اگلے زمانے میں کوئی ایک اللہ دین ہوا ہوگا مگر ہمارے ادب میں کئی اللہ دین ہیں۔ یہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب دئے بجھ جاتے ہیں تاکہ یہ اپنے چراغ کو رگڑ سکیں اور کام کے جن کو اپنے مٹھی میں کریں۔ ایک ادیب نے تو نوازؔ دیوبندی کا یہ شعر زندگی کا وظیفہ ہی بنالیا ہے ؎
یہ کرم بھی کم نہیں ہے پر تیرا رب کریم
برہنہ پیدا ہوئے ملبوس دفنائے گئے
بات سے بات بنتی ہے اور انسان ترنگ میں آکر کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ محبوبہ جی نے یہاں کے لوگوں سے فرمایا تھا کہ ان تیس برسوں میں آپ نے کیا جیتا، ایک انچ بھی آزاد نہ کراسکے۔ صحیح فرماتی ہیں مگر محترمہ نئی دہلی والوں سے بھی تو یہ فرمادیجئے کہ ان تیس برسوں میں آپ لوگوں نے بھی یہاں کیا جیتا؟کتنے دل جیت سکے؟ جنگ تباہی کا نام ہے، اس میں ہر فریق سوگوار ہی ہوتا ہے۔بات چیت لاحاصل بھی لگے مگر یہ ایک سڑک کی مانند ہے جو رہتی تو ایک ہی جگہ ہے مگر مسافر کو منزل تک پہنچادیتی ہے۔ ایک شاعر صاحب کا کہنا ہے ؎
لازم ہے بہت دل کا بھی جھکنا میاں حیرت
سر صرف جھکالینے سے سجدہ نہیں ہوتا
بات سے بات بنتی ہے اور پھر یوں ہی دراز ہوتی ہے۔ ایسے ہی صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے اور یوں ہی زندگی تمام ہوتی ہے۔ کارل مارکس نے شکم کو زندگی کا مرکزی مقام بنایا اور شکم کے گرد ہی اس کا سارا فلسفہ گھومتا ہے مگر اُسے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ جو محبوب کے عشق میں اپنے آپ سے ہی دستبردار ہوچکا ہو وہ شکم سے نہیں دل سے گرمی لیتا ہے۔ جو فنائیت میں مقیم ہو اور یکتوئی کا مسافر ہو، اُس کی غذا کا بندوبست اس کا محبوب ہی کرلیتا ہے، جو بلبل قفس میں بند ہے وہ آزاد فضاوں میں اُڑان بھرنے والے شاہین کے لطف وسرور کا ادراک کیسے کرسکتی ہے؟ جب تک نفس کے حصار کو تزکیہ سے توڑو گے نہیں حقیقت تک رسائی محال ہے۔ تاہم اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ جس طرح زندگی کے لئے ہوا، روشنی اور پانی کی ضروت ہے، اسی طرح روٹی کے بغیر زندگی قائم نہیں رہ سکتی اور انسان کے لئے یہ اتنی ہی اہم ہے جتنی روشنی، پانی اور ہوا۔ یہ چیزیں نہ ہوں گی تو زندگی بھی نہ ہوگی۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ دین کے چھ رُکن ہیں، کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج اور چھٹا رُکن ہے روٹی، اور روٹی وہ رُکن ہے جس پر باقی ارکان کا دارومدار ہے،یعنی اس بزرگ کا مطلب ہے کہ زندگی روٹی سے چلتی ہے اور کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج زندگی سے تعلق رکھتے ہیںمگر روٹی ضرورت ہے مقصد نہیں۔ یہ شکم کی ضرورت ہے مقصود نہیں۔ گمراہ تو وہی لوگ ہیں جو روٹی کو ضرورت سے اُٹھاکر معبود بنالیتے ہیں اور راہ بھٹک کر ناکامی کی موت مرتے ہیں۔ دانا وہ ہیں جو روٹی کو ایک گھوڑے کی مانند خیال کرتے ہیں کہ منزل تک جانے اور مقصود پانے کے لئے یہ ایک ضرورت ہے، فی ذاتہٖ منزل اور مقصود نہیں اور یہی لوگ کامیاب ہوکے مرتے ہیں۔ اپنی ساری زندگی کو جو روٹیوں کے پیچھے لگالیتے ہیں اور رات دن روٹیوں کی فکر میں گزارتے ہیں وہ روٹیوں ہی کی جیسی موت مرتے ہیں کہ روٹی کا انجام آخر فضلہ ہے جو کھانے کے بعد اس کی صورت بن جاتی ہے۔ جو اسے بقدر ضرورت کماکر اپنی زندگی کا حتمی وظیفہ نہیں بناتے ،وہ اسے دیانت داری سے کماتے ہیں، اس کے پیچھے دیوانہ ہوکر دغا اور دھوکے میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اب رہی ہماری بات،،بھائی ہمیں زندگی میں کسی نے اپنا محبوب نہیں بنایا مگر ہم ہر کسے کے عاشق بن کر جیتے رہے، یوں زندگی سے لطف لیا۔ اس لئے اپنا کام یہ بنایا ہے کہ اپنی رائے دوستوں تک پہنچا دیں اور پھر سبکدوش ہوجائیں۔
میرا ایک دوست ہے، اس نے مجھ سے سوال کیا کہ یہاں جو گدھے تھے ،وہ آخرکہاں غائب ہوگئے، آج تو یہاں ایک بھی نظر نہیں آتا جب کہ سنا ہے یہاں بہت ہوا کرتے تھے؟ میں نے کہا تم نے صحیح سنا ہے، ایک وقت تھا کہ یہاں کثرت سے گدھے دیکھے جاتے تھے، پھر یوں ہوا کہ ایک دن ایک بڑھیا نے کسی مجمع میں ایک پیر صاحب کو وعظ فرماتے ہوئے سنا،وہ بھی سننے بیٹھ گئی۔ پیر صاحب وعظ فرماتے فرماتے ایسے جلال میں آگئے کہ مجمع سے مخاطب ہوکے فرمایا:’’میں نے تو گدھوں کو بھی انسان بنادیا ہے مگر تم سے تو میں ہار گیا ،تم ایسے ڈھیٹ ہو کہ ویسے کے ویسے ہی رہے جیسے پہلے تھے‘‘۔ یہ سن کر بڑھیا کو پیر صاحب میں ویسی ہی اُمید کی کرن نظر آئی جیسی گاندھی جی کو1947ء میں کشمیر میں دکھائی دی تھی، مگر اسے کیا کیا جائے کہ پھر بھارتی نیتاؤں کی نظروں پر ایسا پردہ پڑگیا کہ انسانیت ہی برہنہ ہوگئی۔ بہرحال جب پیر صاحب وعظ سے فارغ ہوگئے تو بڑھیا اُن کے پاس گئی اور نہایت ہی عاجزی سے فریاد کی کہ پیر صاحب !آپ تو گدھوں کو انسان بناتے ہیں، میری کوئی اولاد نہیں جو میرا خیال رکھے، میرے پاس بس ایک گدھا ہے، آپ مہربانی کریں ، مجھ بڑھیا پر ترس کھائیں، اُس گدھے کو بھی انسان بنادیں تاکہ میرا بھی کوئی خیال رکھنے والا، دیکھ بھال کرنے والا گھر میں رہے۔ پیر صاحب نے بڑھیا کی یہ رُوداد سنی تو شش پنج میں پڑ گئے، سوچا بڑھیا کو کیا جواب دوں؟ آخر بہت سوچ بچارکے بعد ایک خیال ذہن میں آیا اور بڑھیا سے کہا:’’ اچھا لاؤ اپنے گدھے کو میرے پاس ‘‘۔بڑھیا گھر گئی، وہاں سے گدھا لائی اور پیر صاحب کے حوالے کر گئی۔ پیر صاحب نے کہا:’’ اب تُو جا اور ایک ہفتے کے بعد میرے پاس آجانا‘‘۔ اِ گدھے پر کچھ کام کرنا ہوگا اور اسے انسان بنانے میں ایک ہفتہ لگ ہی جائے گا۔