اُتر پردیش کی یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے سال نو کی شروعات گئو ماتا کے تحفظ کی سیاست سے شروع کر دی ہے۔
و زیر علیٰ یوگی نے کابینہ کی ایک میٹنگ کی صدارت کی اور اس فیصلہ پر مہر لگا دی کہ گئو کے تحفظ کی خاطر عوام کی جیب سے 5۰0 فیصد ـسیس لیا جائے گا۔اس ٹیکس کو واجب الاد قرار دینے والوں کی دلیل ہے کہ اس سے جو رقم سرکاری خزانے میںجمع ہوگی، اس کا استعمال بے سہارا چھوڑے جا رہے مویشیوں کے لیے ’’شیلٹر ہائوس‘‘ بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ رقم مویشیوں سے متعلق دیگر فلاحی کاموں میں صرف کی جائے گی مگر ان سب کے پیچھے اصل مقصد خالص سیاست کرنا ہے۔ ٹیکس کے بوچھ تلے دبی جنتا پر ایک اور عجیب وغریب ٹیکس لاد دیا گیا، جس کا نہ تو کوئی سروکار گئو ماتا کی دیکھ بھال سے ہے اور نہ کسی مویشی کے تحفظ سے بلکہ اس کا اصل ہدف یہ ہے کہ ہندوتو ایجنڈے کے عین مطابق دھرم کے نام پر سیاسی محل تعمیرکیا جائے ۔
تاریخ کے صفحات اس بات کی وافر گواہی دیتے ہیں کہ ہندو فرقہ پرست لیڈروں نے اول روز سے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ پوری ہندو قوم کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر کسی نہ کسی جذباتی نعرے کے بل پر جمع کرنا ہے تو ان کے کھٹور دلوں اور بنجر دماغوں میں مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف از حد نفرت بھرنے کی سوجھی۔ انہوں نے طے کیا کہ فرقہ پرستی کے پجاریوں کا آنکھیں بند کر کے ساتھ دینے والوں کے ذہنوں میں یہ جھوٹ بھی بٹھانا ہوگا کہ’ گئو ماتا‘ کی بے حرمتی کے ذمہ دار اصل میںمسلمان اور دلت ہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ روزاول سے آر ایس ایس کا یہ کاذبانہ پروپیگنڈہ رہا ہے کہ بھارت میں گوشت کے حصول کے لئے گایوں کو ذبح کرنے کا ناپاک سلسلہ مسلم دورِ حکومت میں شروع ہواتھا۔حالانکہ تاریخ کے ثبوت و شواہد ان کذب بیانیوں کو لغو اور بے معنی ٹھہراتے ہیں ۔نامور تاریخ دان ڈی این جھا نے اپنی کتاب ’’ دی متھ آف ہولی کائو ‘‘ (The Myth of Holy Cow) میں یہ بات وضاحت کے ساتھ درج کی ہے کہ ویدک زمانہ اور اس کے ما بعد زمانے میں گائے کا گوشت کھانے کا رواج عام تھا ۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ گائے ہمیشہ سے ہندئووں کے نزدیک کوئی مقدس شئے نہیں رہی ہے ۔ویدک اور اس کے بعد کے برہمنی دور میں بھی معاملہ یہ نہیں تھا،یہاں تک کہ قدیم ہندستان میں گائے کا گوشت اکثرمقامات پر لذیز کھانے کے طور پر شامل تھا ۔اس کے علاوہ بھی تاریخ دانوں نے اس سلسلے میں اَن گنت تاریخی شواہد پیش کئے ہیں ۔عظیم تاریخ دان ڈی ڈی کو سمبی اپنے ایک ایک فکر انگیز مضمون ’’ ذات اور نسل ‘‘ (Cast and Race) میںکہتے ہیں کہ جس طرح ایک طرف ویدک دور کے برہمن گائے کا گوشت کھاتے تھے ،اسی طرح کشمیر ی،بنگلہ اور سرسوت برہمن گوشت کھابھی لیں تو بھی وہ اپنی ذات سے باہر نہیں ہوتے ۔جیسا کہ سر کردہ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ بعد کے زمانے میں گائے کے گوشت کو کھانے کے خلاف دھارمک لٹریچر تیار کیا جانے لگا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کوئی بھی ضابطہ اورقانون پوری طرح سے کسی بھی معاشرے میں نافذ نہیں کیاجاسکتا۔ جہاں ایک طرف برہمنوں کے ذریعہ لکھے گئے مذہبی پُستکوں میں بیف کھانے سے منع کیاگیا ہے، وہیں سماج جس میں اتنے سارے مذہبی، ثقافتی وعلاقائی اختلافات کے باوجود لوگوں نے اپنے طریقے سے زندگی کو جیا کہ بہت سے خطوں میں بیف کھانے کو برا سمجھا گیا مگر دیگر علاقوں میں لوگ اسے کھاتے بھی رہے اور کھلاتے بھی رہے۔
