انسانی صحت کیلئے خطرناک دھاتوں اور نامیاتی مادوں کی بلند سطح پائی گئی
بلال فرقانی
سرینگر//سرینگر کے اچھن سعدپورہ علاقے میں واقع شہر کی مرکزی فضلہ گاہ کے اردگرد ’زیر زمین پانی‘( گرائونڈ واٹر) کے معیار میں نمایاں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق اس علاقے کے زیر زمین پانی میں بھاری دھاتوں کی سطح قومی معیار سے زیادہ پائی گئی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ آلودگی انسانی صحت کیلئے خطرناک ہو سکتی ہے اور فوری اصلاحی اقدامات نہ کئے گئے تو اس کے سنگین ماحولیاتی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔تحقیق کے دوران لیچیٹ( یعنی وہ آلودہ سیال جو کچرے کے ڈھیر سے زمین میں جذب ہوتا ہے)کے نمونے اکٹھا کئے گئے اور ان کا تقابلی تجزیہ کیا گیا۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سرینگر کے ماہرین محمد انم نظیر، ساحل سندن، ثاقب فیاض، محمد عادل ڈار اور جَیالکشمی راجو کی جانب سے تحقیقی مطالعہ میں یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ اچھن فضلہ گاہ کا زیرِ زمین پانی بھاری دھاتوں کی بلند سطح کے باعث پینے کیلئے غیر محفوظ ہے۔
نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ لیچیٹ کی پی ایچ سطح 5.86 رہی، جو قابلِ قبول حد (6.5 سے 8.5) سے کم ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچرے سے خارج ہونے والا مواد تیزابی نوعیت رکھتا ہے۔اسی طرح، کل محلول شدہ ذرات (ٹی ڈی ایس) کی مقدار 23000ملی گرام فی لیٹر ریکارڈ کی گئی، جب کہ قابلِ قبول حد 500 ملی گرام فی لیٹر مقرر ہے۔ پانی کی ہارڈنس( پانی میں کیلشم اور میگنیشم کی زیاد مقدار) کی سطح 7100 ملی گرام فی لیٹر تھی، جو مطلوبہ حد 300 ملی گرام فی لیٹر سے کئی گنا زیادہ ہے۔اسی طرح کیلشیم کی مقدار 2425 ملی گرام فی لیٹر (قابلِ قبول حد 75)، میگنیشیم کی مقدار 1080 ملی گرام فی لیٹر (حد 30)، اور الکلینٹی کی سطح 15000 ملی گرام فی لیٹر (حد 200) پائی گئی۔سلفیٹ اور کلورائیڈز کی مقداریں بالترتیب 6600 اور 1272 ملی گرام فی لیٹر ریکارڈ ہوئیں، جب کہ ان کی قابلِ قبول حدیں بالترتیب 250 ملی گرام فی لیٹر ہیں۔رنگ اور بو کے لحاظ سے بھی پانی کا معیار شدید متاثر پایا گیا۔ لیچیٹ میں خاکستری رنگت اور ناگوار بدبو واضح طور پر موجود تھی، جب کہ معیاری پانی بے رنگ اور بے بو ہونا چاہیے۔ ایک اور علیحدہ تحقیقی مطالہ جو شعبہ سول انجینئرنگ، آر آئی ایم ٹی یونیورسٹی، پنجاب کے طلاب عمران ظہور حفیظ، ڈاکٹر سندیپ سنگلا اور شعبہ ماحولیاتی سائنس، کشمیر یونیورسٹی بسماظہور حفیظ نے کیا ہے، میں کہا گیا ہے کہ اچھن ڈمپنگ سائٹ پر فضلہ کی غیر منظم چھٹائی، غیر محفوظ ذخیرہ اور بارش کے دوران کچرے سے زہریلے مادوں کا اخراج زیر زمین پانی کی آلودگی کی بنیادی وجوہات ہیں۔مطالعہ کے مطابق، یہ آلودگی ارضیاتی عوامل کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ماہرین نے بتایا کہ سرینگر شہر کی اس واحد بڑی ڈمپنگ سائٹ پر روزانہ ہزاروں ٹن بلدیاتی اور ہسپتالوں کا کچرا ڈالا جاتا ہے۔ جن میں سے بیشتر بغیر علیحدگی کے زمین میں دفن یا کھلے میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ نتیجتاً یہ مادے زمین کے نچلے حصوں میں جذب ہو کر آبی ذخائر تک پہنچ جاتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ کچھ مقامات پر آلودگی ابھی قومی معیار کے اندر ہے، تاہم آلودگی کے پھیلنے کا رجحان خطرناک طور پر بڑھ رہا ہے، جو مستقبل میں پانی کے ذخائر کے مکمل بگاڑ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ محققین نے سفارش کی ہے کہ سرینگر میونسپل کارپوریشن کو اچھن ڈمپنگ سائٹ پر جدید ویسٹ مینجمنٹ سسٹم، لیچیٹ کلیکشن اور ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ، شہر میںزیر زمین پانی کی باقاعدہ نگرانی اورفضلہ کو علیحدہ کرنے کے مؤثر اقدامات کو فوری طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو اچھن، زونی مر، ایچ ایم ٹی اور علی باغ کے آس پاس کے علاقے پانی کی شدید قلت اور آلودگی کے بحران سے دوچار ہو سکتے ہیں۔