری جنرل بانکی مون بھی اور موجودہ سیکرٹری جنرل بھی اکثر مواقع پر پاکستان اور بھارت سے باہمی مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے پر زور دیتے رہے ہیں ۔اس طرح بغیر اعلان کے ان قراردادوں کو قصہ پارینہ کی طرح فراموش کرکے نئے آپشن تلاش کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔اس کے پیچھے عالمی تبدیلیوںکے ساتھ قراردادوں سے متعلق کچھ تکنیکی وجوہات بھی ہیں ۔1947ء میں ا قوام متحدہ کی مداخلت سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہوئی اور دونوں ملکوں کی فوجیں جہاں تھیں وہاں جنگ بندی لائن کھینچ دی گئی ۔متنازعہ ریاست کا ایک حصہ پاکستان کے پاس رہا اور ایک حصہ ہندوستان کے پاس ۔دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر چار جنگیں ہوئیں جوکسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئیں ۔1971ء میں پاک بھارت جنگ کے بعد جب بنگلہ دیش بنا اور بھارت کے پاس پاکستان کے نوے ہزار فوجی جنگی قیدیوں کی حیثیت سے تھے توشملہ معاہدہ ہوا جس میں بھارت نے کشمیر کے متنازعہ مسئلے کی حیثیت سے اتفاق تو کیا لیکن اسے عالمی فورموں میں نہ لے جانے سے پاکستان نے اتفاق کیا ۔ یہ پاکستان کی مجبوری تھی لیکن اس سے جنگ بندی لائن کنٹرول لائن میں تبدیل ہوگئی ۔اس کے بعد ہی سے قراردادوں پر کوئی بحث نہیں ہوئی ۔اس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے جن میں مسئلہ کشمیر کلیدی حیثیت سے شامل تھا لیکن تصفیے کی کوئی گنجائش پیدا نہیں ہوسکی ۔اندرا عبداللہ اکارڈ نے مسئلہ کشمیرکی عالمی حیثیت پر ایک اور کاری ضرب لگادی ۔ اس اکارڈ کیخلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے میر واعظ مولوی محمد فاروق کی طرف سے یادگار جلوس نکالا گیا جس میں لاکھوں لوگوں نے شمولیت کی لیکن اس کے بعد کوئی قابل ذکرمخالفانہ لہر دیکھنے میں نہیں آئی ۔نئی دہلی کی اُس وقت کی حکمراں جماعت نے حوصلہ پاکر کشمیر کی علاقائی اور انفرادی حیثیت ختم کرنے کیلئے کانگریس کی حکمرانی کیلئے وہی داو پیچ شروع کردئیے جو اس سے پہلے بھی آزما ئے جاچکے تھے ۔
کھلی سازشوں اور ہیرا پھیریوں کا گھناونا کھیل کھیلا گیا جس نے قومی دھارے کی سب سے بڑی مقامی جماعت نیشنل کانفرنس کا اعتبار بھی ختم کردیا اور شیخ محمد عبداللہ کا طلسم بھی توڑ ڈالا۔اس سے جو خلاء پیدا ہوا اسے عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں نے پورا کیا اور نوے کی دہائی میں پورا کنٹرول علیحدگی پسنداور عسکری محاذ کے ہاتھوں میں آگیا ۔لیکن وہ زیادہ دیر یہ کنٹرول قائم نہیں رکھ سکے ۔ 1996ء میں پھر انتخابات کرانے میں ہندوستان کامیاب ہوا ۔ اگرچہ کشمیر میں بہت کم لوگوں نے ووٹ ڈالے لیکن جموں اورلداخ نے کسی حد تک پولنگ کی شرح میں اضافہ کیا ۔فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی حکومت تو قائم ہوئی لیکن عوام کی اُمیدوں پر پوری نہیں اُتر سکی اور اس نے مقامی اُمنگوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر احیائے نو کا سنہرا موقع گنوادیاچنانچہ علیحدگی پسند محاذ کے اثر و رسوخ او رقوت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ۔
عمر عبداللہ کے دور اقتدار نے نیشنل کانفرنس کے نتظیمی ڈھانچے میں بہت سارے چھید کردئیے جس کے نتیجے میں قومی دھارے کی نئی جماعت پی ڈی پی متبادل کے روپ میںاُبھرنے لگی لیکن پی ڈی پی نے جب اقتدار کے حصول کیلئے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تو قومی دھارے کی ہر جماعت بے اعتبار ہوکر رہ گئی اور علیحدگی اور عسکری جذبہ عروج پر پہنچا ۔ اس کے بعد قومی دھارے کی ہر جماعت بے کسی کے عالم میں اپنے وجود کو بکھرنے سے بچانے کی کوششوں میں سرگرم ہے ۔اور اسے اب اپنے نظریات اور موقف دونوں تبدیل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے ۔اب وہ علیحدگی پسند محاذکی آواز سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔پی ڈی پی نے دو قدم آگے بڑھ کر علیحدگی پسند محاذ کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے سبز جھنڈوں کا دکھاوااور مذاکراتی موقف کی پرزور وکالت کا بیڑا اُٹھایا لیکن نئی دہلی نے اس کا بسترہ گول کردیا ۔