بوڑھی خوشی خوشی گھر چلی گئی اور سوچتی رہی کہ میرے بُرے دن بھی ختم ہوگئے، خدا نے میری سن لی اور ایسے پیر صاحب سے میری مدبھیڑ کرادی جو گدھوں کو انسان بناتا ہے، اب میرے گھر میں بھی ایک انسان آئے گا، وہ میرا بیٹا بنے گااور میری مصیبتوں کو خوشیوں میں بدل دے گا اور اب میرے گھر میں بھی خوشحالی آئے گی جو کھیتوں میں ہریالی لائے گی۔ بڑھیا کو یہ کون بتاتا کہ اس دور کے بیٹوں سے نہ گھر میں خوشحالی آتی ہے اور نہ اس دور کی اولاد کھیتوں میں ہریالی ہی لاتی ہے بلکہ جب انہیں پالا پوسا جاتا ہے، لکھایا پڑھایا جاتا ہے اور وہ کمانے کے لائق ہوجاتے ہیں اور پھر اُن کی شادی ہوتی ہے تو ماں کو آیا بناتے ہیں اور باپ کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کی تمنا رکھتے ہیں، بس چلے تو ٹھکانے لگانے کی تدبیریں بھی کرتے ہیں، وہ محض جورو کے غلام ہو جاتے ہیں اور اس غلامی میں اُن کی پوری غیرت پگھل کر بھاپ بن کے اڑجاتی ہے اور پھر قدرت انتقام میں اُن کا ذہن وقلب بے شرمیوں سے اس طرح بھردیتا ہے کہ اُنہیں رسوائیاں بھی احساس پر بھاری معلوم نہیں ہوتیں اور عزت وناموس کو فرسودہ تصورات میں شمار کرنے لگتے ہیں، اور پھر ہمیں وقت نے یہ بھی دکھادیا ہے کہ جب انہیں اپنی تہذیب نے اپنی کنواری بیٹیوں کا ماں بننا دکھلادیا اور یہ بھی دکھلادیا کہ ان کی بیوی بھی انہیں اس وقت دغا دے گئی جب انہیں اس کی ضرورت تھی تو وہ پریشان ہوکر پچھتائے ضرور مگر اس وقت پچھتانا کوئی فائدہ نہیں دیتا جب چڑیا کھیت چگ گئی ہوتی ہے اور ماں باپ بھی زمین کے نیچے چلے گئے ہوتے ہیں۔
خیر یہ بات یوں ہی نکل آئی کہ کچھ اولادوں کے مقابلے گدھے لاکھ درجے بہتر ہیں، اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ بات سے بات بنتی ہے۔ بات چل رہی ہے گدھے، بڑھیا اور پیر صاحب کی۔ وعدے کے مطابق ایک ہفتہ کے بعد بڑھیا انسان لینے پیر صاحب کے پاس آگئی۔ اب پیر دیتا تو کیا دیتا؟ پیر کچھ تذبذب میں پڑ گیا۔ پیر نے دیکھا کہ اُس کے مکان سے تھوڑی ہی دور ایک نیتا صاحب تقریر کررہا ہے، فوراً پیر کو ایک خیال سوجھا، اُس نے بڑھیا سے کہا:’’دیکھو بہن !معاملہ ایسا ہوا کہ جب میں تمہارے گدھے کو انسان بنارہا تھا کہ اس بنانے کے عمل کے دوران اُس میں مصالحہ کچھ زیادہ پڑگیا ،چنانچہ وہ بھاگ نکلا، اب دیکھو لگا ہے اُدھر لوگوں میں تقریر کرنے‘‘۔ یہ کہہ کر پیر نے اُس نیتا کی طرف اشارہ کیا جو اُس کے مکان سے تھوڑی ہی دور لوگوں میں تقریر کررہا تھا۔ بڑھیا کو بڑاغصہ آیا کہ میرے گدھے کو میری کوئی فکر نہیں اور بیٹھا ہے لوگوں میں مستی کرنے! اُس نے ایک ڈنڈا ہاتھ میں لیا اور نیتا کے قریب پہنچ کر اُس سے کہنے لگی: ’’ارے او گدھے! سیدھے طریقے سے گھر چل ،ورنہ مار مار کے ہڈیاں توڑدوں گی، گھر کی کوئی فکر نہیں اور بیٹھا ہے یہاں بکواس کرنے‘‘۔
