تیری بزم میں ابھی اور گل کھلیں گے
اگر رنگ یارانِ محفل یہی ہے
مغربی ہندوستان کی ریاست گجرات جوکہ صنعتی اور تجارتی لحاظ سے ایک ترقی یافتہ ریاست سمجھی جاتی ہے، آج کے مودی دور کی بدولت نہیں بلکہ اس سے پہلے کے دور سے ہی اس ریاست کو یہ ا متیا زحاصل رہا ہے ،کیونکہ ان بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار گھرانوں کا تعلق اسی ریاست سے ہے، جنہوںنے باقی ملک کی نسبت صنعت کے کارخانے اور تجارتی ادارے اس ریاست میں زیادہ مقدارمیں قائم کررکھے ہیں۔ اس لئے تلاش روزگار کے لئے شمالی ہندوستان خصوصاً بہار اور اُترپردیش کے محنت کش روٹی روزی کمانے کے لئے بڑی تعدادمیں اس ریاست میں جاتے ہیں اور رہائش رکھتے ہیں۔ ان محنت کشوں کی تعداد لاکھوں افراد پر مشتمل ہے۔ ان مزدوروں ، کاریگروں اور محنت کشوں نے نہ صرف اپنے روزگار اورروٹی روزی حاصل کرنے کے لئے اس ریاست سے عارضی طورپر اپنا مسکن بنایاہے بلکہ گجرات کی ترقی اور تعمیر میںبڑا حصہ اد ا کیاہے۔ بدقسمتی سے اب علاقہ پرستانہ منافرت بھری سیاست کے جادو سے آج یہ ریاست با شندگانِ شمالی ہند کے لئے وبال جان بن گئی ہے۔ گزشتہ دنوں شمالی ہندوستان کے ان باشندوں جن میںبہاراور یوپی کے باشندوں کی تعداد زیادہ ہے کے خلاف زبردست حملے ہوئے ہیںا ور اس ریاست سے انخلاء کی دھمکیاں ملی ہیں۔ اس کے باعث ہزاروں کی تعداد میں ان خوف زدہ لوگوں نے گجرات سے ہجرت کرکے اپنی اپنی ریاستوں کارُخ کیاہے اور باقی ماندہ بھی خوف وہراس کے عالم میں ہجرت کے لئے بسترباندھ رکھے ہیں۔ اس وجہ سے ملک بھرمیں تشویش کا اظہار کیاجارہاہے۔
شمالی ہند کے مزدوروں کی گجرات کے پس منظر میں بتایا جاتا ہے کہ اس ریاست بدری کی وجہ یہ ہے کہ کسی بہاری باشندہ کی طرف سے مبینہ طور ایک مقامی نابالغ لڑکی کی عصمت دری کرنے کے خلاف رد عمل بیان کیا جارہاہے۔ یہ فعل واقعی قابل مذمت ہے اور اس کی زبردست مذمت کی جانی چاہے۔ چاہے یہ بدفعل اوربدکاری کرنے والا شخص بہاری ہو یا گجراتی ہو یا کسی اور ریاست کا لیکن ایک بدمعاش شخص کی بدکرادری اور بدفعلی کے باعث سارے غیر گجراتی باشندوں کے خلاف یلغار کو کسی طرح بھی جائز قراردنہیںدی جاسکتی۔وزیر اعظم نریندرمودی گجرات سے تعلق رکھتے ہیں،گجرات میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت ہے، وہاں پرشمالی ہندوستان سے محنت مزدوری کرنے گئے ہوئے باشندگان کے خلاف وسیع پیمانہ پر حملے ہور ہے ہیں۔ مار پٹائیاں ہوتی ہیں اور اُنہیں ہجرت پرمجبور ہوناپڑتاہے۔ اس صورت حال کے پیدا ہونے سے مرکزی سرکار اور گجرات کی ریاستی سرکار کو بری الذمہ قرارنہیںدیا جاسکتاہے۔ شمالی ہندوستان کے باشندوں کو گجرات میںتحفظ دینے کی ذمہ داری گجرات کی ریاستی سرکار اور مرکز کی مودی سرکار پر عائد ہوتی ہے مگر افسوس کہ دونوں سرکاریں اُنہیں یہ تحفظ دینے میں ناکام رہی ہیں۔اس کے لئے اُن کی مذمت کی جانی چاہئے۔ لازمی ہے کہ دونوں سرکاریں گجرات میں محنت مشقت کرنے والے شمالی ہندوستان کے باشندوں کو تحفظ مہیا کریں اور وہاں سے ہجرت کرنے والے لوگوں کو واپس لانے کا انتظام کریں۔ ملک بھر کے لوگوں کافرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں زوردار مطالبہ کریں کہ ماردھاڑ کر نے والے عناصرکا قانون کی خوراک پلائی جائے۔ یہ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ تادمِ تحریر وزیراعظم نریندرمودی جنہیں گجراتی ہونے پر زبردست فخر وناز ہے، نے ا س مار دھاڑ اور خوف ودہشت کے سلسلہ میں اور شمالی ہندوستان کے باشندوں کے خلاف ان بے ہودہ یلغاروںکے خلاف زبان تک نہیں کھولی ہے۔ حالانکہ غیر ضروری معاملہ پر بھی وہ بیان بازی میںاپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسی معاملے پر نہیں بلکہ دیگر بڑے بڑے متنازعہ معاملات پر بھی وزیراعظم کی طرف سے خاموشی کا رویہ اختیار کرنا ہرگز ان کے منصب جلیلہ کے شا یان ِ شان اور مناسب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس قسم کے اہم ضروری اور متنازعہ واقعات کے متعلق وزیراعظم کی خاموشی قابل ِاعتراض سمجھی جاتی ہے اور اُن کے ناقدین بجا طورپر اس سلسلہ میں ان کی تنقید یںکرتے ہیں۔
غور سے دیکھئے تو ساری پارلیمانی سیاسی پارٹیاں فرقہ وارانہ، برادری ازم، علاقائی منافرت پیدا کرکے ووٹ حاصل کرنے کی تگ ودومیں مصروف ہیں اور منافرت اور نفرت پھیلانے میںایک دوسرے پربازی لے جانے میںمصروف ہیں۔ یہ دشمنانہ اور غیر مہذبانہ عمل تمام سیاسی پارٹیوں کے یہاں کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔ اس چیز نے ملک کوفرقہ وارانہ، علاقائی اور برادری ازم کے چکرویومیں دھکیل دیاہے ، خاص کر جب سے مرکز اور ریاستوں میں بھاجپا کی سرکاریں برسر ِ اقتدار آئی ہیں، یہ مجرمانہ اور مفسدانہ عمل تیز ترہوگیاہے اور مذہبی، علاقائی اور برادری وزبان ونسل کی بنیاد پر منافرت، نفرت اور تعصبات پھیلانا حکمرانوں کا دستور اُلعمل بن گیاہے۔ گجرات کی حالیہ شمالی ہندوستان کے باشندگان کے خلاف مہم اور یلغار بھی اسی حکمت عملی کانتیجہ ہے اور بھارت کی ایکتا اور سا لمیت کے لئے کسی لحاظ سے ٹھیک نہیں ۔ قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ بھاجپا کے اقتدار کے دورمیں منافرت ، بدامنی اور عدم روادداری کی وباء خوب پھیلی ہے اور بھاجپا کے بڑے بڑے لیڈر اس وباء کے پھیلانے میں دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ کون نہیںجانتا کہ ایودھیامیں بابری مسجد اور رام مندر کا معاملہ سپریم کورٹ میںزیرِ سماعت ہے لیکن بھاجپا کے اعلیٰ لیڈر ہی نہیںبلکہ مرکزی اورریاستی وزراء تک عدالتی کارروائی کو بالائے طاق رکھ کر مندربنانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ گئو رکھشا کے نام پر مال مویشی کے بیوپاریوں کو نشانہ بنا کر ہجومی تشدد کا نشانہ بنایاجارہاہے۔ لوجہاد کے نام پر بے گناہ لوگوں پر ستم ڈھائے جارہے ہیں۔ بیف کھانے کے نام پر عام گوشت کھانے والوں کو بھی قتل تک کرنے سے دریغ نہیں کیاجارہاہے۔ مردہ مویشیوںکی کھالیں صلف کرنے والے دلتوں پر گائو کشی کا الزام لگا کر قتل تک کیاجا رہا ہے۔ معمولی معمولی بہانہ سازی کرکے دلتوں کو لاٹھیوں کے ذریعہ ہلاک کیا جارہاہے۔ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو بعض مقامات پر پھونکا گیاہے۔ آسام میں چالیس لا کھ لوگوں کوغیر ہندوستانی قراردے کر ملک بدر کرنے کے اعلانات کئے جارہے ہیں اور یہ اعلانات بھاجپا کے صدر امت شاہ تک کررہے ہیں اور اب آسام کے بعد مغربی بنگال اور تریپورہ میں بھی یہ مطالبہ کرکے لاکھوں لوگوں کی بربادی کا انتظام کیا جارہاہے اور ایکتا مخالف احکامات دئے جارہے ہیں۔ اُترپردیش میںہزاروں اُردو اساتذہ کو برطرف کرنے کے احکامات دئے جارہے ہیں۔ غرض یہ کہ فرقہ واریت علاقائی تعصب اور ذات برادری کے نام پر تقسیم کرنے کاپورا انتظام کیا جارہاہے۔ اگر تفصیلات میں جایاجائے تو عوام کی تقسیم کرکے انتخابی اور سیاسی اغراض میں صفحوں کے صفحے درکارہیں۔ غرض یہ کہ بھاجپا دور ِ اقتدارمیں انتخابی اور سیاسی اغراض براری کے لئے عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کا کوئی ایسا حربہ نہیں ہے جو زیر استعمال نہ لایاجارہاہو ۔ اب چونکہ 2019میں لوک سبھا کے انتخابات نزدیک آرہے ہیں، اس لئے ان دنوں ان کے حربوں کے استعمال میں زیادہ تاؤ دکھائی دے رہا ہے۔ گجرات میں شمالی ہندوستان کے محنت مزدوری کرنے والے باشندگان کے خلاف یلغار بھی اس منافرت، عداوت اور تعصب پھیلانے کی کاروائیوں کا تسلسل ہے۔ بھاجپا نے اس یلغار کو پھیلانے کے لئے کانگرس پر الزام عائد کیاہے۔ ہوسکتاہے کہ کانگرسی بھی اس مہم میںشامل ہوں کیونکہ کانگریس بھی بھاجپا کی طرح لٹیرے طبقوں کی ہی جماعت ہے اور اُس نے بھی سیاسی و انتخابی اغراض کے لئے فرقہ واریت، علاقائی تعصب اور ذات برادری کی تفریق پھیلانے میںکبھی گریز نہیںکیا لیکن بنیادی طورپر بھاجپا سرکاریں اس قسم کی مہم بازیوں کی ذمہ دارٹھہرتی ہیں ۔ اس حقیقت سے کوئی ساون کا اندھا ہی انکار کرسکتا ہے۔
بعض اطراف کی طرف سے کہاجاتاہے کہ چونکہ گجرات کے مقامی لوگوں میں بے کاری اور بے روزگاری بڑھ گئی ہے، اس لئے وہاں ایک نابالغ لڑکی کی ایک بہاری شخص کی طرف سے عصمت دری کے واقعہ کی آڑمیں شمالی ہندوستان کے باشندگان کے خلاف یلغار اور مہم شروع کی گئی ہے تاکہ اُن کے انخلاء سے مقامی لوگوں کو روزگار اور کام کاج مل سکے۔ اگر اس دلیل کو ایک حد تک دُرست بھی تسلیم کرلیا جائے توواضح ہوتا ہے کہ بھاجپا کی طرف سے گجرات ماڈل کے نام پر تعمیروترقی اورروزگار دینے کے جو بڑے بڑے دعوے کئے گئے تھے ،وہ سب جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں۔ گجرات ماڈل کے خواب دکھا کر ہندوستانی عوام کاسر چکرا کر بھاجپا کے اقتدار کا سامان پیدا کیا گیاتھا اور بس۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گجرات ماڈل سراسر فریب تھا، جونہ صرف گجرات میں ناکام ثابت ہواہے بلکہ اس کا اطلاق ہندوستان بھرمیں ناکام اور نامراد ثابت ہوا۔ گجرات ماڈل کے خالق گجرات میں نریندرمودی تھے اور اس گجرات ماڈل کو پورے ہندوستان میںلاگو کرکے پورے ملک کو معاشی اورسیاسی بحران میںمبتلاکردیاگیاہے جب کہ غریب عوام گوناگوں مصائب کا شکار ہورہے ہیں۔
گجرات کے شمالی ہند کے شہریوں کو بھگاؤ والے واقعات سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ گجرات ماڈل سیاسی طورپر بھی اورمعاشی لحاظ سے بھی ناکام نعرہ ہے اور وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے اسے ملک بھرمیں نفاذ سے سارا ملک تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ گیاہے۔ بھاجپا کی طرف سے گجرات ماڈل کی پالیسیوں کے باعث ملک بھرمیں افراتفری عروج پر ہے۔ فرقہ وارانہ، علاقائی اور ذات برادری کا بول بالا ہے جوملک کی یکجہتی ، اتحاد، سا لمیت اور مضبوطی کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ معاشی بحران بدرجہ اُتم موجود ہے، بے کاری آسمان تک اونچی چھلانگیں لگا کر بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی نے تمام حدیں پار کرلی ہیں۔ رشوت اور بھرشٹاچار زوروں پر ہے۔ کنبہ پروری اور اقرباء نوازی لامثال ہے۔ لوگ نریندرمودی کے گجرات ماڈل کو بدل کر کسی دوسرے ماڈل کی تلاش میں ہیں لیکن مودی اور بھاجپا رضاکارانہ طورپر اقتدار سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نظرنہیں آتے۔ وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے اب 2014کے حربوں کی بجائے دیگر حربوں کو بروئے کار لانے کے لئے تیاری میںمصروف ہیں۔ بے شک باشعور عوام نے بھاجپا اور نریندرمودی کے دورِ اقتدار سے سبق ضرور سیکھاہے اوراس اقتدار سے خلاصی حاصل کرنے کے لئے عوام مصروف جدوجہد بھی ہیں۔ عوام کی اکثریت بخوبی سمجھنے لگی ہے کہ 2014میںبھاجپا کے لیڈروں اور خصوصاً وزیراعظم نریندرمودی نے کانگرس کی بدکرداریوں اور بدعنوانیوں کا خوب فائدہ اُٹھا کر اور عوامی بے چینی کو اپنے حق میں خوب استعمال کرکے اقتدار حاصل کرلیاہے لیکن عام آدمی کی فلاح و بہبود کے جو وعدے کئے گئے تھے، وہ عنقا ثابت ہوئے اور اب عوام مندرجہ ذیل شعر کے مطابق اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہیں ؎
گلوں کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکہ دیا مجھ کو
کہ میں نے فرطِ گل بو سی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
لیکن بھاجپا اقتدار کا قائم رکھنے کے لئے اس جماعت کے لیڈر جو درحقیقت دراصل اُس راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے رضاکارہیں جو فاسسٹ، فرقہ پرست، قدامت پسند اور دقیانوسی نظریات کی ترجمان ہے اور یادرکھئے کہ بھاجپا محض اُس کا سیاسی مکھوٹا ہے ۔سنگھ پریوارنے اب کھلم کھلا منافرت اور نفرت کی سیاست کو آئندہ انتخابات لڑنے اور کامیابی حاصل کرنے کے ضمن میں اپنی حکمت عملی کے طور بروئے کارلانے کا تہیہ کرلیا ہواہے۔ یہ بھاجپا کے صدر امت شاہ اور دیگر لیڈروں کی تقاریر اور بیانات سے بخوبی عیاں ہوتا ہے۔ اس زہر ناک حکمت عملی کے باعث ملک میںفرقہ وارانہ ، علاقائی تعصب اور برادری ازم کی تقسیم کا زبردست خطرہ ہے، جس سے پیشگی آگاہ رہنا ہت محب وطن کا فرض اول ہی نہیں بلکہ اس رُحجان کے خلاف جدوجہد کرکے اسے شکست دُنیا بھی لازمی ہے ۔اس سلسلے میں بھاجپا ( راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی ایک ذیلی تنظیم )کے مقابلہ کے لئے کانگریس اور راہل گاندھی کی قیادت میں موجودہ حکمرانوںکی طرف سے جو متبادل اُبھاراجارہاہے، وہ بھی بنیادی طورپر موجودہ حکمرانوں سے ہرگز مختلف نہیںہے۔ زبانی جمع خرچ کے ذریعہ وہ بے شک موجودہ حکمرانوں پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں لیکن سیاسی معاشی، مالی اور اقتصادی پالیسیوں کے سلسلہ میں اُن کا بنیادی طورپر کوئی اختلاف نظرنہیں آتا۔ وہ بھی ہندوستان کے لٹیرے حکمران طبقوں سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کے ہی ترجمان اورمحافظ ہیں۔ بھاجپا اقتدار سے پیشتر وہی اس ملک کے حکمران تھے۔ اُنہوںنے محنت کش عوام کو دھوکہ ہی دیاہے اورلٹیرے حکمران کا ہی تحفظ کیاہے۔ بے شک وہ فرقہ پرستی کے سوال پر لفاظی کے لحاظ سے مختلف نظرآتے ہیں اور اپنے آپ کو سیکولر ازم کے علمبردار ہونے کے دعویدار بتاتے ہیں لیکن اُن کے عمل سے ظاہر ہے کہ سیاسی اور انتخابی اغراض براری کے لئے وہ فرقہ پرستی، علاقہ پرستی، برادری ازم کا ہی سہارا لیتے رہے ہیں اورانہوںنے سیکولرازم کا لبادہ بھی محض انتخابی اغراض براری کے لئے اوڑھ رکھاہے۔ اس وقت بھی بھاجپا کے متبادل لیڈر راہل گاندھی نرم ہندوتوکاجامہ زیب تن کرکے میدان میںنکلے ہیں اور گجرات کے حالیہ واقعات سے ظاہر ہے کہ علاقائی تعصب پھیلانے کے سلسلہ میں بھی اُن کی جماعت پیچھے نہیں ہے اور ذات برادری کا حربہ استعمال کرنے میں بھی برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔ صحیح الخیال لوگ بے شک نریندرمودی کی قیادت میں موجودہ حکمران گروہ سے نجات کے خواہاں ضرور ہیں اور اُن کی اقتدار سے محرومی کا خیرمقدم کریںگے لیکن راہل گاندھی کی قیادت اس کے متبادل اُبھر رہے پارلیمانی متبادل سے بھی اُنہیں کوئی اُمید نظرنہیںآتی کیونکہ 1947سے لے کر اس متبادل کے اقتدار کا تجربہ بھی اُنہوںنے کافی عرصہ تک کیاہے۔ اس معاملات کوغور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔واقعی اس وقت ملک انتہائی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ لٹیرے حکمران طبقوں کی ترجمان اورنگہبان پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کے اقتدار کا تجربہ اُنہوں نے بخوبی کرلیاہے، جس سے واضح ہے کہ ملک کی سیاست، معیشت غرض یہ کہ تمام معاملات میں ایسے انقلابی متبادل کی ضرورت ہے جو سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کے استحصالی اور لوٹ کھسوٹ کے نظام کو ختم کرکے مساوات پر مبنی صالح نظام بھی ختم کرسکے اور فرقہ وارانہ، علاقائی اور برادری ازم کے تعصبات اور مناقشات کو بھی ختم کرسکے۔ اس نظام کے قیام کی متحدہ جدوجہد کے ذریعہ ہی ان تعصبات اور مناقشات کاخاتمہ ہوسکتاہے اور گجرات جیسے علاقائی تعصبات کا انسداد ہوسکتاہے۔