ہم اکثر وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بچپن کی حسین بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں کیونکہ بچپن کبھی نہیں بھولنا چاہے کتنے ہی پچپن گزر جائیں۔ ذکر خیر بچپن اس لئے ہوا کہ جب ہم صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس اسکول (وہ بھی پرائمری دور میں ) میں داخل ہوئے تو صاف ستھری چمکتی ہوئی گیلری کے آخری کونے پر بڑا سا بورڈ لگا ہوتا۔ یہ اسکول آپ کا ہے اس کی ہر چیز کی حفاظت کرنا آپ کا فرض ہے۔ اس کی صفائی کلاس روم ہوں یا گیلری ہال ہو یا کھیل کا میدان حتیٰ کہ اس کی کیاریوں کی صفائی کا خیال رکھنا آپ کا فرض ہے۔ پھول خوبصورتی بڑھاتے ہیں اس لئے پھول مت توڑیں اور کیاریاں صاف رکھیں۔ پینے کا پانی ضائع مت کریں۔ اپنی باری پر پانی پئیں۔ بہت دنوں سے ہمیں اکثر و بیشتر یہ بورڈ خیالوں کے علاوہ خوابوں میں بھی آنے لگا۔ میں سوچنے پہ مجبور ہو گئی جب روز اس بورڈ کو ہم دیکھتے تھے اور پڑھتے تھے نہ صرف دیکھنے او رپڑھنے پر اکتفا کرتے بلکہ اس پر عمل کرنے کی بھی صد فیصدکوشش پیہم کرتے ۔ نہ صرف خود عمل کرتے اس پر نہ عمل کرنے والے بچے کو سب مل کر مجبور کر دیتے کہ اس پر عمل کرو۔ ایسے میں تو یہ بورڈ شریف خواب و خیال میں کبھی نہیں عود کر آیا۔ اب کیا ہوگیا کہ دماغ فعل ماضی سے ہی چھٹکا را نہیں پا رہا۔ ان گرمیوں میں خیر سے وطن یہ عہد باندھ کر گئے تھے کہ اس بار کسی گرمی، کسی حبس، کسی برسات کی پرواہ نہیں کرنی اور جی بھر کر آوارہ گردی کر کے آنی ہے۔ آوارہ گردی کیا کرتے۔ میکے شریف کے بائیں طرف ایک سیاسی رہنما رہتے ہیں اور دائیں طرف تحریک کے قائد رہائش پذیر ہیں اور ان دونوں کے گھروں کے عین بالمشافہ کچرے کا اتنا بڑا ڈھیر ہے جس کو ایک بڑے پلازے کے احاطے کے برابر کہہ سکتے ہیں۔ دیکھتے ہی ٹھٹکے کہ ارادہ تو طول و عرض میں جانے کا تھا۔ یہاں سرمنڈاتے ہی اولے پڑگئے ہیں کہ ابھی گھر تو پہنچے ہی نہیں کہ کچرے نے آن گھیرا ۔ خیر جبرجان پر کرتے ہوئے گھر پہنچے تو ہماری اولاد نے سیاست دانوں کی شان میں قصیدے (برنگ صلوٰ تیں ) پڑھنے شروع کردیئے۔ اُف سامنے رہتے ہیں۔ ان کو خیال نہیں۔ اس سے کتنی بیماریاں پھیلیں گی۔ تو بہ توبہ کیا کرتے ہیں!!!
خیر آہستہ آہستہ دماغ سے پھسلی یہ گندگی لیکن افسوس صد افسوس ہم نے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا اور گھومتے پھرنے کے لئے گھر سے قدم باہر نکالے تو جا بجا کچرا ہی پایا۔ سوائے کچھ پوش ایریا کے جا بجا ڈھیر ملے او ربے شمار ملے اور لوگوں میں صفائی کی آگاہی ان کے گھروں تک محدود ہے، بہت چھلانگ لگائی تو دس فٹ اپنے گھر کے سامنے سے صفائی کرلی۔ باقی کیا ہے اگلے گھر والے جانیںان کی بلا سے کہ آگے کسی اور کا گھر ہے آپ کی اپنی گلی او رمحلہ گندا ہوتا ہے تو ہوئے ہمارا گھرا تو صاف ہے۔ پہلے کہا جاتا ہے: غریب ملک کے امیر باشندے۔ اب ہم یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ گندے ملک کے صاف باشندے۔ اصل میں قصور کسی کا نہیںوطن کےحالات ہی جلیبی بن گئے ہیں۔ گدلے ، گھٹن زدہ ،شہروں میں گلیوں میں جیسے ہی آپ گھروں میں جائیں۔ جہاں جائیں حتیٰ وہاں اتنی آلودگی کہ توبہ بھلی ۔ اس میں جائیں تو ائیرکنڈیشنڈ معطر ماحول آپ کو ملے گا لیکن کبھی ہم کہتے تھے۔ کمروں سے باہر چلیں تو تفنن اور گرد کی لپٹیں آ آکر آپ کی ناک سے اٹھکیلیاں کرتی ہیں۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ ہائے اللہ۔ یہ فضا ئیں یہ ہوائیں دیکھ دیکھ کر دل صدقے قربان ہو جاتا ہے کہ میرے پیارے وطن میں کہاں کہاں آلودگی کا ڈیرا نہیں ۔ سیاست ہی دیکھ لیں۔ پیارے وطن کے بڑے بڑے راج دلارے سیاست دان کیسے کیسے اس میدان کو آلودگی سے تربتر کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں ناں جتنا بڑا سر اتنی بڑی درد۔
