سب مل کے ناچو، گائو ، اچھلو، خوشں ہوجاؤ، موج منائوکہ بات ہی کچھ ایسی ہے ۔وہ جو مودی مہاراج نے مغلوں کے ہاتھوں تعمیر کردہ لال قلعے کی فصیل سے اعلان کردیا تھا کہ اب کی بار مسلہ کشمیر گولی گالی سے نہیں بلکہ ہر کشمیری کو گلے لگانے سے حل ہوگا اس کا حاصل جمع سامنے آیا ہے ۔ جمع ،ضرب، تفریق کرکے اس کا جو کچھ بچا کھچا نکل آیا اسے مرکزی سرکار کا مذاکرات کار کہا جاتا ہے بلکہ لگے ہاتھوں نام کرن بھی ہوگیا ہے جہاں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے منتروں کا جاپ کیا ، بانوئے کشمیر محبوبہ مفتی نے فوراً مرد مومن کے خواب سے بیدار ہوکر فتویٰ جاری کردیا اور اب اسے دنیشور شرما پکارا جائے گا۔ وہ جو ماضی کے مذاکرات کار تھے جنہیں دلیپ پڈگائونکر، مسٹر انصاری اور رادھا کمار وغیرہ کہتے تھے ،ان سے شاید اچھی رپورٹ نہ بن پائی جبھی تو اسے دلی دربار میں کسی نہ ہاتھ نہ لگایا ، پڑھنے پڑھانے اور عمل در آمد تو دور کی بات ہے۔کون جانے وہ رپورٹ نہ ہو بلکہ تینتیس ہزار کا کرنٹ لئے کوئی شے ہو اسی لئے اس کے قریب پھٹکنے کی کسی میں ہمت نہیں۔یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلی چوہیا مری ہوئی والا معاملہ ہو۔ بقول منا بھائی ایم بی بی ایس جادو کی جپی وقت کی اہم ضرورت ہے اور اسے فوراً استعمال میں لانے کی آوشکتاہے۔ اڑھائی مہینے میں مودی سرکار کو جادو کی جپی لگانے والے روبوٹ دنیشور شرما کی صورت میں مل ہی گیا۔گلی گلی ڈھونڈا گیا، شہر شہر تلاش کیا گیا، چراغ ہاتھ میں لے کر پھرتے رہے کہ اچھی جادو کی جپی کون لگاتا ہے۔کون جانے این آئی اے کو اس میں لگا دیا گیا کہ ملک بھر میں تلا ش کرو کہ کشمیریوں کو گلے لگانے کا وعدہ جو کیا ہے اسے کون مکمل کر پائے گاکہ مودی سرکار کو ایسے جپی کار کی ضرورت ہے جو اس قدر زور سے بھینچے کہ ہڈیاں چٹخنے کی آواز دور دور تک سنائی دے جبھی تو محسوس ہوگا کہ بھارت سرکار کا کشمیر کی طرف پیار امڈ آیا ہے۔ ادھر این آئی اے بھی ہٹ دھرم کہ جادو کی جپی سے کام کیا کرنا بلکہ ہر کشمیری کو وارنٹ بھیج کر دلی بلانا ہے اور وہاں جسے چاہے اندر رکھنا ہے اور ایک آدھ کو کان کھینچ کر واپس بھیجنا ہے جبھی تو محسوس ہوگا کہ بھارت ورش میں کوئی فکر کی ضرورت نہیں یہاں تو جمہوریت پروان چڑھی ہے۔ ۔۔اور اس کھینچا تانی میں سید صلاح الدین صاحب آف سویہ بُگ ہاتھ نہ آیا تو ان کے بیٹے پر قبضہ جمایا ۔کون نہیں جانتا اپنے احمد کے بدلے محمود کو ساتھ لے جانا پرانا اور آزمایا ہوا کھیل ہے جسے اپنے ارباب اختیار کھیلنے میں اس قدر ماہر ہیں کہ اولمپکس میں وارد ہوئے تو طلائی تمغہ پکا۔مانا کہ اہل کشمیر اس بات سے زیادہ امید نہیں رکھتے کہ مرکزی مذاکرات کار کوئی کرشمہ دکھا پائیں گے۔ہل والے قائد ثانی کوئی امید نہیں رکھتے، حریت والے لیڈر صاحبان کو کوئی خوشی نہیں ، آزادی پسند سہ فریقی مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ادھر اپنے ڈگر دیش والے بالکل ہی خوش نہیں کہ مذاکرات کار کی تقرری ہوئی ۔کون جانے انہیں خدشہ ہے کہ اہل کشمیر سب کچھ نگل جائیں گے اور یوں اس جپا جپی میں علاقائی نا برابری منظر عام پر آئے گی۔آخر ہو کیوں نہ علاقائی برابری کا تماشہ ، ہم نے ماضی میں دیکھا پرکھا ہے کہ اگر وادی میں ضرورت کے مطابق ایک پاگل خانہ تعمیر کرنا ہے تو علاقائی نا برابری کے خاتمے کے لئے جموں میں بھی ایک ماڈرن مجنون خانہ لازما ً تعمیر کرنا ضروری ہے۔اگر کشمیر میں سردی کے سبب خنزیری بخار کے کچھ کیس سامنے آئیں تو جموں میں اس کی اشد ضرورت ہے ،نہیں تو علاقائی نابرابری کا شور اٹھانے والے میدان عمل میں کودیں گے۔ست شرما سے لے کر بھیم سنگھ تک اور بار ایسوسی ایشن سے لے کر بیوپار منڈل تک ہڑتال کردیں گے کہ ادھر سوائن فلیو رکھو، نہیں تو کام کاج ٹھپ اور جموں بندھ کامیاب۔
