بھارت کا آئین دنیا کا سب سے ضخیم دستور ہے ۔اس میں جدیدقومی ریاست کے وہ تمام خدوخال بدرجہ ٔ اتم موجود ہیں جو ہر شہری کے لئے روٹی کپڑا مکان اور انسانی حقو ق کی ضمانت دیتے ہیں۔اس میں جمہوریت کی روح پیوست ہے ، اس میں وفاقیت کا تصور جاگزیں ہے ،اس میں عدالت کا نظریہ رچا بسا ہو اہے ،اس کے لفظ لفظ میں بنیادی حقوق کاپرچم لہرا رہاہے، اس میں فرد اور اجتماع کے درمیان تعلقات اور اختیارات کا توازن ہے ، لیکن اس میں ہنگامی حالات کا غلغلہ بھی ہے اور افسپا کی آمریت کا دبدبہ بھی ہے۔ غرض اس میں مسکراہٹیں اور آہیں، ہمدردیاں اور ظلم رانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ تاریخ کی ایک تلخ ترین حقیقت ہے کہ بھارتی آئین کو کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کا سیاسی نظام ہست وبود چلانے والے ہاتھوں نے ہمیشہ اپنی خود غرضیوں کا خُم خانہ بناکر لفظاًومعناً پامال کیا اور یہ کام بڑے شوق سے اب بھی کر تے جارہے ہیں ۔ جہاں پنڈت نہرو نے اسے اپنے برانڈ کے سوشلزم کا نمونہ بنایا ، اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کی زور زبردستی کا چولہ پہنایا، نرسمہا راؤ نے ا س سے بابری مسجد کی شہادت کے لئے کدال اور پھاوڑے کا کام لیا ، وہاں اب نریندمودی اسے پریواری ہندوراشٹر بنانے کے لئے اینٹ گارے کاکام لے رہے ہیں ۔
بے شک سیکولرازم یا گنگا جمنی تہذیب بھارت کی ابدی ضرورت ہے لیکن اب یہ تصور زعفرانیوں کے سیاسی غلبے کی ضرورت سے بدلا جا رہا ہے۔ چونکہ آئین ِ ہند کے معماروں نے خوب تاڑلیا تھا کہ سیکولرازم ہی وشال دیش کی بقاء، تعمیر وترقی اور امن و امان کی ضمانت ہے اور یہ کہ یہاں تکثیرت سے ہی وحدت کے چشمے پھوٹ سکتے ہیں ، اسی لئے بھارتی آئین کو دور اندیشی اور ذہانت وفطانت کے ساتھ مرتب کرنے والوں نے حقیقت پسندی سے کام لے کر ملک کے سیکولر کردار اورمسا وات کے رنگ و روپ سے دستورِ ہند کو خوب صورت اور دلکش بنا دیا ۔ تاریخی اعتبار سے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ آزادیٔ ہند کے پہلو بہ پہلو جب اس آئین کی تدوین ہو رہی تھی، چوٹی کے کئی ایک لیڈر فکری لحا ظ سے ہندوتو کے قائل تھے ،ان کا جھکاؤ سیکولرا زم اور جمہوریت سے زیادہ ہندو دھارمک قومیت کی جانب تھا مگر اس غیر جمہوری فکر کے حامل لوگ تعداد اور قوت کے لحاظ سے سیکولر نیتاؤں کے آگے کمزور اور نحیف تھے ۔اس لئے ایک ایسا ملکی آئین مرتب ہوا جس میں سماج کے تمام طبقات کے ساتھ ہم قدم اور ہم آہنگ ہونے کی غیر معمولی صلاحیت تھی مگر آئین چونکہ کوئی ایسی جامد چیز نہیں جو لفظوں کے پیرائے میں لکھ دیا جائے اور پھر خود کار مشین کی طرح خودبخود نافذ ہوجائے ۔ دنیا کاہر آئین چاہے وہ الہامی ہو یا انسانی ذہن کا تراشیدہ ،اُسے عمل کا جامہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے افرادی قوت اور ان کے بے لوث عزائم کی ضرورت ہوتی ہے ،ایک مربوط سسٹم اور منظم میکانزم ناگزیر ہوتا ہے ۔ ایسے پختہ کار ذہن ہی آئین کے تصورات کو زمینی سطح پرمملکتی نظم ونسق کی حقیقتیں بناسکتے ہیں ۔ اگر آئین کو نافذ کرنے والے مخلص ، بے لوث اور آہنی عزائم والے افراد میسر نہ ہوں تو کوئی بھی آئین محض حسین وجمیل الفاظ کا گورکھ دھندا بن کررہتا ہے ۔