جتنی بڑی سیاسی جماعت اس کا اتنا ہی بڑا لیڈر آلودہ ۔کیا حیلے کیا بہانے، کیا کیا پینترے بدل بدل کر بات کرتے ہیں۔ خیر بات کچھ او رہو رہی تھی چلی کہیں اور گئی۔ ہم اپنے ہاتھوں سے کہاں کہاں نقصان نہیں کررہے ہیں۔ اپنے ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف چرند وپرند تہ تیغ اور جنگلات کو ضائع کر رہے ہیں۔ ہمارا ہر کام سطحی سطح پر آگیا۔ ارے واہ کیا فقرہ کسا میں نے بھی لیکن کوئی اسے سمجھے بھی تونا ، اگر کسی نے سمجھ بھی لیا تو کوئی کیا کرے گا یا کیا بگاڑلے گا؟؟؟سب اپنی دُھن میں ہیں۔ جب اپنے رستے میں اسپیڈ بریکر آتا تو پتہ چلتا کہ کچھ ہوا ہے۔ میں نے اپنے اڑوس پڑوس کی سب پھنے خانی خواتین کو بہت ا ُکسایا کہ اپنے اپنے بیلن پکڑو او ر جو گھر کے سامنے کچرے کا جم غفیر لوگ بڑھاتے جا رہے ہیں،ا س کو روکو لیکن سب پھنے خانوں کو ننھی بیگم بننے میں دیر نہ لگی۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا
کہ تجھ سے تو تیرا خیال اچھا
اب ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سردی سمٹتی جا رہی ہے۔ چھوئی موئی شرمائی شرمائی کم ہوتی جا رہی ہے او رسردی کے مقابلے میں گرمی برگد کے درخت کی مانند نہ صرف اپنی جڑیں دور دور تک مضبوط کرتی بلکہ پھیلاتی جا رہی ہے اور ایسے ہی اوپر سے گھنا۔
سردی توآئی نہیں کہ نومبر آگیا۔ ڈسمبر گیا مگر برف ندارد ہے۔ سردی آئے بھی تو کئی جھنجھٹ کرنے پڑتے ہیں مجبوراً ایندھن کے لئے درخت کاٹو، تو درختوں کی کمی۔ آگے نئے کون لگائے۔ کسی کے پاس وقت نہیں نہ عوام کے پاس نہ حکومت کے پاس۔ اس لئے گرمی میں ہی دُھند کا حصار سہی جس سے نظر تو آرہا ہوتا ہے۔ اپنی حد تک ہی رہنا پڑتا ہے۔ اسی سے بچاؤ ہوتا ہے۔ سو باتوں کی ایک بات کہ سردی سے پہلے دُھند آگئی ہے کیونکہ ہم نے خود ہی جو بویا ہے وہ کاٹیں گے۔
شہرسے ذرا دور سیمنٹ فیکٹریوں میں فلٹر نہیں ، دھواں جہاں مرضی لہک لہک کر بہکتا ہوا اڑتا جائے او رتیزابی پانی جس مرضی ندی ،جھیل ، دریا میں اچھلتا کودتا اٹھکیلیاں کرتا پھرے۔ درخت جڑ سے کاٹو، نئے نہ لگاؤ ، چپ چاپ آکسیجن مکاؤ ، گندگی پھیلاؤ، گاڑیوں سے دھواں ، جنریٹروں کا دھواں، سڑک پر گھیراؤ اور دبا کے ٹائر جلاؤ، کھڑی گاڑیاں جلاؤ، ان سب سے دھواں سردی سے پہلے آنے والی دُھند چھائے گی۔ تدارک کوئی نہیں ، کوئی حفاظتی اقدام نہیں، صرف تباہی ہے۔ فصلوں پر کیڑے مار دواؤں کا چھڑکاؤ، جلدی نشوونما کیلئے کیمیکل ڈالو ہم مصنوعی زندگی کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم کیا کیا کررہے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ کوئی نہیں شخصی فائدہ تو حاضر ہے۔ بوتل والے جن کی طرح جو بوتل سے نکلے تو آسانی سے آتا لیکن دوبارہ بوتل میں جن کو بند کرنے کے لئے کتنے ہی جتن کرنے پڑتے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے لیکن ہم ٹھہرے بے فکرے، سب سہیں گے لیکن کوتاہیوں اور غلطیوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے نہیں۔ اپنے ہاتھ اپنے پیارے پیارے آشیاں کو برباد کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، سب اپنی اپنی محفل ودربار سجائے بیٹھے ہیں اور اپنی اپنی دُھن پر تھرک رہے ہیں۔ نہ ہم کسی کے ہیں نہ ہمارا کوئی۔ کوئی نہیں ع
جو سویرہے دھواں دھواں