ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
میری اورعرفان کی بہت پرانی اورگہری دوستی تھی ۔ہم ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ایک دوسرے کی کتابیں ، کاپیاں، نوٹس استعمال کیاکرتے تھے۔ ہم کبھی ہمارے گھرتو کبھی ان کے گھرپر پڑھتے تھے ،کھاتے ،پیتے اورسوتے تھے۔ اس کو سیاست سے تھوڑا بہت لگاؤتھا اورمجھے توتھاہی ۔
میں نماز کاپابندتھا ۔مگروہ اس معاملے میں بے پرواہ تھا اوراس کا کوئی ارادہ بھی نہ تھا۔میںپیروںفقیروں اوربزرگانِ دین کے کمالات اور وظائف وتعویزات کامعتقد تھامگراس کو نہ توبزرگانِ دین پر اورنہ ہی پیروں فقیروں پہ یقین تھا ۔
اس وجہ سے گہری دوستی کے باوجود بھی اس معاملہ میں ہماری نوک جھونک چلتی رہتی تھی اور کبھی جھگڑا بھی کرتے تھے۔اس کاکہناتھاکہ یہ میرے دماغ کا خلل ہے کہ ان حضرات کے کمالات پراس قدریقین کرتاہوں۔میں نے کئی پڑھے لکھے افراد اورافسران کے تجربات بھی اس کو سنائے مگروہ کسی بھی صورت ماننے کوتیار نہیں ہوتا تھا۔پچھلے دنوں ایک درویش نماشخص ہمارے علاقے میں کہیں سے داخل ہوا۔ اس کی پارسائی کی شہرت آگ کی طرح پھیل گئی۔ہمارے علاقے کے علاوہ دوسرے علاقو ں اورقصبوں سے مردوزن جوق درجوق ان کے پاس آتے تھے۔
کے قریب بیٹھے اوربغیرادھر سے کہے صرف اس کی ہی اشاروں کنایوں سے بتائی ہوئی بات سنتے اور
کبھی کبھی تووہ صاف ہی بات کہہ دیتا۔
اس کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہوتی تھی ۔
وہ خود صوم وصلوٰۃ کاپابندتھا۔
میرے ایک واقف کارنے کہاکہ وہ ایک دن ابھی اس کے قریب بیٹھاہی تھا کہ اس نے کہاتمہارابیٹا KASمیں پاس ہوگیا۔اس کے رزلٹ کوابھی نکلنے میںتین ماہ کی دیری تھی۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کو سوشل ویلفیئرمحکمہ الاٹ ہوجائے گا۔نتیجہ نکل جانے کے بعد بالکل ایسا ہی ہوا۔
ہمارے محلہ کی زیبہ بیگم کوکہاکہ بہن جی! پریشان نہ ہو۔تمہاری بیٹی کارشتہ ایک دودن تک پکاہوجائے گا۔دیرنہ کرنا۔ بہت اچھاگھر ہے۔ پھرایساہی ہوا۔ لڑکااورخاندان دونوںبہت شریف اوردیندار ثابت ہوئے ۔
علی کاکاکے لڑکے کے متعلق کہاکہ اس کاآرڈر توتیارہے۔ اس کو بھیجو لینے کے لئے ۔بڑی مشکل سے اس نے اپنے بیٹے کوبھرتی بورڈ میں پتہ کرنے بھیجا۔ وہ بالکل نہیں مانتاتھابلکہ اس کے بیٹے نے کہاکہ سلیکشن بڑی مشکل ہے کیونکہ وہ صرف بی۔ اے ہے جبکہ وہاں انٹرویومیں ایم اے اورایم ایس سی والے بہت سے امیدوارتھے ۔
بھی کاکالڑکابادلِ ناخواستہ بھرتی بورڈ کے دفترگیا۔واقعی اس کی سلیکشن ہوئی تھی وہ آرڈرلے کرخوشی خوشی گھرلوٹا۔
اب یہ سب سن کر میرادوست بھی اس کے پاس جانے کوتیارہوگیا۔
یہ درویش کسی سے کچھ بھی نہ لیتاتھا، نہ پیسہ نہ پھل فروٹ اورنہ کوئی اور چیز ۔
وہ نماز، تلاوت اورذکر واذکارکاپابند تھا۔وہ کوئی مشرکانہ حرکت نہ خود کرتا اورنہ کسی کی برداشت کرتاتھا۔ وہ پوری طرح صوم وصلوٰۃ اورسنتوں کا پابند تھا ۔
