8ستمبر کو ریاست کے قدآور لیڈر شیخ محمد عبداللہ کی برسی منائی جارہی تھی جن کے الحاق کی اس دستاویز پر جس میں صرف دفاع ، خارجہ امور اور کمیونکیشن ہند یونین کے پاس تھے اور باقی تمام امور میں ریاست کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا تھا دستخط تونہیں تھے لیکن وہ ایک مقبول عوامی رہنما ہونے کی حیثیت سے اس کے عینی گواہ بھی تھے اور درپردہ کردار یا حامی بھی ۔یہ انہی کی کر شماتی قیادت تھی جس کی بناء پربرصغیر ہند میں فرقہ وارانہ جذبات کے شعلوںاور خونریز یوں کے باوجودمسلم اکثریتی ریاست کے عوام نے ہندو اکثریتی ملک کے ساتھ شامل ہونے میں کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیںکی لیکن صرف چھ سال کے بعد جب وہ ریاست کے وزیر اعظم تھے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیااس طرح دو قومی نظرئیے سے کھلم کھلا اختلاف کرنے والے سکیولر ازم کے نظرئیے کے اٹوٹ حامی اور ہندوستان کے ساتھ نظریاتی قربت کی وجہ سے الحاق ہند کے اہم کردار اور کانگریس لیڈر شپ کیساتھ قریبی مراسم رکھنے والے لیڈر کو اپنی سوچ ، نظرئیے اوراصولوںسے ہٹ کر الحاق کے عارضی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت تابع رائے شماری ہونے کا موقف اختیارکرتے ہوئے تحریک مزاحمت کی قیادت کرنی پڑی ۔ اس وقت جو نسل شیخ محمد عبداللہ کے شانہ بشانہ ایثار کی تاریخ رقم کررہی تھی اور جو اس کی گود میں پروان چڑھ رہی تھی دونوں کا ہندوستان کی قیادت اوراقتدار پر اعتبار اُ ٹھ گیا جو آنے والے وقت میں شیخ صاحب سیاسی تبدیلیوں کے باوجود بھی بحال نہ کرسکے بلکہ خود شیخ محمد عبداللہ جو عقیدت اور محبت کا ایک آستاں تھے بھی بے اعتبار ہوکر رہ گئے ۔ بائیس سال بعد جب پاکستان دولخت ہوچکاتھاشیخ محمد عبداللہ کے دل میں اقتدار کی خواہش پیداہونے لگی یا انہیں شاید یہ احساس ہوا کہ اس طویل عرصے میں رائشماری کی معتبر اورمضبوط تحریک میں عوام کی بیش بہا قربانیوں کے باوجود ہندوستان کے ارباب اقتدار نے خاموشی کے ساتھ ریاست کی خصوصی پوزیشن کو کامیابی کے ساتھ اکھاڑ دینے کے ساتھ ساتھ ریاست کی اقتصادی محتاجی کے ساماں کردئیے اور کرپشن کے دیمک سے سماجی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ۔اس موقعے پر انہیںمذاکرات کی پیش کش کی گئی اوردوسال تک مرزا محمد افضل بیگ اور جی پارتھا ساتھی کے درمیان آئینی موشگافیوں پر مباحثوں کے بعد انہیں ایک سمجھوتے پر تیار کرلیا گیا جسے اندرا عبداللہ سمجھوتے کا نام دیا گیا ۔ اس سمجھوتے کے بعد انہوں نے تقشبند صاحب کے آستانے پریوم شہدائے کشمیر کے موقعے پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ریاست کی وہ آئینی حیثیت بحال کرنے کا وعدہ دیا گیا ہے جو 1953ء میں اسے حاصل تھی لیکن جب سمجھوتے پر دستخط ہوئے تو اُس وقت کی وزیر اعظم نے کہا کہ گھڑی کی سوئیوں کو پیچھے نہیں لے جایا جاسکتا ہے ۔ا س کے بعد کیسے انہوں نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا اس پر وقت کا مورخ بھی کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں اور خود انہوں نے بھی اس پر کبھی بات نہیں کی ۔انہوں نے رائشماری کی تحریک کو آوارہ گردی کا نام دیکر اسے دفن کردبا اور وزیر اعلے ٰ کی کرسی پر بیٹھ گئے لیکن چند ماہ کے اندر ہی پھر ان کا تختہ پلٹ دیا گیا ۔اسمبلی توڑ دی گئی اور انتخابات کا بگل بجادیا گیا ۔ اس موقعے پر وہ ایک طرف تھے اور تمام تر قوتیں جن میں آج کی تحریک مزاحمت کی ساری قوتیں بھی شامل تھیں ان کیخلاف صف آراء تھیں لیکن عوام نے انہیں شاید اس لئے چنا کہ جو قوتیں ان کے خلاف تھیں ہندوستان کے اقتدار کی حمایت انہیں حاصل تھیں ۔اور عوام کو یہ یقین ہوچکا تھا کہ ہندوستا ن کااقتدار انہیں اسلئے سیاسی موت مارنا چاہتا ہے کہ وہ کشمیر کے لئے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اُس وقت مرارجی ڈیسائی ہندوستان کے وزیر اعظم تھے اوراپنے قریبی ساتھیوں کی شدید مخالفت کے باوجود انہوں نے انتخابات میں دھاندلیوں کی اجازت دینے سے سراسر انکار کردیا چنانچہ انہیں انتخابات میں تاریخ ساز کامیابی حاصل ہوئی ۔ شیخ صاحب کے اس دور میں دستاویز الحاق کی شرائط پامال ہوچکی تھیں اور ریاست کی اندرونی خودمختاری نام نہاد حد تک باقی رہی تھی مگر عوام کواب بھی ان سے امیدیں تھیں کہ وہ کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کیلئے کوئی کرشمہ کردکھائیں گے یہاں تک کہ زندگی نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور ترنگے میں لپیٹ کر ان کے جسد خاکی کو دفن کردیا گیا ۔اس کے ساتھ ہی وہ اعتبار بھی دفن ہوگیا جو ان کی ذات کے ساتھ وابستہ تھا ۔اس بے اعتباری نے کشمیر یوں کے دل و ذہن کو بدل کر رکھ دیا اورہندوستان کے اقتدار کے ساتھ قومی دھارے کی جماعتیں جن میں نیشنل کانفرنس سرفہرست ہے بے اعتبار ہوکر رہ گئیں اس کے بعد ہونے والے واقعات نے اس بے اعتباری اور بداعتمادی کو اتنا زیادہ گہرا کردیا کہ اس کے بطن سے عسکری تحریک پھوٹ پڑی ۔ یہ عقدہ اب تک نہیں کھل سکا ہے کہ اگر 53ء میں انہوں نے دھوکا کھایا تو جس قوت سے دھوکا کھایا اسی پر کیسے بھروسہ کیا اور اگر طویل کوششوں کے بعد شیخ محمد عبداللہ کو سمجھوتے پر راضی کیا گیا تو ہندوستان نے انہیں کیا دیا اور انہوں نے کیا حاصل کیا ۔پھر چند ماہ کے بعد ہی کانگریس کی اکثریت والی اسمبلی میں ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پاس کیوں کردی گئی ۔انتخابات میں غیر معمولی کامیابی کے بعد بھی انہوں نے اندرونی خود مختاری کی بحالی کی بات تک نہیں کی حالانکہ انہیں عوام کی وہ حمایت حاصل تھی جو آج بھی کسی لیڈر کے پاس نہیں۔ ان کی موت کے بعد بھی عوام نیشنل کانفرنس کے ساتھ رہے لیکن نیشنل کانفرنس نے اندرونی خود مختاری کی بات اسی وقت کی جب اقتدار اس کے ہاتھ میں نہیں رہا ۔چنانچہ اس جماعت کا زوال شروع ہوا یہاںتک کہ وہ ایک نئی جماعت پی ڈی پی کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوکررہ گئی ۔8ستمبر کو نیشنل کانفرنس نے نسیم باغ میں شیخ صاحب کے مقبرے پر فاتحہ پڑھی اور اس موقعے پر ریاست کی بچی کھچی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کا عہد دہرایا ۔لیکن اعتبار کا دھاگا ٹوٹ چکا ہے اور اعتبار ہی وہ واحد پل ہے جو عوام کو کسی سیاسی قوت سے جوڑ سکتا ہے ۔عوام اس تقریب سے الگ تھلگ تھے ۔ اس کے صرف اٹھارہ گھنٹے بعد بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کشمیر کی سرزمین پر اترنے والے تھے اوراس بار ان کا بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار کیا جارہا تھا ۔ اس لئے نہیں کہ کشمیریوں کو ان کے ساتھ محبت ہوگئی تھی بلکہ اس لئے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پندرہ اگست کو لال قلعے کی فصیل سے یہ پیغام دیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ گولی اور گالی سے نہیں گلے لگانے سے حل ہوگا ۔اور یہ پیغام نہ کشمیر میں جاری خونریزیوں نہ پیلٹ گن کے استعمال سے آنکھوں کی روشنیاں چھن جانے کی وجہ سے بلکہ صرف سپریم کورٹ میں دفعہ 35اے اور 370کو آئین ہند سے حذف کئے جانے کی عرضیوں کے حوالے سے موہوم سی امیدوں کو جنم دے چکا تھا۔ کشمیریوں کو اس کا کوئی غم نہیں کہ کتنی جانیں موت کی آغوش میںپناہ لیتی ہیں اور کتنی آنکھیں بے نور ہوجاتی ہیں انہیںغم صرف اس بات کا ہے کہ ان سے جو کچھ چھین لیا گیا ہے اور چھیناجارہا ہے وہ بچایا جاسکتا ہے یا نہیں ۔ دفعہ 35اے کشمیر کے وجود کی روح ہے اور کوئی وجود روح کو الگ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا چنانچہ وزیر داخلہ کی آمد کاانتظار اسی لئے تھا کہ وہ اس بارے میں کوئی واضح اعلان کرکے خدشات کی اس دھند کو صاف کریں گے جس نے کشمیرکو بہت بے چین کرکے رکھ دیا ہے ۔لیکن انہوں نے کشمیر میں دو دن گزارنے کے بعد صرف ایک ایسا جملہ کہہ ڈالا جو کوئی بھی کہنہ مشق سیاست داں اس وقت کہہ جاتا ہے جب اسے انکار اور اقرار کے دو راستوں سے کنی کترا کر گزر جانا ہو ۔انہوں نے کہا کہ مرکز ایسا کچھ نہیں کرے گا جس سے کہ عوامی جذبات کو ٹھیس پہونچے ۔یہ جملہ ایک عہد بھی ہے ایک وعدہ بھی ہے مگر وہ صاف صاف یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ دفعہ 35اے پر حکومت ہند کا موقف کیا ہے ۔جموں میں اپنے دورے کے اختتام پر جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کچھ کہنے سے صاف انکار کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ کہ انہیں جو کچھ کہنا تھا سرینگر میں کہہ چکے ہیں ۔ معاملہ عدالت میں ہے اور جوکچھ بھی ہوگا سب کو معلوم ہوجائے گا ۔اس طرح انہوں نے بہت کچھ کہہ کر بھی کچھ نہیں کہا اور کچھ نہ کہہ کر بھی کچھ کچھ کہہ دیا اور عوام سمجھ کر بھی کچھ نہیں سمجھ سکے اور کچھ نہ سمجھ کر بھی کچھ کچھ سمجھ گئے ۔اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ راج ناتھ سنگھ جی بہت ہی منجھے ہوئے سیاستداں ہیں ان کی زبان میں غضب کی مٹھاس ہے اور وہ دلوں کومسخر کرنے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن گزشتہ ستر سال کے زخموں نے کشمیر کی خمیر کو بدل کر رکھدیا ہے اوربے اعتباری کی ایک نفسیات پیدا کردی ہے اس لئے الفاظ کا طلسم کشمیر کو مطمین نہیں کرسکا ۔نہ عوامی حلقوں نے ان کے بیان کا خیر مقدم کیا نہ قومی دھارے کی بڑی سیاسی جماعتوں نے نہ علیحدگی پسند محاذ نے اور نہ ہی سول سوسائٹی نے سوائے بی جے پی ، پی ڈی پی کی مخلوط سرکار کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے جنہوں نے وزیر داخلہ کے بیان کوامید افزاء قرار دیا اور محمد یوسف تاریگامی ، حکیم یاسین اور غلام حسن میر نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ۔