شوکت حمید
سرینگر//چیری پھل (گیلاس) کو درختوں سے اتارنے کا کام شد و مد سے جاری ہے اور شہر و دیہات کے بازاروں میں اس پھل کے ڈبے میوہ دکانوں کی زینت بن گئے ہیں تاہم کا شتکاروں کا کہنا ہے کہ ماہ اپریل میں بارشوں سے فصل کو کافی نقصان پہنچا ہے ۔وادی کشمیر میں 3000ہیکٹیر اراضی پر گیلاس کے چھوٹے بڑے باغاتا ت ہیں اور امسال 23ہزار میٹرک کی پیداوار متوقع ہے تاہم کاشتکار کم نرخوں اور خراب موسمی صورتحال کی وجہ سے پریشان نظر آرہے ہیں جبکہ فروٹ گروروس کا الزام ہے کہ’پرواز سکیم ‘ کی عمل آوری میں محکمہ باغبانی کی مبینہ عدم دلچسپی سے گیلاس ملک کی منڈیوں تک بروقت نہ پہنچ پاتا ہے جس کی وجہ سے کاشتکاروں کو مناسب دام نہیں مل پاتے ہیں ۔گیلاس ایک ایسی فصل ہے جس کا انحصار موسم پر ہوتا ہے ۔مئی اور جون کے مہینے میں گیلاس جہاں پک کر تیار ہوتا ہے تاہم اس کی شیلف لائف کم ہوتی ہے اور اس کا منڈیوں تک جلد پہنچ جانا انتہائی اہم مانا جاتا ہے ۔وادی میں چیری کی فصل ماہ مئی کے وسط میں ہی تیار ہو کر بازاروں میں پہنچ جاتی ہے اور ماہ جولائی کے وسط تک اس کا سیزن رہتا ہے ۔ چیری ایک حساس پھل ہے جس کی عمر انتہائی محدود ہوتی ہے ۔
کاشکاروں کا کہنا ہے کہ گیلاس کو ہوائی سروس کے ذریعے اگر بروقت منڈیوں تک پہنچایا جائے تو انہیں نہ صرف اس کے مناسب دام مل سکیں گے بلکہ اس سے کشمیر میں میوہ صنعت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا ۔ کشمیر ویلی فروٹ گروورس کم ڈیلرس یونین کے ٍچیرمین بشیر احمد بشیر نے بتایا’’پرواز سکیمکے تحت گیلاس ہوائی سروس سے میوہ ملک کی ویگر منڈیوں تک پہنچ سکتا ہے اور اس کیلئے 25فی صد سبسڈی بھی ہے تاہم محکمہ باغبانی اس حوالے سے کوئی گذشتہ کئی برسوں سے خاموش ہے ‘‘۔ انہوں نے بتایا ’’چونکہ یہ ایسا میوہ ہے جس کا پک کرجلد خراب ہونے کا احتمال رہتا ہے لہذا سے جلد منڈیوں تک پہنچایا جانا ضروری ہے ‘‘۔ شمالی کشمیر کے ٹنگمرگ علاقے کے ساتھ ساتھ گاندربل ،سرینگر ،شوپیان اور زیادہ تر گیلاس کے باغات ہیں اور کچھ برسوں سے موسمی تبدیلی کی وجہ سے کئی علاقوں میں گیلاس کی فصل کو بھاری نقصان پہنچا ۔ہارون کے بلال احمد نامی ایک کاشتکار نے بتایا کہ بے وقت بارشوں ،آندھی اورژالہ باری سے یہ فصل تباہ ہوجاتی ہے اور ایسے میں کاشتکاروں کی محنت ضایع ہوجاتی ہے۔ رسیلی اور لذیذ اقسام کے لیے مشہور گاندربل ضلع میں کم نرخوں نے چیری کے باغبانوں کو مایوس کیا ہے۔چونٹھولی وار ، گلاب پورہ، لار، گٹلی باغ، واکورا، ڈب، بٹوینہ اور کنگن کے کچھ علاقوںمیں اول نمبر، ڈبل، مشری اور مخملی اقسام کے گیلاس مختلف ریاستوں کو برآمد کی جاتی ہیں لیکن کاشتکاروں کا بازار سے نمٹنے پر براہ راست کوئی کنٹرول نہیں ہے۔کاشتکاروں نے اجرتی مزدوروں کی مدد سے پھلوں کو درختوں سے کاٹ کر پیک کیا اور پھر ززنہ میں واقع قریبی فروٹ منڈی میں فروخت کیا۔ گزشتہ سال کے مقابلے قیمتوں میں 60 فیصد تک کمی کے باعث کاشتکاروں کو نقصان کا اندیشہ ہے۔چیری بہت ہی مختصر شیلف لائف کے ساتھ انتہائی خراب ہوتی ہیں لہذا کاشتکاروں کو مارکیٹ کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے بھاری نقصان کا اندیشہ ہے جہاں انہیں وہ نرخ مل رہے ہیں جو انہیں کٹائی کے اختتام پر ملتے تھے۔چیری کی کٹائی کا سیزن پوری وادی کشمیر میں زوروں پر ہے ۔کاشتکار اس سال منفی موسمی حالات بالخصوص اپریل میں ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے اہم چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہیں، جس نے چیری کی فصل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر ظہور احمد بٹ نے بتایا ’’اس سال وادی میں گیلاس کی پیدوار 23ہزار میٹرک ٹن متوقع ہے ۔انہوں نے کہا ٹنگمرگ اور شمالی کشمیر کے کچھ حصوں میں نسبتااس سال کم پیدادار ہے تاہم شوپیان ،گاندربل اور سرینگر کے کچھ علاقوں میںڈبل، مشری، مخملی اور اٹلی اقسام تیار ہیں اور اس کی بھر پور فصل بھی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وادی میں سیاحتی سیزن عروج پر ہے اور گیلاس بھی بازاروں میں میوہ دکانوں کی زینت بن چکے ہیں اور یہی امید ہے کہ اس سے وابستہ لوگوں کو فائدہ ملے گا ۔’پرواز سکیم ‘ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوششیں جاری ہیں ۔