ماسٹر طارق ابراہیم سوہل
شرار از خاک من خیزد، کجا ریزم، کرا سوزم
غلط کردی کہ در جانم فگندی سوز مشتاقی
مکدر کرد مغرب چشمہ ہائے علم و عرفاں را
جہاں را تیرہ تر سازد ، چہ مشائی چہ اشراقی (اقبالؔ)
دور حاضر کا انسان زہر شیرین کا عادی ہو چکا ہے کہ عیش و عشرت اور نفس پرستی اسکی زندگی میں شیر و شکر ہوچکی ہے۔ بہیمی جذبات کی تسکین کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ انا و لا غیری کے اس مرض مہلک نے انسان کی قبائے بصیرت و بصارت کو اسقدر چھلنی کر دیا ہے کہ چاک دامن رفعو کرنا دشوار ہی نہیں محال بھی لگ رہا ہے۔تاریخ انسانی میں حیا سوزی اور حق تلفی کی طویل داستانیں رقم ہیں مگر دور حاضر کا معاشرہ تمام تر ترقی کے باوجود اخلاقی اقدار کی معرفت حاصل کرنے میں کوسوں دور ہے۔اسکا لازمی نتیجہ روزانہ کی بنیادوں پہ ہمارے مشاہدے میں آ رہا ہے۔ہر طرف ہائے و ہو ہے۔ کہیں ماں باپ اولاد کی سرکشی پے نالاں ہیں تو کہیں بیوی شوہر کے طعن و تشنیع اور مار پیٹ کا ماتم کر رہی ہے۔کہیں عزت نیلام ہو رہی ہے تو کہیں کسی کا قتل ناحق صدائے فریاد بلند کر رہا۔ دنیا کی لذتوں کو حاصل کرنے کے لئے ہر طرف معرکہ آرائی نظر آ رہی ہے اور انسان کی عقل پے اتنا فتور چھاگیا ہے اور آنکھوں میں چاند اتر آیا ہے کہ موت کو بھی فراموش کر چکا ہےاور شیطان جب انسان کے دل و دماغ ہے قبضہ جما لیتا ہے تو پھر اسکے شب و روز اس دنیائے فانی کی دیدہ زیب مگر پر فریب رعنائیوں کےنذر ہو جاتے ہیں یوں اسکی ساری زندگی کہیں ماں باپ کے لئے، کہیں افراد خانہ کے لئے، کہیں ازواج و امہات کے لئے، بلکہ نگر نگر ، ڈگرڈگر اور مجموعی طور پوری انسانیت کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔جب الہام ربانی کی بجائے اوہام انسانی کا دستور رائج العمل ہو جائے تو پھر تصویر بھی ایسی ہی ابھرتی ہے۔ماضی کے مقابلے میں، دور حاضر میں چہاردانگ عالم میں گھر گھر، ایکطرف، تعلیم کے چراغ روشن ہو چکے ہیں مگر وہیں دوسری جانب بد معاشی اور بد قماشی،بد اخلاقی اور بد تمیزی، حق تلفی اور حیاسوزی،خونریزی و غارتگری کا سیل بے پناہ معاشرے کے سکون کو متزلزل کر رہا۔ عصری تعلیم سے آراستہ ہو کر ہم آخر حقوق کی پاسداری کیوں نہیں کر پاتے؟دراصل جس تعلیم کے زیور سے ہم آراستہ ہیں وہ تعلیم ہمارے مادی وسائل کے حصول کا ذریعہ ہے اور جس تعلیم سے ہماری روحانی تسکین ہو ،اس تعلیم کا تصور ہی رفتہ رفتہ مغربی تہذیب کے زیر اثر آ خری سانسیں لے رہا ہے۔اسی لئے علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ؎
ہر روز کا سورج ہمیں یہی پیغام دیتا ہے
مغرب کو جاؤگے تو ڈوب جاؤ گے