راقم الحروف نے یہ تمہید کھٹوعہ کیس کے پس منظر میں اس لئے قلم بند کی تاکہ ہمارے پاؤں حقائق کی زمین پر جمے رہیں۔ کھٹوعہ کا سنسنی خیز المیہ وقوع پذیر ہونے کے فوراً بعد ہندوتووادی مر کزی حکومت نے آئین کی طرف رجوع کر کے ایک آرڈی ننس جاری کیا جس میں کہا گیا کہ بچوںبچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر نے والوں کو معیادبند تفتیش اور عدالتی کارروائی کے بعد مجرم ثابت ہونے کی صورت میںپھانسی دی جا سکتی ہے ۔ یہ سرکاری حکم نامہ جاری ہونے کے باوجود معصوم آصفہ کے بعد بھی کئی اور آصفائیں درندوں کا شکار ہو تی رہیں بلکہ گزشتہ دومہینوں میں سے بھارت میں اس نوع کے پیش آئے دلدوز واقعات کے اعداد و شمار دیکھئے تو حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ مجرموں کی حوصلہ شکنی کے بجائے ایسے ناقابل معافی جرائم کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ بالفاظ دیگر آئین ، حکومت اور سماجی رائے عامہ کا دباؤ، عالمی خجالت کے باوصف یکے بعد دیگرے ایسے جرائم کا ارتکاب بتا رہاہے کہ اربابِ اقتدار مجرموں کے سامنے بے بس ہیں۔
یہاں شمالی کشمیر میںکنن پوشہ پورہ ، جنوبی کشمیر میںنیلو فر اور آسیہ اسی طرح کے ناقابل برداشت الم ناک واقعات کی بھینٹ چڑھا گئیں ، ان المیوں کے زخم ابھی ہمارے دل ودماغ میںہرے بھرے ہیں ، ابھی تلک ان سے لہو رستا جارہا ہے مگر انصاف ندارد۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ قانو ن کی ناک کے نیچے شر ناک اور بھیانک جرائم کی شرح سماج میں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے جب کہ نت نئے قاعدے قانون بھی بن رہے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ تعلیم وتدریس کی روشنیاں عام ہونے کے باوجود انسانی خصلتیں درندوں کے خصائل کو بھی شرمندہ کر تی جارہی ہیں ؟کیا وجہ ہے کہ اب اپنی آنٹیاں کم سن بچیوں کو شراب پلاکر اپنے یاروں کی ہوس بجھانے اور خود اس کا تماشہ دیکھنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتیں ؟ دنیا کی تاریخ اور انسانی نفسیات کو سامنے رکھ کر دیانت داری سے ان نکات پر غور کیجئے تو یہی اَزبر ہوگا کہ انسان محض قانون کے ڈر اور خوف سے کسی ایسے جرم سے بازنہیں آتا جو اخلاقی آداب سے بغاوت کر تا ہو ۔اس پرمستزاد یہ کہ جب وقت کے حکمران، اُن کی پولیس، اُن کی عدا لتیں، ان کے ادارے اپنے سیاسی آقاؤں کی منشاء کے عین مطابق مجرموں کو کھلا چھوڑدیں ، چاہیے یہ بابری مسجد کو ڈھانے کے مجرم ہوں ، گجرات کے قتل عام میں ماخوذ ہوں ، سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکے میں ملوث ہوں یا مکہ مسجد کے بم بلاسٹ کے اقبالی مجرم ہوں، تو خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ہم اور آپ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔
خالقِ کائنات نے انسان کی تخلیق کی ہے ، وہ اس کے اندر چھپی ہوئی تمام کائناتوں کے ذرے ذرے کو جانتا ہے،اس نے ابن ِآدم کے ضمیر وخمیر میں بیک وقت نیکیوں کی خوشبوئیں اور برائیوں اورجرائم کی بدبوئیں ودیعت کی ہوئی ہیں ۔ انصاف کے تقاضوں کے پیش نظر اس نے خوشبوؤں کے لئے انعامات اور برائیوں کے لئے عقوبتیںاور سزائیں مقرر کی ہوئی ہیں ، یہ نظام نہ صرف مناسب ومعقول ہیں بلکہ یہی انصاف کے اصل تقاضوں کے عین مترادف ہے جو انسانی سماج کو ایک لگے بندھے اسلوب ِ کار کا پابند بناتے ہیں ۔ ہرجرم کی سزائیں ِ، قانو ن کاڈر اور خوف بدن کا مجرب علاج کہلاسکتاہے لیکن روح کی پاکیزگی کے لئے کچھ دوسری دوائیاں ہیں جنہیں ہم نظم وضبط ، قانون ِانسانیت، قواعد کے دفاتر کی صورت میں گردوپیش میں پاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملکوں اور اقوام میں یہ مجرب دوائیاں نایا ب نہ بھی سہی مگر قابل اعتناء نہیں سمجھی جاتیں۔اسی لئے بھیانک اور انتہائی گھناؤنے جرائم پر بھی مجرموں کو’’جمہوری‘‘بہانوں سے بّری کرکے کھل کھیلنے کی چھوٹ دی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ آج کی تاریخ میں امریکہ اور اس کے مغربی ومشرقی دُم چھلے انسانیت پر غضب ڈھائیں یا کمزور اقوام کو روند تے جائیں،ان کے جمہوری آئین کے ماتھے پر بل پڑتے ہیں نہ عالمی قانون کی ناک بھوئیں چڑھتی ہیں ۔ انڈیا کا رُخ کیجئے تودیکھیں گے کہ ایک جمہوری آئین کے باوجود کشمیراور شمال مشرقی ریاستوں میں یہی امر یکی ماڈل چل رہاہے کہ جس کے بل پر انسانی اقدار کے خلاف جرائم کا ارتکاب نہ صرف ریاستی سطح پر ہوتا جارہاہے بلکہ سیاسی پارٹیوں کے کر تادھرتا کبھی اناؤ اتر پردیش میں اور کبھی کھٹوعہ جموں میں وہ گل کھلارہے ہیں کہ ان کے تذکرہ سے قلم کا ضمیرکا نپ اٹھتاہے مگر افسوس کہ نہ ان جفاکیشیوں پر آئین کی نیندیں اُچاٹ جاتی ہیں اور نہ خود غرضانہ سیاست کے اسیروں کو ذرا سی ہلچل محسوس ہوتی ہے ۔ حالانکہ سماج میں آئین وقوانین کی پاسداری ہی کسی کمزور و بے نوا کے لئے حفاظتی حصار ہوتی ہے جو اس حصار کی پناہوں میں جی رہے شریفوں ، ضعیفوں اور قانون کے پابند شہریوںپر ظلم و جبر کا بازار گرم کرنے سے سیاسی پہلوانوں کو باز رکھ سکتی ہے بشرطیکہ اس حصار کی ہمہ وقت حفاظت ونگرانی کے لئے امانت دار، بے لوث اور فرض شناس انتظامیہ اور عدلیہ کی شکل میں سرکاری مشنری چو کنا ہو ۔ اسی قسم کے سماج کے بطن سے جمہوری ا ور فلاحی معاشرہ وجود پاتا ہے جس میں آصفہ جیسی گڑیا سے لے کر اخلاق احمد جیسے