پھر میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اُن تمام گدھوں کو، جو کچھ وقت پہلے یہاں جوق درجوق تھے، کچھ لوگوں نے آدمی بنانے کی کوشش کی مگر اُن میں مصالحہ زیادہ پڑگیا، پھر کوئی کلچرل اکیڈمی میں گھس گیا، کسی کو سیاست کا شوق چرایا اور نیتا بن گیا، کوئی حکومت میں گیا اور وزیر بن گیا، کوئی میونسپلٹی میں گیا تو بڑا افسر بن گیا، کسی نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا اور اخبار نکالا، کچھ کالم نگار بن گئے، کچھ نے ادب پر دھاوا بول دیا اور بڑے بڑے انعامات لے گئے، کچھ بیوروکریسی میں چلے گئے ، کچھ کو ٹیلی ویژن سٹیشن راس آیا اور کچھ کو ریڈیو کشمیر کے ادبی پروگراموں پر ٹھونس دیا گیا، کچھ کو منصب منبر ومحراب سنبھالنے کی رغبت پیدا ہوئی تو اسے ہی اپنا پیشہ بنالیا اور فرقہ بندی ،مسلک پرستی ، پارٹی بازی کو ہوا دینے لگا، کوئی یونیورسٹی میں داخل ہوکر کشمیری ڈپارٹمنٹ میں در آیا، کچھ نے ایجوکیشن میں جگہ لی، کوئی ڈاکٹری پر سوار ہوا اور کسی نے انجیٔنری میں پناہ لی۔ غرض ہر کسی نے کہیں نہ کہیں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرالیا۔
یہ سب سن کر میرے دوست نے مجھ سے پوچھا : ان گدھوں کو اب تلاش کیسے کیا جائے؟ مجھے ان کو دیکھنے کی خواہش ہے۔ میں نے کہا:یہ مشکل کام ہے، حاتم طائی کے سات سوالوں کی طرح، اس میں کئی قسم کے خطرات بھی د رپیش ہیں، اس تلاش میں پولیس بھی تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی، اگر کہیں تمہیں ایسا گدھا مل گیا اور اس نے دیکھ لیا کہ میری اصلیت کسی نے جان لی تو تمہیں ’’دیش دروہی‘‘ قرار دے سکتا ہے۔گزشتہ دنوں ایک آدمی سے ملاقات ہوئی ، وہ بولا: ’’حضرت! آپ کا گائے پر مضمون پڑھا‘‘۔ میں نے کہا،:’’اچھا کیا‘‘۔ وہ میری بات کو سمجھا نہیں اور ذرا تعجب سے پوچھا: ’’کیا اچھا کیا؟‘‘ میں نے کہا:’’ یہی کہ میرا گائے پر مضمون پڑھا‘‘۔ وہ اپنی ہی عقل کی خستہ حالی پرجھینپ سا گیا اور بولا: ’’اچھا اچھا ……….‘‘۔
میری عام طور یہی عادت ہے کہ جب مجھ سے کوئی کچھ پوچھتا ہے تو میں اُس کی توقع کے خلاف جواب دیتا ہوں، چنانچہ وہ پوچھنے والا سوچنے کے اعتبار سے کچھ مشقت میں پڑجاتا ہے اور میری بات کو سمجھنے میں اُسے تھوڑی سی دشواری ہوتی ہے۔ میں یہ اس لئے کرتا ہوں تا کہ لوگ مجھ سے ملنا جلنا کچھ زیادہ پسند نہ کریں اور اس طرح وہ میرے شر سے محفوظ رہیں اور میں اُن کے شر سے بچ جاؤں۔ اب دیکھئے، جس آدمی نے مجھے یہ کہا کہ آپ کا گائے پر مضمون پڑھا تو اُس کے ذہن میں یہ بات رہی ہوگی کہ میں اُسے یہ پوچھوں کہ آپ کو یہ مضمون کیسا لگا؟ پھر وہ پہلے کچھ تعریفی کلمات کہتا اور پھر اپنے مشورے کی لمبی چوڑی فہرست بھی پیش کرتا کہ اگر اس میں’’ یہ یہ‘‘ ہوتا تو مضمون زیادہ بہتر بن جاتا اور اگر’’وہ وہ‘ ‘ہوتا تو مضمون غضب کا بن جاتا۔ میں ’’یہ‘‘ اور’ ’وہ‘‘ کے مشورے تب سے سن رہا ہوں جب سے لکھنا شروع کیا تھا۔ پھر میں نے لکھنا بند بھی کردیا مگر لوگوں کا ’’یہ‘‘ اور’ ’وہ‘‘ بند نہ ہوسکا۔