وزیر اعلیٰ کی حمایت سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن تاریگامی جیسے سیاسی دانشور کو کیا نظر آیا اس کی وضاحت خود انہوں نے بھی نہیں لیکن پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور سرکردہ قانون دان مظفربیگ نے یہ عقدہ کھول کر رکھ دیا اور وزیر داخلہ کے سرینگر میں کہے گئے جملے کا پس منظر بھی نمایاں کردیا ۔انہوں نے کہا کہ دفعہ35اے سے متعلق عرضیاں زیر سماعت ہیں لیکن اس دفعہ سے متعلق دستاویزات کا سراغ کہیں نہیں مل رہا ہے اوراگر یہ واقعی حقیقت ہے تو فیصلے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ حائل ہے چنانچہ معاملہ اپنی جگہ اٹک کر رہ سکتا ہے ۔یہ ایک قانون داں کی بات ہے جسے جھٹلانے کی بہت کم گنجائش ہے تو گویا فیصلہ فی الحال نہیں ہوگا اسی لئے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ عوام کے جذبات کو کوئی ٹھیس نہیں پہونچے گی اس طرح سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے موقف پر بھی کوئی آنچ نہیں آئے گی لیکن جو تلوار میان سے باہر آٰچکی ہے وہ سروں پر بدستور لٹکتی رہے گی اور عجب نہیں کہ کسی وقت موقع ہاتھ آجائے اور دستاویزات برآمد ہوں پھر فیصلہ بھی ہوجائے ۔جو بھی ہو اس بات کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا کہ آئینی تحفظات کو ختم کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور کا حصہ ہے ۔اقتدار میں آنے کے بعد ممکن ہے کہ اعلیٰ قیادت کو اس بات کا احساس ہوچکا ہو کہ اور وہ الحاق کی اس ڈور کو کاٹ کر الحاق کا ہی خاتمہ کرنا چاہتے ہیں ۔اور وہ اس احساس کے ساتھ اپنے موقف کو بھی زندہ رکھنے کی تدبیریں کر نے کی کوشش میںہوں ۔لیکن اب جو مسئلہ آئینی تحفظات اور اس احساس سے بڑھ کر ہے وہ یہ ہے کہ بے اعتباری کاشگاف اتنا وسیع ہوچکا ہے کہ نہ وزیر اعظم کے دلکش جملے اسے پاٹ سکتے ہیں اور نہ ہی وزیر داخلہ کے ۔اس بے اعتباری کی جڑیں پچھلے ستر سال کی وسیع زمین میں پیوست ہوچکی ہیں ۔انہیں کیسے اکھاڑا جاسکتا ہے ۔ہر قوم کا ایک وجود ہوتا ہے اور ایک ہستی ہوتی ہے ۔ کسی قوم کی ہستی اور وجود کسی سمندر میں غرق کرکے اس کو گلے لگانے کی بات کیسے کی جاسکتی ہے ۔جو لوگ ریاست جموں و کشمیر کا موازنہ اتر پردیش اورمدھیہ پردیش سے کرتے ہیںوہ تاریخ کو جھٹلانے کا گناہ کررہے ہیں ۔ریاست جموں و کشمیر بالکل مختلف معاملہ ہے یہ بات ہندوستان کے عوام کو سمجھانے کے بجائے انہیں وہ کچھ بتایا جارہا ہے جو سیاسی قوتوں کو ہندوستان میں فایدہ تو دیتا ہے لیکن کشمیر میں ہندوستان کے تعیں بے اعتباریت کی جڑیں اور بھی گہری ہورہی ہیں ۔ورنہ آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچ پاتی کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے اعلانات پر دلوں سے یہ بات نکلتی ۔
کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
نوٹ : مضمون نگار کی آراء سے ادارے کا کلی یا جزوی طور متفق ہونا ضروری نہیں