معراج الدین مسکین
کسی بھی قوم یا معاشرہ کی زندگی میں دور اندیشی اور منصوبہ بندی سے کام کرنے کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے اورپھر خود اعتمادی ،خود شناسی اور خود ضبطی اُن کی زندگی کو کامل بنادیتی ہے۔ہمارے اپنے اس خطہ میںرہنے والے معاشرے کے لوگوں کو اِنہی چیزوں سے نفرت ہے،گویا اپنے خیالات کو اپنا جیل خانہ بنادیا ہےاور ناک کے آگے سے زیادہ دور تک دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔جہاں کسی نے کوئی جذباتی نعرہ لگادیا، بھڑک کر اُسی کے ساتھ ہولئے ، یہ بھی نہ دیکھا کہ اُس کی بات قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔اسی اصول پرستی نے ہمارے معاشرے میں طرح طرح کے اختلاف اور انتشار کو جنم دیا ہے۔ہم نے جس شخصیت سے محبت کی، اُس کے بارے میں اِتنے غلو سے کام لیا کہ ہر خوبی ہمیں اُسی میں نظر آئی ،خواہ وہ دینی اعتبار سے تھی یا علمی و سیاسی اعتبار سے ۔ہم نے اگر اُسے سب سے بڑا عالم سمجھا تو سب سے بڑا زاہد و متقی اور مُرشد و رہنما بھی تصور کیا ،اُس کی کسی طرح کی خامی کو ہم نے تسلیم ہی نہیں کیا اور نہ اُس کی کسی رائے سے اختلاف کو برداشت کردیا ،چاہے وہ رائے بجائے خود کتنی ہی غلط کیوں نہ ثابت ہوئی ہو۔جس شخص کو ہم نے ناپسند کیا ،اُس میں ہمیں دنیا بھر کے عیب نظر آئے ، اُس کی رہبری میں نہ کوئی خوبی نظر آئی اور نہ اُس کے کردار و تقویٰ میں۔دوسرے معاشروں کا عام مزاج یہ ہے کہ اگر وہ کسی کی خوبیوں کو اُجاگر کرتی ہیں تو خامیوں کی پردہ پوشی بھی نہیں کرتی ہیں،وہ نہ تو کسی فرد کی اندھی عقیدت میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ اُس سے اختلاف ِ رائے رکھنے والے کسی فرد کی اندھی رقابت میں حدیں پُھلانگتے ہیں۔بے اعتدالی کے اسی مرض نے ہماری معاشرے میں ہر طرح کے مُشکلات اور مسائل پیدا کئے ہیں ۔یہ بات ہرفرد کے لئے بھی اہم ہے اور جماعت کے لئے بھی کہ ہر کام غور وخوض کے بعد سوچے سمجھے طریقے سے کرے اور وقتی اشتعال میں آکر نہ تو اپنی راہ کھوٹی کرے اور نہ اپنے جائز راستے سے ہٹے،لیکن ہمارا معاشرے کا مزاج کچھ ایسا بگڑ گیا ہے کہ ہم بہت جلد اشتعال میں آکر غلط قدم اٹھالیتے ہیں اور اِسی اشتعال پذیری کے سبب ہمارےرقیب جب چاہتے ہیں ہمیں اشتعال میں مبتلا کرکے ہم سے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرلیتے ہیں۔حق تو یہ ہے کہ اسی شدید اشتعال پذیری ،شخصیت پرستی ،جلد بازی اور شوریدہ سری کے نتیجے میں ہمارا بے اندازہ جانی و مالی نقصانات اُٹھانے کے باوجود ہم اب تک کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہ گئےہیں، ورنہ جس سچائی کے ہم دعویدارتھے، اُس میں تو صبر و تحمل سے کام لینے کی تعلیم دی گئی تھی اور سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانے اور پھر قدم اُٹھانے کے بعد پامردی و استقامت سے کام لینے کا درس بھی دیا گیا تھا لیکن ہم ہیں کہ آگ کے شعلوں کی طرح بھڑک جاتے ہیں اور پانی کے چند چھینٹوں سے بُجھ جاتے ہیں،جتنی جلد ناراض ہوتے ہیں اُس سے زیادہ تیزی سے خوش ہوکر بہل بھی جاتے ہیں،پانی کے بُلبُلے کی طرح اُٹھتے ہیں اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں ،گویانہ ہماری حمایت قابلِ اعتبار رہتی ہے اور نہ ہی ہماری مخالفت۔اسی دوہرے معیار و کردار کا ثبوت موقع بے موقع اپنے ردِ عمل کی صورت میں دیتے رہے ہیں اور آج بھی صورت ِحال اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔آج بھی یہ معاشرہ بے نگہبان کا ایک ریوڈ معلوم ہوتی ہے اور ہر کَس ناکَس کو اس کے معاملات میں دخل اندازی کرنے اور انتشار پھیلانے کابھر پورموقع فراہم کرتے ہیںاورایک ہی ڈال کے پنچھی ہونے کے باوجود بھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں مصروفِ عمل ہیں۔دوسری قوموں یا معاشروںمیں آج شدید اختلاف کے باوجود آپس میں اتحاد و اتفاق ہے،ایک دوسرے کی رائے کی مخالفت کے باوجود وقعت ہے،وہ آپس میں در پردہ بلکہ علی الاعلان مشورے بھی کرلیتے ہیں اور ہم ہیں کہ کسی قائد کی حمایت یا اُس کی حمایت میں ہونا اِسی کو سمجھتے ہیں کہ اُس کی مخالف جماعت سے برسرپیکار رہیں اور اس کی توہین و تذلیل کریں۔ماضی کی غلطیوں سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے آج بھی ہم اپنی غرض کے دیوانے بنے ہوئے ہیںاور مختلف صورتوں میں اس کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں ،انجام ِ کاراس صورتِ حال کے کارن ہمارے معاشرے میںطرح طرح کے مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیںاور چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر معاشرے کے دور رس مفادات کو زک پہنچ رہا ہے۔حالانکہ بے سوچے سمجھے عاجلانہ اقدام کے بجائے اصلاح ِ حال کی تدابیر اختیار کرنا ہی دانش مندی ہے اور نارَوا کش مکش کی راہ اپنانا اس معاشرے کو تباہ کُن صورتِ حال سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