ایک طرف وہ شہرہ آفاق ہستیاں جن کے علم و عمل نے کائنات کی وسعتوں میں کہرام مچا دیا اور رہتی دنیا تک انکے کارہائے نمایاں، طاغوتی لشکر سے مقابلہ آرائی کا طریقہ اور سلیقہ سکھاتی رہیں گی اور دوسری جانب وہ فریب خوردہ فرزندان آدم جنہیں مغربی تہذیب کی چکاچوند نے بیگانہ خویش اور از خود رفتہ کر دیا ہے جو تھوڑی سی ساخت اور شناخت حاصل کرنے کے بعد ،غیر از خود کسی دوسرے فرد بشر کی شراکت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں اور جہاں سے اور جیسے ممکن ہو سیم و زر اور کرو فر کے نشے میں، انسانی سکون کی معصوم کلیوں کو روندتے مسلتے، سماج میں خلفشار اور انتشار ، اضطراب اور بے چینی کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔اس بحرانی کیفیت سے معاشرے کو پاک کرنے کے لئے اخلاقی تربیت کی شدید ضرورت ہے تاکہ ہمارے اذہان و قلوب میں خالق کائنات کا تصور اور اپنے اعمال کے محاسبے کا یقین پیوست ہو جائے کیونکہ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس سے انسان میں خودی کا جذبہ ابھرتا ہے اور انسان الله کی نظروں میں محمود اور نگاہ خلق میں مقبول ہو جاتا ہے۔تو بجا فرمایا ہے علامہ اقبال نے ؎
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تیری زندگی اسی سے تیری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رو سیاہی میں ارباب ذوق اور اصحاب نظر افراد کی توجہ مبذول کرنے کی خاطر، عام طور پر،معاشرے میں پھیلی برائیوں کو، ادبی جامہ زیب تن کرتا ہوں اور میری ہر قلمی تصویر میں متعدد پیغامات مضمر ہوتے ہیں اور اس مشق سے میرا مقصد عین، نفس مضمون میں سحر انگیزی پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ تیر، بہ ہمہ تاثیر، اپنے ہدف تک پہنچے۔اس مضمون کے آغاز میں زبور عجم سے چند اشعار نقل کئے ہیں اور ان اشعار سے ایک واضح پیغام مل رہا ہے کہ مغربی تہذیب ،وجود عالم کی گیرائی و گہرائی اور آغاز و انجام کو عقل کے پیمانے سے ناپتی ہے اور عشق کا شعلہ کبھی اس تہذیب کی ضمیر و خمیر میں فروزاں ہی نہیں ہوا، اس لئے اس تہذیب کی یلغار سے ایمان و ایقان کی بنیادیں ہل جاتیں ہیں اور اولاد آدم کی اکثریت کو، خدائے ذوالجلال کے وجود سے ہی منحرف کر دیتی ہے۔بدیں وجوہ ،ہمیں علم معرفت کی انتہائی سر حدوں تک پہنچنے کی تگ و دو کرنی ہوگی اور اسی سے وہ منزل ملتی ہے جسے ایمان کہا جاتا ہے اور اسی لئے امام الانبیا، سید المرسلینؐ نے الله سے اگر کچھ زیادہ مانگا تو بس علم مانگا۔اور ہر وقت مانگتے رہے’’ربّ ِ زِدنی علما‘‘۔
دور حاضر کے روح فرسا اور حیا سوز واقعات سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ انسانیت کو آج جس قدر اخلاقی تعلیم کی ضرورت ہے شاید کسی اور زمانے میں نہ رہی ہو اور فلسفہ چاہے ارسطو کا ہو یا پھر افلاطون ، اشراقی ہو یا مشائی، کسی طور بھی ہماری خفتہ خودی کو بیدار نہیں کر سکتا۔ عقل عیار ہے جو ہر فعل شنیع کا جواز پیش کرتی ہے اور ایمان ایسا دربان ہے جو ہر طاغوتی وار کو ناکام بنا کرے انسان کو رب ذوالجلال کی قربت دلاتا ہے اور یہی اولاد آدم کا مقصد تخلیق ہے۔
رابطہ۔ 9858018662
[email protected]>