خیر ایسے میں دربار موو کا بگل بھی بجا۔جموں والے موج منائیں ۔سڑکوں پر رنگ روغن ہو گیا۔اہل کشمیر نے زیادہ کرائے پر مکان لئے کہ انہیں کشمیر کی سردی، بجلی کی نایابی ،راشن کا مسلٔہ، برف باری سے سڑکوں پر رکاوٹ ستاتی ہے بلکہ یہ بھی کہ جموں میں تاجر برادری کشمیری گاہکوں کے انتظار میں ہے کہ کب سال بھر جمع شدہ رقم خرچ کرنے نکلیں۔ سیب ،زعفران ، اخروٹ ، بادام، تنخواہ ، پینشن کی کمائی رقم لے کر جموں پہنچیںگے پھر جموں کے تاجر رقم وصول کر پیٹھ پیچھے طعنہ بھی دیں گے ۔اور ادھر رہنے والے اہل کشمیر خوش کہ چلو سڑکوں پر کم سے کم کچھ ٹریفک کم ہوگا ، ارباب اقتدار کے ہمراہ اور آگے پیچھے چلنے والی سکورٹی گاڑیوں کا پوں پاں ذرا کم ہوگا، یعنی کچھ تو شور کم ہوگا کچھ تو آلودگی میں فرق ہوگا۔بقول شاعر یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے ،بھائی یہاں تو ہر دل جل رہا ہے، ہر روح میں آگ ہے، ہر جسم پر قہر سامانیاں ہیں ،پھر یہاں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں کی کیا ضرورت؟
ملک کشمیر میں دربار کا شور کم ہی چاہے کہ ہمارے یہاں تو اور بھی بہت شور باقی ہے۔فوجیوں نیم فوجیوں کی اندھا دھند طاقت کا شور، تلاشی کاروائیوں کے دوران سنگ بازوں کا شور، چوٹی کٹائو کا شور اور چوٹی کاٹ ملزمین کا تعاقب کرنے کا شور،پھر اپنے ہی ہاتھوں داڑھی کاٹنے پر نیا شور ۔کہاں گاندربل میں پولیس والے کو باندھ کر رکھنے کا شور تھا کہ وہ خواتین کے ساتھ نا زیبا حرکات کرتا تھا اور کہاں یہ بات کہ تم ارباب اختیار کے ساتھ ہاتھ نہیں لگا سکتے۔اسی لئے تو دوکاندار پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کال کوٹھری میں پہنچا۔بے چارہ دوکاندار اتنی سی بات نہیں سمجھ پایا کہ وردی پوش کو دیکھ کر بڑے بڑوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں ۔افسران کیا وزرا ء تک انہیں دبے ہاتھوں(پائوں)،جھکے سر سے سلام کرتے ہیں ۔یقین نہ آئے تووزیر با تدبیر کو دیکھو ، اور خود بانوئے کشمیر کا بیان پڑھو کہ وردی والوں کے نام حکم نہیں بلکہ ان سے التجا ہے کہ بھائی صاحب !حج کرو، گنگا نہائو، گولڈن ٹمپل میں حاضری دو، اہل کشمیر کو تنگ نہ کرو ، میں تو انعام کی رقم بڑھا دوں گی اگر بندوق بردار کو زندہ پکڑو یا اسے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرو۔اور چوٹی کٹائو شور کے دوران اب داڑھی کٹائو شروع ہوا۔ہم توکہتے تھے اگر چوٹی کاٹ ملوثین کو کوئی معاوضہ ملا تو جانے کتنے لوگ خود ہی یہ نیک کام انجام دیں گے۔مانا کہ خواتین چوٹی کٹائو سے ڈرتی ہیں لیکن مرد حضرات تو سبحان اللہ۔اگر معاوضہ نہ بھی ملا کم از کم بنک قسط دیکھتے ہیں کہیں معاف ہوجائے یا ادا کرنے میں تاخیر کی اجازت ہو۔اسی لئے دروغ بر گردن راوی بٹہ مالو کے دوکاندار نے نئی فلم ریلیز کردی کہ کسی نے حملہ کردیا، سیف لوٹی ساتھ میں چہرے پر ایک طرف کی داڑھی بھی اُڑا لے گیا،یعنی مرد لوگ اپنی خواتین کی حفاظت کے لئے گھر بیٹھتے تھے لیکن اب تو انہیں بھی محفوظ رکھنے کی گھڑی آن پڑی یعنی کہ خواتین پر گھر کا ، کچن کا، بچوں کا اور اب مردوں کی حفاظت کا بھی ذمہ۔اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ خواتین گھر بیٹھے کیا کرتی ہیں۔افسوس صد افسوس!