ایک سن رسیدہ انسان کا جان ومال محفوظ رہتا ہے کیونکہ ا س کے حقوق ِ حیات پر آئین وقانون کا پہرہ رہتا ہے ۔ ہمارے یہاں یہ پہرہ اگر ڈھیلا بلکہ ختم نہ ہواہوتا تو کھٹوعہ جرم کی ناگفتہ بہ داستان کے تناظر میں کھٹوعہ یہ مناظر نہ دیکھتا کہ چودھری لال سنگھ بہ حیثیت وزیر جموں کی گوجر برادری کو کھلے عام دھمکی دے کہ وہ ۴۷ء کو بھول نہ جائیں ، یہ شخص اپنے ایک اور کابینی ساتھ کے ہمراہ ہندو ایکتا منچ کے جھنڈتے تلے اپنی ہی پولیس کی دھمکیاں دے ، کابینہ سے مستعفی ہونے کے بعد بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ کرائم برانچ سے آصفہ کیس لے کر سی بی آئی کے حوالے کر نے کی ریلی نکالنے کی جرأت نہ کر تا، رسنا گاؤں کا ایک بوڑھاپجاری سنجی رام دیوی ستھان مندر کے اندر وہ ناقابل معافی جرم ہونے کی اجازت نہ دیتا جو دین دھرم کے ماتھے پر دھبہ ہے، یہ شخص نفرت میں بہک کر رسنا سے خانہ بدوش بکروالوں کی نسلی تطہیر کی سازش نہ رچاتا، ہیرا نگرپولیس تھانے کے تین اہل کار عصمت دری اور قتل میں ملوث مجرموں کی پشت پناہی اور ان کے سنگین جرم کو چھپانے میں آلہ ٔ کار نہ بنتے، رسنا میں لوگوں کے ذہن اتنے زہر آلودہ نہ ہوتے کہ وہ آٹھ سالہ مقتولہ کو دفن ہونے کے لئے دوگز زمین دینے سے بھی انکار کرتے ۔ بہر حال چلئے فرض کر تے ہیں کہ مرکزی حکومت نے پہرہ داری کے اس نظام کو از سر نو استوار کر نے لئے باضابطہ طور یہ تازہ آرڈیننس جاری کیا جس کی رُوسے عصمت دری کے لئے سزائے سخت مقرر کی گئی، ریاستی حکومت نے بھی اسی سے مشابہ آرڈی ننس جاری کر کے یہ پیغام دیا کہ اب حد ہوگئی لیکن دیکھایہ جائے گا کہ کیا کھٹوعہ کے مجرموں پر ان آرڈی ننسوں کا اطلاق ہوگا یا بس یہ ایک تماشہ ہے ؟ بادی النظر میں اس کے امکانات معدوم دکھائی دے رہے ہیں کہ قانون مجرموں کی گردن ناپے گا کیونکہ ریاست میں عملاً آئین وقانون کی بالادستی خیال و جنون ہے ۔ نیز اگر ریاستی حکومت کی یہ چاہت ہوتی بھی تو کم ازکم وزارتی کونسل میں ردوبدل کر تے ہوئے دکھاؤے کے لئے ہی سہی پی ڈی پی صدر اور وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھاجپا کے ایم ایل اے کھٹوعہ جسر وٹیہ کو وزارت کا قلمدان سونپ دئے جانے پرا پنی خفگی کا اظہار کر تیں کہ وہ بھی ملزمان کے حق میں منچ کی ریلی میں پیش پشی تھا ، یا وزیراعلیٰ کم ازکم نئے نائب وزیراعلیٰ کویندر گپتا کے اُس بیان کو رد کر کے دوٹوک موقف اختیارکرتیں کہ کھٹوعہ معاملہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ۔ جب انہوں نے ان دو مدعوں پر خاموشی کی لحاف اوڑھ لی تو آصفہ کو انصاف ملے ، بظاہراس کی توقع کر نا خلافِ عقل امر ہے ۔ نیز ہمارے عدلیہ کو انصاف کے فیصلہ کن مر حلے تک پہنچنے کے لئے عمر خضر تک کا انتظار کروانے کی لت پڑی ہوئی ہے ،اس وجہ سے بھی کھٹوعہ کیس مدتوں لٹکا رہے گا ، جب کہ اس دوران نئے نئے المیے جنم پاتے رہیں گے کہ آصفہ فراموش ہوگی ۔ مزیدبرآںجب معاملہ کسی ریاستی مسلمان کے حوالے انصاف کی ہو تو شواہد اور ثبوت سب یکایک گنگ ہوجاتے ہیں اور اگرکچھ باقی رہتا ہے تو صرف اجتما عی ضمیر کی تسکین یا بقول کسے اکثریتی ہندوؤں کی دل بہلائی کے لئے مسلمانوں کا بلیدان ۔