نیشنل کانفرنس کو نئی دہلی کی بے وفائیوں کا کافی بڑا تجربہ پہلے ہی تھا اب پی ڈی پی کا حال دیکھ کر وہ بھی نئی دہلی کی وفاداری کے خول سے باہر آنے کی پہل کررہی ہے ۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے حال ہی میں یہ کہہ کر اپنے اوراپنی تنظیم کے عزائم کا اظہار کیا کہ کشمیر میں آزادی کا جذبہ بہت مضبوط ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل آئین ہند کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر تلاش کیا جاسکتا ہے ۔تجزیہ نگار اس سے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ نیشنل کانفرنس آئین ہند سے باہر یا تو خود مختار کشمیر کی طرف لوٹ جانا چاہتی ہے یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی طرف۔ کانگریس کے سابق ریاستی صدر اور سینئر لیڈر سیف الدین سوز بھی اس نتیجے پر پہونچ چکے ہیں کہ کشمیر کے عوام خود مختار کشمیر کے حامی ہیں لیکن ان کی رائے یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔پھر ممکن کیا ہے ؟ ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں جان باقی نہیں ہے اور خود مختار کشمیر ممکن نہیں ہے پھر تلاش ایک قابل عمل حل کی ہونی چاہیے تھی لیکن جہاں بھارت آئین ہند سے باہر جانے پر راضی نہیں وہیں پر وہ لوگ جو الحاق پاکستان کے حامی ہیں اس سے الگ کوئی تصور بھی دماغ میں لانے کیلئے تیار نہیں اور جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عشق میں مبتلا ہیں وہ ان کی خستہ حالی دیکھ کر بھی ان کی علمبرداری سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روبہ عمل لانے کی سفارتی کوششوں میں کامیاب نہیں ہورہاہے لیکن وہ کشمیر کے اندر کامیاب ضرور ہے اور بھارت اس کی اس کامیابی کواس کے ہاتھوں سے چھین لینے کیلئے فوجی قوت کا استعمال کرنے پر مصر ہے ۔اس نے کشمیر کے اندر مقابلے کیلئے اپنے سارے سیاسی مہرے کھودئیے ہیں ۔ وہ رفتہ رفتہ پاکستانی خیمے کی طرف سرک رہے ہیں ۔ اس لئے اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ۔اب سارا دار و مدار اس بات پر ہے کہ فوجی قوت کا استعمال کتنی کامیابی حاصل کرتا ہے ۔ زمینی حقیقت یہ بتارہی ہے کہ قوت کااستعمال عوام کو بھارت سے اور زیاد ہ دور کررہا ہے ۔ اس مرحلے پر اگر مزاحمتی خیمے اور قومی دھارے کے درمیان اتفاق رائے کی کوئی راہ نکل آتی ہے تو بھارت کے فوجی آپشن کو اور بھی بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے، لیکن اتفاق رائے کی گنجائش اس لئے نہیں ہے کہ کسی موقف کی خمیرمیں حقیقت پسندی کا عنصر نہیں ہے ۔نہ کوئی یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں اور نہ کوئی یہ ماننے کیلئے تیار ہے کہ الحاق پاکستان یا خود مختار کشمیر کے حصول میں ناقابل عبور رکاوٹیں حائل ہیں ۔
یہ وہ نازک اورحساس مرحلہ ہے جو اس بات کا تقاضا کررہا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں یکجا ہوکر اپنے اور اس قوم کے مستقبل کے بارے میں غور کریں ۔ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ وقت آسکتا ہے جب ہندوستان کا جھنڈا اُٹھانے والا بھی کشمیر میں کوئی نہیں بچے گا ۔ یہ اس مرحلے کا آغاز ہے کیونکہ سارا مین سٹریم ہندوستان سے برہم ہوچکا ہے ۔لیکن جس طرح ہندوستان کے اقتدار کا یہ بھرم ہے کہ طاقت کے بے دریغ استعمال سے کشمیر میں امن لایا جاسکتا ہے اسی طرح یہ بھی ایک بھرم ہے کہ کلاشنکوف سے ہندوستان کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔ہر انتہا کو لازمی طور پر نیچے اُترنا ہوتا ہے اس سے پہلے کہ یہ مرحلہ آجائے سیاست دان اس تحریک کے استحکام کی بھی راہیں تلاش کرسکتے ہیں اور ایک متحدہ اور قابل عمل موقف بھی اختیار کرکے قوم کو آگے بڑھنے کی راہ دکھاسکتے ہیں ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)