بلال فرقانی
سرینگر//کشمیر ایک بار پھر سیلاب کی زد میں ہے۔ 2014 کے تباہ کن سیلاب کو گزرے11 سال ہو چکے ہیں، لیکن دریائے جہلم کی صفائی مکمل ہوئی، نہ اس کے حفاظتی بندوں کو پائیدار بنایا گیا اور نہ سیلاب سے بچائوکے کسی موثر منصوبے پر عمل درآمد کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی خطرناک حد تک 2014 کے حالات سے مشابہت ہے، جب پوری وادی پانی میں ڈوب گئی تھی اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے تھے۔
ڈریجنگ
وادی میں سیلابی خطرات کے باوجود 5برسوں سے جہلم کی ڈریجنگ بند ہے، نئے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں، اور موجودہ فنڈنگ کا مؤثر استعمال کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی صورتحال میں یہ سوال شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا ہم ایک اور تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ یا پھر لاکھوں کشمیری شہری ایک بار پھر سرکاری غفلت کا خمیازہ بھگتنے والے ہیں؟۔محکمہ کا دعویٰ ہے کہ مالی سال 2023-24کے دوران 670 کلومیٹر لمبے نہری نظام سے تلچھٹ گاد(Silt) نکالی گئی اور 2.90 لاکھ مکعب میٹر کیچڑ صاف کیا گیا۔ البتہ مالی سال 2024-25کے اعداد و شمار اب تک مرتب نہیں کئے گئے ہیں۔محکمہ آبپاشی و فلڈ کنٹرول کی دستاویزات کے مطابق دریائے جہلم میں ڈریجنگ کا عمل مارچ 2020 سے مارچ 2025 تک مکمل طور پر بند رہا ہے۔ اگرچہ ابتدائی کام کلکتہ کی ایک کمپنی ’ریچ ڈریجرز‘ کو دیا گیا تھا، تاہم 2018 میں سینٹرل واٹر اینڈ پاور ریسرچ سٹیشن کی رپورٹ کے بعد سنگم سے عشم تک ڈریجنگ روک دی گئی، اور تب سے یہ عمل مکمل طور پربندہے۔ دریا میں گاد(Silt) بڑی مقدار میں دوبارہ جمی ہوئی ہے، جس سے اس کی گہرائی کم ہو چکی ہے اور پانی کی گنجائش بھی بری طرح متاثر ہوگئی ہے۔
دریا کی گنجائش
محکمہ کے مطابق کچھ مقامات پر پانی کی گنجائش میں بہتری ضرور آئی ہے، مثلاً سنگم تا پادشاہی باغ تک دریا کے بہائو کی گنجائش 31,800 سے بڑھ کر 41,000 کیوسک اوررام منشی باغ میں 27,000 سے بڑھ کر 32,000 کیوسک ہو گئی ہے۔ تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ 2014 میں رام منشی باغ میں بہائو کی سطح 60,000 کیوسک تک جا پہنچی تھی۔پادشاہی باغ کے آوٹ فلو میں 4,000 کیوسک سے 8,700 کیوسک، وولر کے ننگلی آوٹ لیٹ پر 20,000 کیوسک سے 22,700 کیوسک اور سوپور کے مقام پر 31,000 کیوسک سے 35,000 کیوسک تک کی بہتری آئی ہے۔جس کا مطلب ہے کہ موجودہ بہتری ناکافی ہے اور وادی آج بھی شدید سیلابی خطرے کی زد میں ہے۔
وزیر اعظم پیکیج
مرکزی حکومت نے 2015میں وزیر اعظم ترقیاتی پیکیج کے تحت دریائے جہلم کے لیے ’جامع فلڈ مینجمنٹ پروگرام‘ کی منظوری دی تھی، جو دو مراحل میں نافذ ہونا تھا۔ پہلے مرحلے کیلئے 399 کروڑ روپے منظور ہوئے، جن میں سے 328 کروڑ خرچ کیے جا چکے ہیں۔ تاہم 31 میں سے صرف 16 ترقیاتی کام مکمل ہو پائے ہیں۔ دوسرے مرحلے کے تحت مزید 160 کروڑ روپے واگزارکئے گئے، جو خرچ تو ہو چکے ہیں، لیکن اس کے تحت کوئی نیا یا مؤثر منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ مجموعی طور پر 487 کروڑ سے زائد کی رقم ’جامع فلڈ مینجمنٹ پروگرام‘ کے تحت خرچ کی جا چکی ہے، لیکن سیلاب سے تحفظ کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی ادھورا ہے۔جہلم کی گنجائش بڑھانے کیلئے جو کام کیے گئے ان کے نتائج صرف اعداد و شمار میں نظر آتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ 1,630 کروڑ روپے وزیر اعظم کے پیکج کے تحت دریائے جہلم کے لیے منظور کیا گیا تھا، جو یہاں استعمال نہیں کیا گیاہے۔مفتی نے کہا کہ جموں و کشمیر نے 2014 کے بعد کے سیلاب کی تعمیر نو اور بحالی کی کوششوں کے لیے عالمی بینک سے 1500 کروڑ روپے کا قرض بھی لیا تھا، لیکن یہ کام ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔
ماحولیات
ماحولیاتی تبدیلی، شدید بارشوں اور گلیشیروں کے پگھلنے جیسے عوامل طغیانی کے خطرے کو بڑھا رہے ہیں، لیکن وادی کا حفاظتی نظام بدستور کمزور اور ناکافی ہے۔ان تمام حقائق کے باوجود حکام کی طرف سے صرف اعداد و شمار کا سہارا لیا جا رہا ہے، جب کہ زمین پر حقیقت بالکل مختلف ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک کسی بھی متعلقہ محکمہ نے مرکز کو کوئی نئی تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ نہیں بھیجی ہے۔ اگرچہ’’جہلم،توی فلڈ ریکوری پروجیکٹ‘‘ نے ایک ابتدائی سٹیڈی مکمل کی ہے، لیکن نہ تو اس کا ڈی پی آر (تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ) تیار ہوئی ہے، اور نہ ہی اسے حکومت ہند کو ارسال کیا گیا ہے۔