جموں// کٹھوعہ میں جنوری کے اوائل میں پیش آئے دل دہلانے والے آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم سپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) دیپک کھجوریہ کی رہائی کے حق میں ہیرا نگر کے سینکڑوں لوگوں بشمول خواتین نے گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک احتجاجی مارچ نکالا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں نکلنے والے اس احتجاجی مارچ کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں ترنگے اٹھا رکھے تھے اور ریاستی پولیس کے اہلکار احتجاجیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلتے ہوئے نظر آئے۔ یہ احتجاجی مارچ ہندو ایکتا منچ نامی تنظیم کے بینر تلے منظم کیا گیا تھا۔ملزم ایس پی او کے حق میں احتجاجی مارچ کی قیادت ایک بی جے پی لیڈر کررہا تھا۔ احتجاجیوں کا الزام تھا کہ پولیس ہیرا نگر میں مزید نوجوانوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ مطالبہ کررہے تھے کہ کیس کو کرائم برانچ کے بجائے سی بی آئی کے حوالے کردیا جائے۔ ان کا الزام تھا کہ کرائم برانچ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے دباؤ میں کام کررہا ہے۔ لوگوں کے ایک مبینہ ریپسٹ اور قاتل کے حق میں احتجاج اور احتجاج کے دوران قومی پرچم ساتھ رکھنے کے معاملے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔واضح رہے کہ جموں وکشمیر کرائم برانچ پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے 9 فروری کو گوجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کے قتل اور عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ۔ 28 سالہ ملزم ایس پی او پولیس تھانہ ہیرانگر میں تعینات تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دیپک کھجوریہ اُس پولیس ٹیم کا حصہ تھا جو آصفہ کے اغوا کے بعد اس کی تلاش کررہی تھی۔ ایک سینئر کشمیری صحافی نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ’شیم۔ ہندو ایکتا منچ نے ایک آٹھ سالہ بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں احتجاج کیا۔ احتجاجیوں نے بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں قومی پرچم اٹھا رکھے تھے اور پولیس کو انہیں اسکارٹ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ اس سے خوفناک واقعہ دوسرا کیا ہوسکتا ہے‘۔آدتیہ میمن نامی ایک صحافی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’ہندو ایکتا منچ نے دھمکی دی ہے کہ اگر آٹھ سالہ کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کے کلیدی ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کو رہا نہیں کیا گیا تو وہ ایجی ٹیشن شروع کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندو ایکتا منچ کے لئے ایک کمسن مسلم بچی کی عصمت ریزی اور قتل جرم نہیں ہے‘۔ تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔
احتجاج باعث حیرانگی،قومی پرچم کی توہین:محبوبہ
جموں //ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے عصمت دری اور قتل کے ملزم کے حق میں ہونے والے احتجاج میں قومی پرچم کی موجودگی پر اپنی حیرانگی ظاہر کی ہے اور اسے قومی پرچم کی توہین قرار دیا ہے۔ انہوں نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’کٹھوعہ عصمت ریزی اور قتل کیس میں گرفتار شخص کے دفاع میں احتجاج کے بارے میں سن کر حیرانگی اور مظاہرین کے ہاتھوں میں قومی پرچم دیکھ کر میں بہت خوفزدہ ہوئی۔ یہ قومی پرچم کی توہین ہے۔ ملوث شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کاروائی ہوگی‘۔
جلوس کی معیت کرنیوالے پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جائے:این سی
سرینگر //سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے سیاسی صلاح کار تنویر صادق نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ’ایک آٹھ سالہ بچی کو عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا۔ ٹھگوں کو روکنے کے بجائے احتجاج کرنے کی کھلی چھوٹ دی جارہی ہے‘۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں محبوبہ مفتی سے مخاطب ہوکر لکھا ’ اگر آپ واقعی ہی خوفزدہ ہیں تو سب سے پہلے آپ ان پولیس اہلکاروں کو معطل کردیجئے جو احتجاجیوں کو روکنے کے بجائے ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل رہے تھے۔ ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف پی ایس اے لگائے‘۔