گائے کے گوشت کا مسئلہ دلتوں کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ جیسا کہ آئین ہند کے خالق ڈاکٹر امبیڈکر نے لکھاہے دلت ایک طبقہ کے طور پر چوتھی صدی (AD) میں سماج میں اُبھر کر سامنے آئے۔ ان کے وجود کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر مزید کہتے ہیں کہ ’’جب بودھ مت کو برہمن مت کے ذریعہ شکست سے دوچار ہونا پڑا اور برہمنوں نے سبزی خوری کو فروغ دینا شروع کیا، جس کے تحت گائے کا گوشت کھانا ممنوعہ قرار دیاگیا ہے ،گھومنتو قبیلہ (NomadicTribes) کے لوگ جو غریب و نادار تھے، ان کے لئے گائے کا گوشت ترک کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ ان کی زندگی میں گائے کا بڑا مقام تھا ۔ وہ نہ صرف گائے کے گوشت سے اپنا پیٹ بھرتے تھے بلکہ اس کی جلد اور مری ہوئی گائے کی دیگر اشیاء ان کی زندگی میں کافی مفید بھی تھیں۔ اس کے مد نظر ان کے لئے گائے کا گوشت ترک کرنا اور پوری طرح سبزی خور ہونا بہت مشکل تھا۔ بعدمیں برہمنوں نے گائے کا گوشت کھانے والے ان قبیلوں کا اچھوت(ٗUntouchables) کے طور پر سلوک کرنا شروع کر دیا اور اس طرح سے ہندوستان میں اچھوت پرتھا 1500سال پہلے وجود میں آیا، جو آج بھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوا ہے۔اگرچہ آزادی کے بعد اچھوت پرتھا کو آئینی طور سے قانوناًظلم قراردیاگیا مگر آج تک کبھی بھی دلتوں کے ساتھ پوری طرح سے انصاف نہیں ہوا۔ دلتوں کے ساتھ ساتھ بغض وعناد کی بنیادپر گئو رکشا سمیتیاں مسلمانوں کو بھی اپنے جان لیوا حملوں کا شکار بناتی جارہی ہیں۔آج کے دور میں جس طرح سے ’’ہولی کاؤ‘‘ کے نام پر ہندوئوں کو لام بند کیاجاتاہے، اسی طرح کی سیاست کی شروعات انگریزوں کے دور میں بھی شروع کی گئی تھی۔مثال کے طور پر 19؍ویں صدی کے اواخر میں ایک کے بعدایک بڑے فرقہ پرستانہ فسادات گائے کے نام پرشروع کئے گئے۔ ہندوئوں کے فرقہ پرست لیڈروں نے گائے کے جذباتی مدعے کا فائدہ اٹھا کر سیاسی روٹیاں سینکیں اور ہندوئوںکو اس بات پر اُکسایا جاتا رہا کہ گئو ماتا کے’ قاتل‘ مسلمان ہیں۔ 1870کے آتے آتے گائے کشی کے نام پر فساد ہونے شروع ہوگئے اور1882میں گئو رکشا تنظیم کا قیام آریہ سماج کے بانی دیانند سرسوتی کی قیادت میں ہوا۔ دیانند سرسوتی نے ہندوئوں میں آپسی اتحاد پیدا کرنے کے لئے جہاںگائے کے خود ساختہ تقدس کا سہارا لیا، وہیں انہوں نے مسلم مخالف سیاست کو ہوا دی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ہی گئو رکشا تحریک تیز ہوئی اور 1893میں اعظم گڑھ میں گائے کے نام پر ہوئے فساد میں 100سے زائد لوگ ملک کے مختلف حصوں میں مارے گئے۔ 1912-13میں جہاں گائے کے نام پر اجودھیاکی زمین لال ہوئی، وہیں 1917میں بہار کے شاہ آباد میں ایک تباہ کن فرقہ وارانہ فساد ہوا جس نے بہار کی سیاسی سرزمین کو ہندواورمسلمان کے نام پر باٹنا شروع کردیا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت کی سیکولر سمجھی جانے والی کانگریس جسے مسلمانوںکی ایک بہت بڑی حمایت اور شراکت حاصل تھی، اس معاملے میںانصاف نہیں کرسکی ۔ اس جماعت سے جڑے ہوئے کئی بڑے بڑے لیڈر خاص کر قصبہ اور ذیلی تنظیموں میں ہندومہاسبھاکے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف حملہ کرتے رہے ۔آزادی کے بعد ایسا لگا تھا کہ شاید گئو کشی کا تنازعہ ختم ہوجائے گا اور نئے بھارت میں سیکولر سیاست سب کو انصاف کرے گی مگر آزاد بھارت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندوستان کا کوئی بھی ایسا صوبہ نہیں تھاجہاں گئو رکشا کے نام پر معصوموں کا خون نہ بہایاگیاہو اور اس وقت کھلے عام انہیں سیاسی اور حکومتی سرپرستی حاصل ہے مگر یہ چیز ہمارے وشال دیس کی گنگا جمنی تہذیب کے لئے سم قاتل ہے ۔
…………………………..
(مضموں نگار شعبہ تاریخ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں)