آصفہ کے ساتھ پیش آیا درد ناک المیہ اب عدل کی بارگاہ میں انصاف کا منتظر ہے ۔ اس معصوم کے دودھ کے دانت بھی نہیں گرے تھے، عمر صرف آٹھ سال تھی، غریبی کی سطح سے نیچے گزر بسر کر نے والے خانہ بدوش بکروال گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ،اس کا کوئی گھرنہ تھا نہ ٹھکانہ، نہ زمین نہ جائیداد ، کم نصیب کسی اسکول کی طالبہ بھی نہیں تھی ، محض مال مویشی کی دنیا میں محو اپنی معصومیت کے ساتھ جی رہی تھی ، اس کی آرزوئیں ا ور خواب بھی اس کی طرح بہت چھوٹے تھے ، یہ ابھی کھلونوں میں ہی کھوئی ہوئی تھی ، اس کے پاس آرام دہ زندگی کا کوئی تصور نہ تھا ، یہ سیاست کی جادوگری ا ور حکومت کے استحصال سے قطعی نابلد صرف پہاڑوں ، جنگلوں ، چراگاہوں اور مسافرت کی زندگی سے واقف تھی۔ اس معصومہ کے بد ترین انجام پر اگر ریاست کے نائب وزیراعلیٰ کو یندر گپتا ’’ایک چھوٹا سا معاملہ ‘‘ ہونے کا فتویٰ دیں تو اور کچھ کہنے کو باقی کیا رہتا ہے ؟
آصفہ ۷؍ فروری کو بھی حسب معمول اپنے گھوڑوں کی تلاش میں عارضی گھر سے نکلی اور راستے میں ہی اس ننھی ّ سی جان کو قاتلوں نے بہ جبر پکڑ لیا ۔ یہ معصومہ ان کے ظالم و جابرہاتھوں میں پر کٹی چڑیا کی طرح پھڑ پھڑاتی رہی مگر کسی ایک بے رحم اغواء کار کواس معصومہ پر تھوڑا بہت بھی رحم نہ آیا ۔ اس کے بعد کیا ہو ا کرائم برانچ نے باضابطہ تفتیش کر کے اس کی داستان سرائی کی سنگ دل سے سنگ دل انسان کا دل دہل جاتا ہے ۔کرائم برانچ تفتیشی رپورٹ کے مطابق مقتولہ کو پہلے رسنا کے ایک مقامی مندر کے اندر بند کر دیا گیا۔ آٹھ دن تک اسے بھوکا پیا سا رکھ کرپانی کی بوند بوند کے لیے ترسایا گیا اور پنجرے میں بند کر کے اسے درندگی کا مطلب سکھایا گیا۔ وہ اپنی کم نصیبی پر کوئی شور ہنگامہ نہ کرے ، آنسونہ بہائے، سسکیاں اور آہیں نہ بھریں،اس کے لئے مقتولہ کو نشیلی دوائیاں کھلائی گئیں ، اس کے ساتھ مندر کے پجاری اور ایک پولیس والے سمیت کئی لوگوں نے اس پھول کی عصمت کا نازک شیشہ کئی بار توڑا ۔ ادھر اس مصیبت زدہ وجود کی تلاش میں اس کے والدین اور رشتہ دار پریشانی کی حالت میںاس بچی کی تلاش میں رہے ،اُن کے دن کا چین اور رات کا آرام گیا، تلاشی کارروائی طول پکڑنے لگی تو اغواء کاروں نے بے سہارا بچی کوپاس کے جنگل میں لے جاکر اس کے معصوم سر پر پتھر مارمار کر اس کا قتل کر دیا اور وہ چند ہی ثانیوں میں بدجہ ٔ شہادت پہنچ گئی۔
جرائم کی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جو نہ صرف تعصب ، نفرت اور ہوس کی آگ سے شروع اور ختم ہوا بلکہ یہ کھٹوعہ میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر کا پیش خیمہ تھا ۔ اس حوالے سے پتھر دلی ملاحظہ کیجئے کہ یہ معصوم مقتولہ صرف ۸سال کی تھی اور جس جگہ اس کی اجتماعی عصمت دری ہوئی، یہ ان قاتلوں اور درندوں کا عبادت خانہ تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عصمت دری اور قتل کی اس سازش کااسکر پٹ لکھنے والاکوئی اور نہیں بلکہ اس مندر کا پجاری سنجی رام تھا جس کی پوتی آصفہ کی عمر سے دوگنی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ اس کمینہ خصلت بوڑھے کا بیٹا بھی اپنے باپ کی موجودگی میں اس ظلم میں شامل رہا، یہ سنگین اور ناقابل معافی جرم کرنے والوںمیں دیپک کھجوریہ نامی پولیس والا بھی شامل رہا جس کوسرکاری خزانے سے اس لئے تنخواہ اور دیگر مراعات ملتے ہیں کہ وہ نہتوں اور بے آسرا لوگوں کو لٹیروں اور مجرموں سے تحفظ دے ۔ اس کے بعد جب مظلومہ کی موت واقع ہو گئی تو ظلم بالائے ظلم یہ ہو اکہ اس کی میت کو گاؤں کے اکثریتی ہندو طبقہ کے سر پھرے لوگوں نے دفنانے سے رو ک دیا ، حالانکہ یہاں کے قبرستان میں پہلے سے ہی مقامی لوگوں کی قبریں موجودہیں ۔ بحالت مجبوری سوگوار کنبے کو آصفہ اپنے عارضی گھر سے آٹھ کلو میٹر کی دوری پر سپر خاک کر نا پڑا۔ اس کے بعد بھی جو مناظر دنیا کے سامنے آئے وہ ظلم وتشدد کی تاریخ کو بھی شرماتے اور رُلاتے ہیں۔ جن ملزموں نے عصمت دری کی یہ بد نام حرکت کی، اُن کے حق میں، ہاں ہاں اُن کے حق میں، مقامی فرقہ پرستوں نے ریلیاں نکالیں اور ان ریلیوں میں ہندوستان کے ترنگے جھنڈے کو بھی لہرایا گیا۔ ترنگااٹھانے کے پس پردہ ہندومنچ والوں کا یہ وردی پوشوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ ہم دیش بھگت ہیں اور دیش بھگتوں کا بچاؤ کر رہے ہیں ۔ جھوٹ پر مبنی اس انہونے ڈرامے کا سہارا لے کر قاتلوں کو چھڑانے کے لیے نعرے بلند کیے گئے، کئی روز تک سڑکیں بند جام کردی گئیں اور نہ جانے کیا کیا ظلم وستم ڈھائے گئے۔ دریں اثناء آصفہ کے قتل و عصمت دری کے پختہ ثبوت مٹانے کے لیے پولیس افسران نیا س سے بھی زیادہ گھٹیا کام یہ کیا کہ آصفہ کے جسم سے نکلے ہوئے خون سے رنگے اس کے کپڑے دھو ڈالے تاکہ فورنسک لیبارٹی والے اصل قاتل کی نشاندہی نہ کر سکیں ۔
آگے بڑھئے تو کئی اور گھناؤنے چہرے بے نقاب ہوںگے ۔معاملے کی تحقیق کرنے والی کرائم برانچ ٹیم کٹھوعہ عدالت میں اپنی تفتیشی رپورٹ پیش کرنے گئی تو اسے وکلا ء حضرات نے گھیر لیا، کئی گھنٹوں تک اس ٹیم کو متعلقہ جج صاحب کے سامنے اندر نہیں آنے دیا۔ کرائم برانچ زبر دست مشقت اٹھانے کے بعد رپوٹ عدالت کے سامنے پیش کر سکا ۔ اس معاملہ میں قانون کی راہ کھوٹی کر نے کی نیت سے وکلاء نے اسی طرح مورچہ سنبھالا جیسے ہندومنچ نے اپنا وزن ملزمان کے پلڑے میںدال دیا ۔ وکلاء نے بھی جم کر ریلیا ں نکالیں اور ملزموں کی حمایت میںنعرے بلند کیے۔اس قابل اعتراض کام میں جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کارول کس رنگ ڈھنگ کا تھا ،وہ ناقابل بیان ہے ۔ مر حبا ہوآصفہ کے قتل و عصمت دری معاملہ کی پیروی کرنے والی خاتون وکیل دیپکا رجاوت کو جنہیں ہراساں وپریشاں کیا گیا ، دھمکی دی گئیں، تذلیل سے دوچار کیا گیا مگر انہوں نے شدت پسندوں کی ایک نہ سنی اور اپنے پیشے کا تقدس برقرار رکھا۔ جب کہ زانیوں اور قاتلوں کو بچانے کے لئے ہندو ایکتا منچ کے جھنڈے تلے فرقہ پرستوں نے انسانیت کو شرمسار کیا اورجب مخلوط سرکار کے دو کابینی وزراء نے منچ کے اسٹیج سے فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی کر کے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر گئے تو حکومت کی اصلیت بھی سامنے آگئی کہ یہ ناگپور کی سنتی ہے اور کسی کی نہیں ۔ کٹھوعہ میں پیش آیا یہ واقعہ سب کو ننگا کر گیا اور یہ اس ملک میں پیش آیا جسے دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے اور جس ملک میں بیٹی بچائو بیٹی پڑھاؤ جیسے نعرے کی دھوم ہے ۔ دل تھام کر سنئے کہ جس تنظیم نے یہ نعرہ دیا اسی سے تعلق رکھنے والے نئے نائب وزیر اعلیٰ کویندر گپتا کا پہلا بیان یہ تھا کہ آصفہ قتل ایک چھوٹا سا معاملہ ہے، اسے زیادہ طول دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس اوٹ پٹانگ بیان نے لوگوںکے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا اور ظاہر کیا کہ جہاں وزیر اعلیٰ ایک خاتون ہیں ، وہاں خواتین کے عزت واکرام کا کیا حال ہے۔ آٹھ سال کی بچی کا قتل اور عصمت دری ایک معمولی معاملہ واقعہ ہے تو اقوام متحدہ کے سیکر ٹر ی کو کیوں اس بارے میں تشویش ظاہر کر نی پڑی ؟ وزیر اعظم مودی کو ڈمیج کنٹرول کے لئے کیوں جلداز جلد ریپ کے مجرم کے لئے سزائے موت کا آرڈی ننس جاری کر نے کی ضرورت کیوں پڑی ؟ صدر ہند کو کیوں اس المیے پر مظلوم بچی کے ساتھ ہمدردی اورملزمان کے خلاف نفرت کا اظہار کر ناپڑا ؟ فلمی ستاروں اور دیگر شخصیات کو کیوں آصفہ کی یاد نے تڑپایا؟ ان سوالات کا جواب مسٹر گپتا کے پاس سوائے خاموشی اور کیا ہوسکتا ہے ؟ نیز ایک معصوم بچی کے قتل اورآبروریزی کے بارے میں نائب وزیراعلیٰ کا یہ بیان کہ یہ ایک’’ چھوٹی سی گھٹنا ‘‘ہے ، ان سے پوچھا جائے گا کہ پھر بڑی گھٹنا کیا ہو تی ہے ؟ انہیں چار وناچار ماننا ہو گا کہ آٹھ سالہ بچی کی عصمت دری اور قتل سے بڑھ کر دنیا کے اندر کوئی بڑا گناہ ہو ہی نہیں سکتا،وہ بھی بھگوان کے گھر میں ۔
آصفہ ایک ایسی کلی تھی جسے کھلنے سے قبل ہی انسانی شکل میں حیوانوں نے مسل کے رکھ دیا، اس کی چھوٹی سی زندگی میں اسے انصاف نہیں ملا، اس کی قوم یا گوت کوسنگھ پریوار والوں سے یہ تک سننا پڑا کہ یہ خانہ بدوش ہیں، اوران کا زمینوں پر کوئی حق نہیں ہے ،اس لئے ان کی نسلی صفایا کی جانی چاہیے لیکن اس نفرت آمیز زبان کے باوجودپہلی بار فرقہ پرستوں نے دیکھا کہ ریاست کی اس مایہ ناز بیٹی کو انصاف د لانے کی آوازیں دنیا بھر میں اٹھ رہی ہیں اور اس کے قاتلوں کوپھانسی دینے کی حامی بھر لی جاتی ہے ۔ جسٹس فار آصفہ جیسے سلوگن کے تحت لوگوں نے سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہوئے چھوٹے بڑے، کالے گورے ، رنگ ونسل ، مذہب و ملت سے بالاتر ہو کر یکجا دیکھا جارہاہے۔ اب آصفہ اس جگہ پہنچ گئی ہے جہاں بے رحم دنیا کی ہمدردی اس کے کسی کام نہیں آسکتی اور نہ اسے جہاں والوں کے انصاف کی کوئی ضرورت ہے ۔اس کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطلب ہے کہ سماج کی دوسری آصفائیں سر اُٹھاکر جیں۔ آصفہ کو مسلمان بچی ہونے کی بناپر جو تکلیف پہنچائی گئی وہ اسے شہادت کا درجہ نصیب کر گئی ہے اور وہ اب باغ ِ جنت کا ایک پھول ہے ۔ اس نے دنیا نہیں آخرت کا آرام ملا ہے ،وہ اپنے والدین کے مغفرت کا سبب بنے گی۔ اس لئے کرسی والے لوگوں کا اس المیہ کی نفی کر نا ، فرقہ پرستانہ نعرے دینا، قاتلوں کے حق میں ریلیاں نکالنے سے آصفہ کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن آصفہ جیسے زندہ پھولوں کی بقا ء کے لئے لازمی ہے کہ گلشن ِ حیات میں انہیں احسا س ِ تحفظ ملے ۔ اس لئے آصفہ کو انصاف ملنا اس بات کی ضمانت ہے کہ ہماری اپنی بیٹیاں محفوظ زندگی گزارنے کا حق پاسکیں۔ آج جو ہر طرف سے آصفہ کے لئے انسانیت کی چیخ وپکار سنی جا رہی ہے یہ ہماری اپنی بیٹیوں کے مفاد میں ہے تاکہ انہیں درندوں کے پنجوں سے پوری آزادی مل سکے ۔ اس ضمن میں آج جو قانون بنائے جائیں یا جتنے بھی سخت اقدامات کئے جائیں گے ،ان میں صنف نازک کی بقاء کا پیغام چھپا ہوا ہے ۔ لہٰذاجتنی جلدی اور جتنی سخت سزا از روئے قانون آصفہ کے قاتلوں کو ملے، یہ جرائم پیشہ لوگوں پر قدغن لگانے کے لیے سنگِ میل ثابت ہو گا ۔ آصفہ معاملے میں ملزموں کی حمایت کرنے والے دو کابینی وزیروں کی وزارتیں چلی گئیں ،جرائم پیشہ پولیس لاک اَپ میں ہیں، قانون نے ملزمان کے خلاف بظاہر تیکھے تیور کئے ہوئے ہیں ، لیکن آج آصفہ کی مظلوم قوم جموں باسیوں سے پوچھ رہی ہے کہ ہم اور ہمارے دادا پردادا ہی نہیں بلکہ کئی پشتیں تمہاری خدمت کرتی چلی آرہی ہیں، جب تم صبح نیند سے بیدار ہوتے ہو تو اپنے آل اولاد اور خودکو دودھ کا ایک قطرہ دئے بغیرہم تمہارے دروازوں پر دستک دیتے ہیں کہ دودھ لیجئے ۔ کیا اس ان تھک خدمت کا بدلہ ایسے ہی چکایا جا تا ہے کہ ۴۷ء کی طرح ہماری نسلی تطہیر کی سازشیں رچارہے ہو ، جگہ جگہ خانہ بدوشوں کے درپئے آزار ہو ؟ ہم لوگ خود بھوکے رہتے ہیں، جنگلوں میں سخت محنت سے اپنے مال مویشی کے لیے گھاس اکھٹا کر کے انہیں کھلاتے ہیں اورتب جاکر دودھ کے مٹکے لئے شہر کا رُخ کر کے بلاکسی تفریق کے تمہیں قدرت کی یہ خالص نعمت سونپ دیتے ہیں تاکہ تمہارے لاڈلے پلیں بڑھیں اور تم اس کا صلہ یہ دیتے ہو کہ ہمارے دشمنی پر اتر آئے ہو ۔ پہلے تو ایسا نہیں تھا مگر اب یہ زہر کس نے تمہاری رگوں میں گھول دیا کہ آج ہمیں یہ اپنے علاقوں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہو ۔ ہم نہ رہیں تو یہ جنگلات کس کام کے ہیں ؟ہمارے کچے گھاس کے قلے کو کبھی بھینسوں سمیت نذر آتش کررہے ہو، کبھی ہمیں کھلے آسمان کے نیچے راتیں اور دن گزارنے پر مجبور کر رہے ہو ، ہمارا کوئی پرسان حال نہیں اور اس وقت خود و دہشت کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سیاست دان اپنے ہوں یا پرائے کوئی بھی کھل کر ہمارا دُکھڑا سننے کو تیار نہیں، کسی عدالت میں ہماری شنوائی نہیں ہوتی ۔ یہ پہلی بار ہے کہ آصفہ کے ساتھ پیش آئی درندگی نے دنیا کے سامنے ہمارا بُرا حال واضح طور رکھ دیا ورنہ کتنی آصفاؤں کوروزانہ ایسے درندوں سے پالا پڑتاہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں، یہ مقہور قوم شرم اور خوف کے مارے ایسی درندگیوں کو خاموشی اور مایوسی کے پردے میں دبا دیتی ہے کیوں کہ اس قوم میں آج تک کوئی ہمدرد وغم خوار رہنما پید ا ہی نہ ہو ا جو اس کے دُکھ درد کو اربابِ اقتدار کے سامنے رکھ سکے ۔ بہرحال آج رسنا اور گردونواح میں جو دہشت ووحشت کا ماحول بنا ہوا ہے ،اس سے خانہ بدوش طبقہ کے لوگ سخت گھبرائے ہوئے ہیں، ان میں عدم تحفظ کا احسا س ہے ، وہ اکثریتی طبقہ سے خائف ہیں ۔اس صورت حال کا ازالہ کر نے اور ان کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے سرکار کو تیر بہدف اقدمات کرنے چاہیے ، خاص ان لوگوں کی گز بھر زبانیں بند کردینی چاہیے جو آصفہ کیس کو ل اپنے سیاسی اور فرقہ پرستانہ اغراض کے لئے بکواس کر کے لوگوں کے ہرے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں ۔اس سلسلے میں لازمی ہے کہ ریاستی حکومت اس آرڈی ننس کو عملی طور نافذ کرے جس کے مطابق بلات کار کی سزا پھانسی ہے ۔
9419170548