پچھلے دنوں اس نے ایک شادی شدہ شخص کوکہاکہ کل رات کہاں تھے، تم نے اپنے گھروالوں کوکیوں جھوٹ بولاکہ تم کسی رشتہ دارکے ہاں دعوت پر تھے۔ تم توفلاں عورت کے ساتھ ہوٹل میں تھے۔
وہ شخص یہ سن کر ہکابکاہوکررہ گیا۔چپکے سے وہاں سے نکل گیاکیونکہ بات حقیقت پرمبنی تھی۔
’’آپ خود جاؤ۔اطمینان سے مشاہدہ کرواورتسلی کرو۔واپس آکر مجھے بتانا۔ادھرسے کچھ نہ کہنا۔مگرمیںتمہارے ساتھ نہیں آؤں گا ‘‘۔میں نے عرفان کوکہا۔
خیر!یہ دوست گیا۔بہت دیربیٹھنے کے بعداس کو کچھ بھی نہ کہا۔یہ تنگ آکر اٹھنے ہی والاتھاکہ اس نے اشارے سے بیٹھنے کوکہا۔
اب درویش نے اس سے کہا۔’’جس سمندرمیں تیرنانہ ہواس سمندرکے متعلق بدگمانی نہیں رکھنی چاہئے ۔کچھ علوم پڑھ کرآتے ہیں اورکچھ علوم بس یونہی عطاکئے جاتے ہیں۔‘‘اب تم ہی دیکھو جس کے ہاں کھاتے پیتے ہو۔ پڑھتے ہو۔ سوتے جاگتے ہو ، وہیں اسی کی بہن پربری نظررکھتے ہوحالانکہ وہ لڑکی بڑی پاکباز ہے۔ آپ کو احتیاط کرنی چاہئے ۔ اللہ سے خوف کھاناچاہئے ۔
لڑکے کارنگ فق ہوگیا۔اس کو درویش کے کمرے کی دیواریں ناچتی اور گرتی ہوئی نظرآنے لگیں ۔اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کوسنبھالا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔
واپس آکراس نے کہا’’بھئی !وہ توسچ مچ بلندپایہ بزرگ ہے۔اس نے تو میری سوچ ہی بدل دی ۔بس اب میںتمہاری ہربات پریقین کے ساتھ اتفاق کروںگا۔تم سچے ہو۔ میںہی غلط تھا۔‘‘
مجھے بھی ان کے پاس جاناتھامگر میںموقع دیکھ کرجاؤںگا۔ کیاپتہ وہ کیابولے گا۔میراکچاچٹھا کھول دے گا۔
میںاس بات سے ڈرتاہوں کہ وہ سبھوں کے سامنے مجھے خجل کردے گا ۔ مجھے تواپنی کمزوری معلوم ہے۔میں تب ملنے جاؤں گا جب وہاںپر صرف میں اوروہ ہونگے ۔
بات دراصل یہ ہے کہ میںجب نیانیاملازم ہواتھا۔ میری نفیسہ کے ساتھ کسی فنکشن میں ملاقات ہوئی۔مجھے اس کارہن سہن بات کرنے کاڈھنگ، پورے پردے والالباس اوروہاں الگ تھلگ رہنابہت پسند آیا۔وہ باقی ساری لڑکیوں میں بالکل نمایاں حیثیت رکھتی تھی ۔میںنے بات کرناچاہی تو اس نے میرے ساتھ کوئی دلچسپی نہ دکھائی ۔میںنے ادھرادھر پوچھ پاچھ کراس کے خاندان اوراس کی پڑھائی وغیرہ کاپتہ لگوایا۔مجھے لڑکی بہت پسند آئی ۔میں اب ہردن اس کو شش میں رہتاکہ کہاںموقع ملے کہ میں اس کو اپنے دل کی بات کہوں۔
دن مہینے گذرگئے وہ ملتی گئی مگربات نہ بنی۔ آخرایک دن میںنے بڑے مؤدبانہ لہجے میں اس کے ساتھ بات کی۔اب کی باراس میں تھوڑی سی امید کی جھلک دکھائی دی ۔میںپھولے نہ سمایا۔
ہم نے ایک دوسرے میںدلچسپی لینی شروع کی۔
پھرآخرایک دن ہم دونوںنے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ لیا۔اس کے گھرمیں اُسکی ماں کے علاوہ اور کوئی بھی قریبی رشتہ دارنہ تھا۔ یہ بات میرے لئے بہت خوش کن تھی۔ صرف ایک ماں کومناناتھا۔بس
والدہ سے دوتین ملاقاتوں سے راستہ صاف ہوگیا۔
اب میراتبادلہ دوسرے شہرمیںہوگیا۔
