کویت پر صدام حسین کے غاصبانہ قبضے اور اس وقت مملکت کے ولی عہد شہزادہ نایف بن عبدالعزیز کے اس بیان کے بعد اخوان کی حیثیت کمزور پڑ گئی جس میں انہوں نے کویت پر صدام کے قبضے کے بعد سعودی عرب سے غداری کی تھی۔ رفتہ رفتہ الاخوان کا اثر ونفوذ ماند پڑتا چلا گیا۔ ۔ جب تک ماضی میں بیداری سے متاثر لوگوں کے ذہن ٹھیک نہیں کئے جائیں گے تب تک بات نہیں بنے گی۔یہیں سے سعودی عرب میں ایک سوچ ابھرتی رہی ہے کہ اس کے اورنام نہاد مہذب دنیا یورپ کے درمیان ایک بڑی ثقافتی خلیج حائل ہے جس کو پاٹنا لازمی امر بن چکاہے۔اسی سوچ کے حاملین 2017میں ایک ایساسعودی عرب دیکھناچاہتے ہیں کہ جو 1979 کے مابعدسے یکسرمختلف ہواورسب کے لئے قابل قبول ہو۔یعنی یہودونصاریٰ جس پرخوش ہوں۔اس مقصد کے لیے بڑے اور دور رس نتائج کے حامل فیصلے کیے جارہے ہیں۔جس کاآغازتعلیمی اصلاحات کے نام پرمخلوط تعلیم اورپھرسعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت سے کیاگیا۔فنون کے نام پرایسے اجنبی اور درانداز پہلوئوں درنہ آنے کے لئے’’ نیوم اقتصادی زون‘‘ ، بحیرہ احمر کا سیاحتی منصوبہ اور ایسے ہی دوسرے اقدامات نمایاں ہیںکہ جومتحدہ عرب امارات کی طرح سعودی معاشرے کی بے کنی نہ کرڈالے۔اب سعودی عرب کی سرزمین کو دبئی کی طرح زندگی کو بوقلمونی رنگوںسے چکا چوند بنانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اخوان المسلمون کی جائزاورمنتخبہ حکومت کاخاتمہ اوراس صدسالہ تحریک کوپورے عربستان میں دہشت گردتنظیم کہہ کرکالعدم قراردینااسی منصوبے کی کڑی ہے ۔ 1979 مابعدطیب اورپاکیزہ روح کوموت اوراسکی جگہ 2017 میںایک ایسی بدروح پھونکی جارہی ہے کہ جسے سوائے ابلیس اوراس کے چیلے چانٹوں کے سواکسی کومسرت نہیں ہوسکتی۔
دو تہائی سعودیوں کی عمر 30 برس ہے یا اس سے کم۔شاہ عبداللہ کے تعلیمی وظائف کے پروگرام کے تحت لاکھوں نوجوان سعودی مغربی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر ملک واپس لوٹ رہے ہیں۔ایک طرف تو وہ نوکریوں کی تلاش میں ہیں، دوسری طرف انھیں ایک ایسے معاشرے کا سامنا ہے جہاں سینماں پر پابندی ہے اور ریستورانوں میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ حصے ہیں۔تاہم تبدیلی کی سمت میں قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔اب گلیوں میں ’’مطوع‘‘ نامی مذہبی پولیس نظر نہیں آتی جن کا مشن’’برائی کو روکنا اور نیکی کو فروغ دیناتھا‘‘ امربالمعروف پولیس کے خاتمے کا سہربھی ا ولی عہدمحمدبن سلمان کے سرہے۔ریاض شہر میں کچھ ایسے ریستوران کھل گئے ہیں جہاں زنانہ مردانہ شعبوں کا زیادہ سختی سے خیال نہیں رکھا جاتا اور وہاں تیز موسیقی بجتی رہتی ہے۔’’عمومی تفریحی محکمہ‘‘ نامی ایک اور محکمہ یہاں سرگرمِ عمل ہے۔ لیکن اپنے نام کے باوجود اس محکمے کی کوشش ہے سعودی چند حدود کے اندر زندگیوں سے لطف اندوز ہوں۔محکمے کے چیئرمین احمد الخطیب کہتے ہیںکہ میرا مشن لوگوں کو خوش و خرم دیکھنا ہے۔انھوں نے رواں سال 80 کے قریب میلے، آتش بازی کے ایونٹ، موسیقی کے شو اور دوسرے مواقع ڈھونڈے ہیں جہاں لوگوں کو تفریح فراہم کی جا سکتی ہے۔
