1979 میں راقم کو تبلیغی جماعت کے ساتھ دس دن گزارنے کا موقع ملا۔جماعت علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے آئی تھی اور ان میں کچھ میڈیکل سٹوڈنٹس بھی تھے، کچھ انجینئرنگ کے، کچھ پی ایچ ڈی اسکالر اور کچھ اساتذہ۔جماعت کے امیر اردو ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر تھے۔ان کی شخصیت میں بلا کی کشش، بیان میں تاثیر اور گفتگو میں مٹھاس تھی۔میرا اُس وقت جماعت کے ساتھ جانا انہی کی وجہ سے تھا۔ ان کا بیان عام فہم الفاظ اور بہت پرمغز ہواکرتا تھا۔وہ اکثر بات کو مثال دے کر سمجھا تے تھے۔ایک بار انہوں نے دنیا اور آخرت کے نفع و نقصان پر بات شروع کی اور فرمایاـگائے کو خریدیئےدودھ کے لئے گوبر خود ہی آ جائے گا‘‘ مطلب دنیا گوبر اور آخرت دودھ۔ایک عقل مندانسان اس گائے کو خریدے گا جو زیادہ دودھ دیتی ہو، گوبر تو اس کو مل ہی جائے گا۔وہ شخص بےوقوف ہو گا جو گائے کو خریدتے وقت گوبر کا خیال رکھے گا اور دودھ کا خیال نہیں رکھے گا۔اسی طرح وہ شخص بےوقوف ہے جو صرف دنیا کی فکر کرے گا اور آخرت کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ جو شخص اپنی دنیا بنانے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرے گا اور حرام و حلال کا کوئی خیال نہیں رکھے گا، وہ دنیا پرست اور آخرت فراموش کہلائے گا۔ اس کے بر عکس جو شخص ہر وقت آخرت کی فکر کرے گا ،وہ دنیا میں صرف جائز اور حلال طریقہ سے کمائی کرے گا اور جائز اور حلال طریقہ سے خرچ بھی کرے گا۔دنیا بقدر مقدر اس کو مل کے رہے گی۔حاصل بحث یہ ہے کہ زندگی کو گزارو آخرت بنانے کے لیے دنیا خود ہی مل جائے گی۔دنیا میں رہ کر ہر کام شریعت کے مطابق کرو،دنیا کے فائدے کے لیے اپنی آخرت برباد مت کرو کیونکہ دنیا بہرحال فانی ہے اور آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔یہاں کی ہر چیز مال و دولت، عزت و حشمت، مکان و دوکان وغیرہ وغیرہ موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی لیکن اعمال اپنے ساتھ جائیں گے اور آخرت کی زندگی کا فیصلہ دنیا میں کے گئے اعمال کے مطابق ہوگا۔اگر میزان میں نیکیوں کا پلڑا ایمان کے ساتھ بھاری ہوگا تو ابدی کامیابی ملے گی اور اگر دنیا میں ایمان ہی نصیب نہ ہوا تو ابدی ناکامی ملے گی۔اگر ایمان کی حالت میں موت ہوگئی لیکن میزان میں بُرے اعمال کا پلڑا بھاری رہا تو بقدر اعمال ِبد جہنم کی سزا ملے گی۔ اس لئے وقت کو غنیمت جان کر آخرت کی فکر کریں۔اﷲ تعالیٰ ایمان کامل عطا فرمائے اور اعمال صالح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین.-
ا