ر یاستی سرکار نے بھی دلی کی دیکھا دیکھی میں ریپ مخالف آرڈیننس جاری کیا۔اس کی رُو سے ۱۲؍ سال عمر والی بچی کی عصمت دری کرنے والے مجرم کے لئے فاسٹ ٹریک عدالت سے پھانسی کی سزالا زمی ہوگئی ، جب کہ۱۸؍سال تک کی لڑکی کی عصمت دری کے لئے عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے ۔ یہاں پھر سے یہ بڑا سو ال پھن پھیلائے ہے کہ کیا کاغذ پر لکھے ہو ئے ا س قانون کو عملی طورنافذ کرنے والی ایجنسیاں حسب سابق آسیہ اور نیلوفر ایپی سوڈ کی طرح دیش بھگتی کا ساتھ دیں گی یاقانون کو عملی شکل میں نافذ کر نے پر کمر بستہ ہوجائیں گی ؟ یہ کل پرسوں کی بات ہے کہ نیلوفر اور آسیہ کا حساس کیس سی بی آئی نے بآسانی عمرعبداللہ کی حکومت کے زیر سایہ ایک ایسی انہونی کہانی سناکر داخل دفتر کی جسے یاد کر کے آج بھی کلیجے پھٹ جاتے ہیں ۔ آصفہ کے معاملے میں جو اس وقت سیاسی منظر نامہ بنا ہوا ہے ، گزشتہ تجر بات بتاتے ہیں کہ اس کا ڈراپ سین بھی شوپیان کیس کی طرح سیاسی مفادات اور کرسی بچاؤ کے جھمیلوں میں الم غلم کیا جائے گا کیونکہ تصدق مفتی کے بقول پی ڈی پی۔ بی جے پی کا حکومتی اتحاد جرائم میں شریک کار ہونے پر کا ربندر ہے گا ۔اس دوطر فہ شراکت داری سے ریاست کشمیر کے اَنگ اَنگ سے جو لہو کی ندیاںبہہ رہی ہیں، وہ آئندہ بھی جاری رہیں گی ۔ اس ضمن میں پی ڈی پی کے ا ہم لیڈراور وزیرخزانہ سید الطاف بخاری نے پہلے ہی اشارہ دیا کہ ’’ ہمیں جو کرنا تھا کرچکے ،اب کورٹ کا کام ہے ‘‘ یعنی ہم نے مجرموں کو گرفتار کیا ، ان کے خلاف کیس دائر کیا، انکوائری کرائی اور بس بات ختم۔ اب ہم ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہیں ، اب ہمارا یہ کام نہیں کہ انصاف کسے ملتا ہے ، نا انصافی کس کے دامن سے لپٹتی ہے ۔ فی الحال ایوان ِ عدل کی کارکردگی یہ ہے کہ مسلمانوںسے متعلق تمام پچھلے بڑے بڑے جرائم جیسے بم دھماکے ، قتل ، مار دھاڈ کے مجرم عدالتوں سے فرد ِجرم عائد ہونے اور اقبالِ جرم کے باوجود دھڑا دھڑبری کئے جارہے ہیں ،اس لئے وقت کا پہیہ کچھ اور گھوم کر اگر کل کلاں کٹھوعہ عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو رہائی ملے تو حیرت واستعجاب میں نہ پڑئے گا کیونکہ یہاں آئین موجود ہے مگر آئین کا احترام کر نے والے ناپید ہیں ۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس، جسٹس کاٹجو کے ایک بیان کے مطابق یہاں پچاس پرسنٹ منصف پہلے ہی سے کرپٹ ہیں ،باقی پچاس پرسنٹ کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو جرم اور سزا کی دنیا میں سیاسی آشیر باد اور حکومتی ہدایات کے تحت صرف کاغذی گھوڑے دوڑانا اور سیاسی تگڈم بازیاں چلانا کوئی تہلکہ آمیز خبر نہیں ہے بلکہ اس کے اُلٹ کچھ اور ہو تو یہ ایک اہم خبر ہو گی ۔ یہ بات گرہ میں باندھئے کہ اس اہم خبر کو کم ا زکم مودی دور میں سننے کی تمنا کر نا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے ۔
9419514537