اس حقیقت سے انکار کی قطعی گنجائش نہیں ہے کہ پور ے ملک سمیت جموںوکشمیر میںبھی کورونا معاملات میں کافی حد تک کمی آچکی ہے اور بادی النظر میں کورونا وائرس کافی حد تک قابو میں آچکا ہے ۔محکمہ صحت کی جانب سے روزانہ بنیادوںپر جاری کیاجانے والا کورونا بلیٹن بھی اطمینان بخش ہی ہے کیونکہ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ جہاں نئے کورونا کیسوں میں کمی آرہی ہے وہیں کووڈ اموات بھی بدستور کم ہوتی چلی جارہی ہیں۔دوسری جانب کووڈ ٹیکہ کاری کا عمل بھی جاری ہے اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو کووڈ ٹیکے لگائے جارہے ہیں ۔تحقیق سے اب ثابت ہوچکا ہے کہ کورونا ویکسین کووڈ سے 90فیصد ی تحفظ فراہم کرتا ہے ۔امریکہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی تحقیق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ جن لوگوںنے کووڈ ویکسین لگوائی ہے ،وہ کورونا کے نئے آنے والے زیادہ مہلک اور خطرناک اقسام سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور ان پر اس نسل کے نئے وائرس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑرہا ہے جبکہ جن لوگوں نے ابھی تک بھی کووڈ ویکسین کی خوراک نہیں لی ہے ،وہ ان نئے ویرینٹس کے نشانے پر ہیں اور فوری طور وہ ان سے متاثر ہی نہیں ہورہے ہیں بلکہ ان میں سنگین نوعیت کی علامات بھی پیدا ہوجاتی ہیں جو کئی معاملات میں موت پر بھی منتج ہوجاتی ہیں۔اس طرح کا تحقیقی عمل ہمار ے لئے بھی چشم کشا ہونا چاہئے کیونکہ جموںوکشمیر میں کووڈ ٹیکہ کاری ابھی بھی اُس رفتار سے نہیں چل پارہی ہے جس کی توقع کی جارہی ہے ۔آج بھی کورونا ویکسین کے حوالے سے بے تکے خدشات پالے جارہے ہیں اور بالکل بے بنیاد افواہیں پھیلا کرلوگوں کو اس ویکسین سے خوفزدہ کرنے کی کوششیںکی جارہی ہیں۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ احتیا ط کے بعد ویکسین ہی واحد دوا ہے جو ہمیں کورونا وائرس سے بچا سکتی ہے ۔مانا کہ فی الوقت کورونا معاملات میں کمی آچکی ہے اور کمی کا رجحان بدستور جاری ہے تاہم یہ کوئی مستقل عمل نہیںہے اور آنے والے ایام میں ہمیں کورونا کی ایک اور لہر کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ویسے بھی کورونا کی تیسری لہر کیلئے تیاریا ں زور و شور سے جاری ہیں اور ملک کے چند انتہائی معتبر ترین اداروں نے بھی سائنسی تحقیق اور تخمینوںکی بنیاد پر تیسری لہر کی پیش گوئی کی ہے اور ان پیش گوئیوں اور تخمینوںکے مطابق اکتوبر کے ماہ میں ممکنہ طور آنے والی یہ تیسری لہر پہلے دو لہروں سے زیادہ خطرناک ہوگی اور اس سے پہلے دو لہروں کے مقابلے میں نہ صرف زیادہ لوگ متاثر ہوسکتے ہیںجبکہ اموات کی شرح بھی زیادہ رہ سکتی ہے ۔خیر یہ سب ابھی پیش گوئیاں اور تخمینے ہیں جو سائنسی بنیادوںپر کی جارہی ہے ۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں تیسری لہر کا سامنا نہ کرناپڑے لیکن عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم تیسری لہر کیلئے تیار رہیں اور اس کیلئے سب سے بڑی تیاری یہی ہے کہ ہم سب کووڈویکسین کی خوراک لیں تاکہ تیسری لہر کے آتے آتے ہم نے اپنی حفاظت کا بندو بست کررکھا ہو۔ایسا نہ ہو کہ ہم اس وقت ویکسین سے دور بھاگیں اور پھر جب تیسری لہر آئے تو ہم بے سرو سامانی کی حالت میں ہوں اور ہم اس کا شکار ہوجائیں۔ اسی لئے ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اولین فرصت میں کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لیں اور اپنے ساتھ اپنے سبھی اہل خانہ کو بھی یہ ٹیکے لگوائیں تاکہ پوری کمیونٹی میں صد فیصد کووڈ ٹیکہ کاری کا ہدف یقینی بنایا جاسکے ۔یہاں سرکار پر بھی یہ ذمہ اری عائد ہوتی ہے کہ وہ جہاں 18سال سے اوپر کی عمر کے سبھی لوگوں کیلئے ویکسین کا بندو بست کرے وہیں اٹھارہ برس سے نیچے ہمار ی نوخیز پود کی حفاظت کا بھی بندو بست کیاجائے ۔ظاہر ہے کہ ہم اپنی اس وسیع آبادی کو تحفظ کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے ہیں اور ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ یہ ویکسین آبادی کے اس حصہ تک بھی پہنچے کیونکہ اس میں بچوں اور کم سن لڑکوںکی کثرت ہے جو ہمارا کل ہیں اور اس سماج کا مستقبل اسی پود سے وابستہ ہے ۔انہیں ویکسین کے بغیر چھوڑ کر ہم اس آبادی کو خطرے سے دوچار کررہے ہیں اور پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جہاں ہم نوجوانوں اور بزرگوںکی ٹیکہ کاری یقینی بنارہے ہیںوہیں ہم کمسن لڑکوں اور ان بچوں کی ٹیکہ کاری بھی یقینی بنائیں تاکہ پوری آبادی کی ٹیکہ کاری کا حقیقی ہدف حاصل کیاجاسکے جس کے بعد ہمیں کورونا سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی اور ہم اپنے معمولات حسب سابق جاری رکھ سکتے ہیں۔اُس وقت تک ہمیں چاہئے کہ ہم احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور اپنے معمولات کی ادائیگی کے دوران تمام احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا رہیں کیونکہ یہ نظر نہ آنے والا دشمن کبھی بھی ہم پر غالب آسکتا ہے اور ہمیں خبر تک نہ ہوگی ۔اسی لئے بہتر ہے کہ پوری آبادی کی صد فیصد ٹیکہ کاری تک کورونا مناسب برتائو کے ساتھ ہی زندگی گزاریں اور کورونا کے ساتھ ہی جئیں تاکہ ہم اور ہمارے اہل خانہ محفوظ رہ سکیں جو پھر پورے سماج اور قوم کی حفاظت پر منتج ہوسکتا ہے۔