وہ جو اب کی بار مودی سرکار نے بھارت ورش کو ایک نئی کہانی سنائی تھی کہ چینی فوج کی چینی مال جیسی کوئی گارنٹی نہیں اس لئے وہ سنگ بازی کر کے اور بھارتی فوج کے ساتھ دھکم پیل کر کے ڈوکلام سے واپس لوٹی۔حالانکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے بعد ہم نے گائے کے معاملے کی آڑ میں کئی ایک کو جان دیتے دیکھا۔پھر نوٹ بندی والی کہانی سنائی گئی اور ہم نے درجنوں کو لائن میں کھڑا ہو کر مرتے دیکھا۔پھر جی ایس ٹی(بقول راہل گاندھی گبر سنگھ ٹیکس) کا نیا شوشہ چھوٹا اور خود سرکاری کارندوں اور کارباریوں کو ابھی سمجھ نہیں آرہا کہ اس کھیل کو کیسے کھیلا جائے۔ایسے میں ڈوکلام والی کہانی نے نیا موڑ لیا ۔سیٹلائٹ تصاویر میں تو چینی برابر مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں بلکہ سڑک بھی بنا رہے ہیں اور ہتھیاروں بھرے مورچے بھی سنبھالے ہیں ،یعنی ڈوکلام کے نام پر جو ڈپلومیسی کی جیت بتایا گیا وہ اصل میں آنکھوں میں چینی دھول جھونکنے والا معاملہ ثابت ہوا۔
کس نے کہا بھاجپا والے محبت میں یقین نہیں رکھتے اور پھر جو محبت کی یاد میں یادگار بنی ہو اس پر کنول والے فریفتہ نہیں۔مانا کہ سنگیت سوم جیسے اناپ شناپ بکتے رہے لیکن یوگی مہاراج بذات خود تاج کی صفائی کرنے پہنچے۔لمبا سا جھاڑو ہاتھ میں لے کر تاج کے گرد دھول صاف کی اور کیمروں کے سامنے کھڑے ہوکر سوچھ تاج کا ابھیان چلایا۔مانا کہ گجرات میں یوگی کو سننے دیکھنے کوئی نہ آیا اسی لئے تاج کے گرد صفائی میں حصہ لیا ،یوں سنگیت سوم کے دماغ کی دھول جھاڑنے کی کوشش کی ۔بھلا کرے کیوں نہ ، تاج کے گرد کاروبار کرنے والوں نے جو دبے الفاظ میں دھمکی دی تھی کہ دھول ہٹائو نہیں تو اگلے الیکشن میں بھاجپا کی دھول مکمل طور جھاڑ دیں گے۔ایسے میں بے چارہ سویڈن سے آیا جوڑا سب کے وکاس کا شکار بنا ۔اتتھی بووا کو مہمان کا درجہ نہ ملا بلکہ بھاجپا مشٹنڈوں نے خوب مرمت کی۔ تاج محل کے گرد بھاجپا والے کوئی نیا کنول کا پھول نہ کھلا سکے کیونکہ بھارت ورش میں گجرات سمیت لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ کنول کا جو پھول ہے ووٹروں کی بھول ہے ۔اس لئے نشانہ ٹیپو سلطان پر سادھا کہ بقول ان مہا ظالموں کے ظالم اور ہندو دشمن حکمران تھامگر جب صدر ہند رام ناتھ کووند نے انہیں اپنی تقریر میں یہ جتایا کہ ٹیپو بہادر حکمران تھا اور یہ کہ ٹیپو سلطان شہید کی موت مرا تو انہیں کنول کا پھول اور مرجھاتے محسوس ہوا۔لے دے کے کرناٹک سرکار پر تنقید کے تیر چلائے کہ انہوں نے صاحب صدر کی تقریر میں یہ لائن جوڑ دی تھی یعنی صاحب صدر کی اتنی بھی بصیرت نہیں کہ وہ کونسی سطر پڑھیں اور کون سی حذف کریں۔بے چارے کنول والے نہ ہوں ساون کے اندھے ہوں۔
نفرت کے دلکش پرچارک
جن کا فن تاریک سیاست
فیصلوں کے حقدار بنے ہیں
پتھر کا دل رکھنے والے
شارق علی
مودی مہاراج نے ببانگ دہل کہا تھا کہ نہ خود کھائوں گا نہ کسی کو کھانے دوں گامگر اپنے تو اپنے ہوتے ہیں ۔بھلا امت شاہ دوست ہے ، امبانی، اڈانی یار لگتے ہیں ،اس لئے نیا نعرہ ایجاد کردیا کہ میں بولوں گا کسی اور کو بھولنے نہیں دوں گا۔اور انڈیا Start up کے ساتھ ہی انڈیا shut up کی بات چلی ہے۔
رابط [email protected]/9419009169