بہت سے سعودی نوجوان مغربی اداروں میں پڑھ کر لوٹے ہیں۔ایک سعودی ٹور آپریٹر گلہ کرتے ہیں کہ’’سعودی ہر سال 70 ارب ریال باہر کے ملکوں میں چھٹیاں منا کر خرچ کر ڈالتے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ وہ سعودی عرب میں بھی دبئی یا لندن کی طرح سہولتیں فراہم کریں تاکہ لوگ باہر نہ جائیں‘‘۔اسی پس منظرمیںکہ سعودی عرب کے ایک علاقے کودبئی کی طرح حرام امورکااڈہ بنادیاجائے ،25اکتوبر 2017بدھ کوسعودی عرب نے پانچ سو ارب ڈالر کی لاگت سے ایک نیا شہر اور کاروباری زون تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے این ای او ایم یا’’نیوم ‘‘نامی منصوبے کے بارے میں بتایا کہ ملک کے شمال مغربی علاقے میں 26 ہزار پانچ سو مربع کلومیٹر پر محیط ہو گا۔اس منصوبے کا اعلان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ بین الاقوامی بزنس کانفرنس میں کیا گیا۔منصوبے کو مصر اور اردن تک توسیع دینے کا اعلان بھی کیا گیا تاہم دونوں ممالک کی جانب سے تاحال اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
اربوں ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے اس منصوبے میں نو شعبوں پر توجہ دی جائے گی جس میں خوراک، ٹیکنالوجی، توانائی اور پانی شامل ہے۔یہ منصوبہ ولی عہد محمد بن سلمان کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت ملک کا انحصار تیل سے حاصل ہونے والی آمدن پر کم کرنا ہے۔اس سے پہلے اگست میں سعو دی عرب نے سیاحوں کے لیے ایک بڑے پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجے میں بحرِ احمر کے ساتھ موجود 50 جزیرے لگژری سیرگاہوں میں بدل جائیں گے اور اس منصوبے سے امید کی جا رہی ہے کہ اس سے غیر ملکی سیاح اور مقامی افراد کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی معیشت کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ’’نیوم‘‘منصوبے کو ریاست کے علاوہ، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی طرف سے سرمایہ فراہم کیا جائے گا۔کہاجارہاہے کہ اس منصوبے سے سال دو ہزار تیس تک سعودی معیشت میں ایک سو ارب ڈالر تک حصہ ہو گا اور یہ بحرِ احمر کے ساحل اور عقابہ خلیج پر ایک پرکشش منزل ہو گا جو ایشیا، افریقہ اور یورپ سے جوڑے گا۔سعودی حکومت کی کوشش ہے کہ ملک کو اقتصادی طور پر تیل پر انحصار کم کرنا پڑے۔اس ضمن میں شہزادہ سلمان نے اس کانفرنس میں ایک اقتصادی میگا سٹی کا اعلان بھی کیا ہے جو کہ مصر اور اردن کے سرحدی علاقے میں 500 بلین ڈالر کی مدد سے تعمیر کی جائے گی۔
سوفٹ بنک کے سربراہ ماسیوشی سن دنیا کے امیر ترین شخص ہی نہیں، بلکہ جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے لیڈر بھی ہیں۔ ان کا بنک جدید ایجادات میں سرمایہ کاری کے لیے عالمی فنڈز کا انتظام کرتا ہے۔انھوں نے چند روز قبل سعودی دارالحکومت الریاض میں منعقدہ مستقبل سرمایہ کاری اقدام کانفرنس میں شرکت کی اور ایک پینل میں گفتگو کے دوران ہمارے ملک کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے نیوم منصوبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے زرخیز سرزمین، شاندار ساحلِ سمندر اور خوب صورت پہاڑوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس اللہ کا عطا کردہ ایک خوب صورت تحفہ ہے اور وہ سورج ہے۔جب ان سے نیوم منصوبے کی کامیابی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہاجی ہاں ہم شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا لیں گے۔ وہ ایک تیز فہم نوجوان ہیں۔ وہ مستقبل کا ایک خوش نما ویژن رکھتے ہیں۔ ہم فنڈز اور سرمایہ کاری کے بھاری حجم سے کامیاب ہو جائیں گے۔