اس موجودہ تعیناتی سے فارغ ہونے سے پہلے میرے والدین میری منگنی کرناچاہتے تھے۔میںنے کافی انکارکیا۔ٹال مٹول کیا۔بڑے بہانے کئے مگر والدین نے ایک بھی نہ سنی ۔بالآخرمیری مرضی کے خلاف میرانکاح کردیاگیا۔ میں بہت پریشان ہواکہ میں نفیسہ کوکیاجواب دوں گا۔میںنے جانے سے پہلے نفیسہ کوساری سٹوری سنادی وہ بھی بہت پریشان ہوئی ۔
مختصرایک آدھ ماہ بعدمیری شادی زبیدہ سے ہوگئی۔نفیسہ نے کہیں بھی شادی نہ کی۔ مجھے اس بات کابڑادکھ تھا۔اس نے تواپناوعدہ ایمانداری سے نبھایا آخرکارمیںنے ہی نفیسہ سے بھی چوری چھپے دوسری شادی کی۔ میں اس کی بھی پوری طرح سنت کے مطابق حقوق کی ادائیگی کرتارہا۔
میںنے زبیدہ سے یہ بات چھپاکررکھی۔اس کو اس بات کاپتہ چلتا تو اس کوبہت دکھ ہوتا۔
میںاسی وجہ سے درویش کے ہاںنہیں جاناچاہتاتھا۔وہاں جانے سے گھبرا تا تھاکہ وہ یہ بھانڈاپھوڑنہ دے۔
ماشاء اللہ ماشاء اللہ ۔میںنے دونوں بیویوں کے ساتھ برابرکاسلوک کیا۔ کھانے میں ۔کپڑوں میں رکھ رکھاؤ میں پیارومحبت میں۔
زبیدہ کومیرے ساتھ دلی پیارتھا۔مجھ پرجان چھڑکتی تھی۔کوئی ذراسی میری طرف سے کمی اس کے لئے جان لیواہوسکتی تھی ۔
میںنے یہ بات نفیسہ کوبتائی مگرنفیسہ کی بات زبیدہ کو نہ بتائی ۔
میں سوچتا تھاکہ اب اگرمیں درویش کے پاس گیااوراس نے رازکو فاش کردیاتوزبیدہ یہ بات سن کربرداشت نہ کرسکے گی ۔وہ صدمے سے مرہی جائے گی ۔
میری شومئی قسمت کہ زبیدہ کوبھی درویش صاحب سے ملاقات کا زبرد ست اشتیاق تھا۔میںاس کی یہ تمناپوری نہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ نکالتاتھا۔ مگراس نے کہا۔’’اگرآپ کوفرصت نہیں ہے تومیں پرلے محلے کی ایک لڑکی کوساتھ لے کرجاؤ گی ۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘۔میں نے کہا۔دوسرے محلہ کی لڑکی یہی نفیسہ تھی ۔
اب یہ دونوں درویش صاحب کے ہاں گئیں۔ وہاں درویش صاحب نے پہلے اشاروں کنایوں سے کچھ کہا جواُن کو سمجھ نہ آیا۔پھرصاف ہی کہہ دیا۔
’’تم دونوں آپس میں سوتن ہو۔بڑی اچھی طرح سے آپس میں ایک ساتھ رہو۔
میری آپ دونوں کے لئے یہی دعاہے۔کبھی ایک دوسرے کادل نہ دکھانا ۔ تم دونوں کاخاوند بہت نیک شخص ہے۔‘‘
چندمنٹوں کے لئے دونوں سکتے میں آگئیں۔پھرجلدہی سنبھل گئیں۔ نفیسہ کو توپتہ ہی تھاکہ یہی زبیدہ اس کی سوکن ہے مگرزبیدہ کویہ پہلی بار معلوم ہواکہ وہ جس اپنے شوہرسے اتنا پیارکرتی تھی اس کی ایک اوربیوی بھی ہے۔
دونوںایک دوسرے سے آنکھیں ملانہیں سکتی تھیں مگراب کیاکیاجاسکتا تھا۔دونوں نے بغیروقت ضائع کئے اس حقیقت کوتسلیم کیا اوردرویش صاحب کی نصیحت پرعمل کرنے کاارادہ کیا۔عرفان نے نفیسہ کودیاہواوعدہ بھی وفاکیا اور زبیدہ سے شادی کر کے والدین کی خوشنودی بھی حاصل کی۔ یہ سب کچھ سن دیکھ کردونوںنے اندرہی اندریک زبان ہوکرکہا ؎
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں ہی کوئی بے وفا نہیں ہوتا
���
نو آباد، سنجواں، جموں،موبائل نمبر؛8825051001