پھر اُس آدمی نے مجھ سے کہا: ’’آپ گدھے پر مضمون کیوں نہیں لکھتے؟ لوگوں میں، خاص کر بچوں میں، بڑا اشتیاق نظر آتا ہے کہ جانیں یہ گدھا کیا چیز ہوتی ہے! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ کشمیر میں اب ایک بھی گدھا نظر نہیں آتا‘‘۔
میں نے حیرت سے پوچھا: ’’کس نے کہا بھائی؟ مجھے تو روز درجنوں ملتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں شاید کشمیر میں کہیں کوئی گدھوں کا مدرسہ کھلا ہے جہاں انہیں یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ نذیر جہانگیر سے ملا کرو‘‘۔
میری بات پر وہ آدمی بہت زور سے ہنس دیااور پھر بولا: ’’آپ نے گدھوں کو دیکھا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’آپ کی یاداشت تشویش ناک حد تک کمزور ہے، بہتر ہے علاج کی طرف توجہ دیں‘‘۔
وہ بولا: ’’یہ آپ نے کیسے جانا؟‘‘
میں نے کہا: ’’ایسے جانا کہ میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے روز درجنوں گدھوں سے سامنا ہوتا ہے اور آپ پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں نے گدھے کو دیکھا ہے‘‘۔
’’ہاں ہاں، میں واقعی بھول گیاتھا! پہلے لگا کہ آپ مذاق کررہے ہیں‘‘۔
’’کیا مذاق کے لئے اب گدھا ہی رہ گیا تھا! آج کے دور کا انسان اس بات کے زیادہ لائق ہے کہ اُس کا مذاق اُڑایا جائے‘‘۔
’’ہاں وہ تو ہے۔‘ ‘ پھر کچھ توقف کے بعد اُس آدمی کا سوال تھا: ’’یہ جو گدھا اپنی بے وقوفی میں بڑا شہرت پا چکا ہے، یہ کس وجہ سے ہے؟‘‘
’’اس لئے کیونکہ وہ نذیر جہانگیر کے افسانوں کو سمجھ نہیں پاتا‘‘۔
’’پھر تو شکر ہے کہ مجھے آپ کا گائے پر مضمون پوری طرح سمجھ میں آیا تو ظاہر ہے کہ میں گدھا نہیں ہوں‘‘۔
’’ یہ بتاتا چلوں کہ ایک ہوتا ہے گدھا، دوسرا ہوتا ہے گدا یعنی بھکاری، تیسرا ہوتا ہے گدّا یعنی روئی کا بستر، ایک اور ہوتا ہے گدیلا یعنی میلا ……….‘‘۔
’’میں آپ کو کیا لگتا ہوں؟‘‘ اُس نے میری بات کاٹتے ہوئے پوچھا
’’اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ قبل از وقت ہوگا ۔‘‘ میں نے جواب دیا
’’کیا گدھا ہنستا بھی ہے؟‘‘پھر وہ اپنے سوال پر خود ہی زور سے ہنسا
’’ہاںاور بڑی زور سے ہنستا ہے‘‘ میرا جواب تھا
’’مگر ہنستا کیوں ہے؟‘‘
’’یہ آپ خود سے پوچھ سکتے ہیں‘‘۔
’’میں سمجھا نہیں‘‘۔
’’اس میں آپ کی خطا نہیں ہے‘‘۔
’’کیا آپ نے کبھی کسی گدھے کو مسکراتے دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں،جب ایک گدھے نے دُولہا کے روپ میں مجھے دیکھاتھا‘‘۔
’’اور روتے ہوئے کبھی دیکھا؟‘ ‘اُس کا اگلا سوال تھا
’’ہاں، جب شادی کے اگلے روز اُس نے مجھے دیکھاتھا‘‘۔