ان کے ان کلمات کے جواب میں ولی عہد نے کہا: میں دو کروڑ شہریوں میں سے ایک ہوں۔ ان کے بغیر میری کچھ حیثیت نہیں ہے۔ انھوں نے مجھے تحریک دی اور مجھے آگے کیا ہے۔ سعودی عرب کی 70 فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اگر نوجوان اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کام کریں تو وہ ایک مختلف ملک کی تخلیق کر سکتے ہیں اور ہم دنیا میں ایک مضبوط ترین ملک بن جائیں گے۔ اگر وہ غلط راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو ہم ناکام ہو جائیں گے۔ مجھے یہ یقین ہے کہ نوجوان پیشہ ورانہ صلاحیت اور اعلی ذہانت کے حامل ہیں اور وہ اپنے ملک سعودی عرب کے لیے ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ہم دنیا کے مستقبل میں سعودی عرب کے لیے ایک محفوظ مقام حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ماسیوشی سن جس جوش وجذبے کا اظہار کر رہے تھے، وہ ان سب حاضرین کی آنکھوں میں بھی نظر آ رہا تھا، جب وہ نیوم اور اس کی کامیابی کے بارے میں انھیں گفتگو کرتے ہوئے سن رہے تھے اور یہ سب نوجوان قیادت کے جوش وجذبے اور لگن کا مرہونِ منت ہے۔ اب ایک بار پھر ہم شہزادہ محمد بن سلمان کی نیوم اور اس کو شروع کرنے کے بارے میں منطق سے متعلق الفاظ کو نقل کرتے ہیں۔
آج ہمارے پاس شاندار مواقع موجود ہیں۔ سعودی عرب سے باہر بھی ایک مانگ موجود ہے اور اس کی مالیت ایک سو ارب ڈالرز ہے۔ اس کے علاوہ پانچ سو ارب ڈالرز کی غیر معمولی سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ ہم تین براعظموں کے سنگم پر واقع ہیں اور فضائی اور بحری ٹرانسپورٹ روٹس کے اہم اور خصوصی محل وقوع کے حامل ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ دنیا کی 10 فی صد تجارت بحیرہ احمر کے ذریعے ہوتی ہے۔ ہمارا ایک شاندار فطری ماحول ہے، پہاڑ اور وادیاں، ساحل سمندر اور جزیرے ہیں۔ موسم سرما میں پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں۔ موسم گرما میں درجہ حرارت معتدل ہوتا ہے اور یہ دوسرے خلیجی شہروں اور دارالحکومتوں سے 10 ڈگری کم ہی ہوتا ہے۔ ہم مضبوط سیاسی عزم اور پختہ عوامی عزم وہمت کے مالک ہیں۔ سعودی عرب میں کامیابی کے تمام عوامل کچھ عظیم تر کام کرنے کے لیے موجود ہیں۔ان تمام مواقع، عناصر اور قریب قریب تمام سرزمین کے خالی ہوتے ہوئے ہم نے یہ سوچنا شروع کیا تھا کہ ہم ایک شہر کو روایتی انداز میں کیسے بسا سکتے ہیں؟ ہمارے پاس ایک ایسی نئی نسل کو بنانے کا موقع موجود ہے جس کو نئے طرز ِزندگی، شہروں، ٹیکنالوجیز، صحتِ عامہ اور خدمات دستیاب ہوں۔
جو شخص کوئی تمنا نہیں رکھتا، کسی قسم کی آرزو سے محروم ہے تو وہ کوئی منفرد کام نہیں کر سکتا اور جو کوئی کنویں کا مینڈک بننے پر ہی اصرار کرتا ہے اور اس سے باہر کی سوچ نہیں رکھتا ہے، وہ روایت پسندی اور کلاسیکیت سے ہی خود کو جڑا رکھے گا۔ وہ روایت پسندی کے مسائل سے راہ فرار اختیار نہیں کرے گا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ صرف تمنا اور خواہش ہی کامیابی کا عامل نہیں بن سکتی ہے بلکہ سنجیدہ خواب دیکھنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو حقیقت اور فرد کی زندگی کو تبدیل کردیتے ہیں۔ تبدیلی کے مقصد کے لیے ہم اپنے آیندہ تیس سال کو انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے نہیں گزار دیں گے یا محدود تر اور چھوٹے چھوٹے معاملات ہی میں الجھ کر نہیں رہ جائیں گے۔ ہماری شناخت اور دین نے کبھی ہمیں اچھا بننے سے نہیں روکا ہے۔ ہم انتہا پسندی اور مایوسیاں پھیلانے والے عناصر کی منفی سرگرمیوں کے باوجود بہتر بننے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ مجھ سے ان سماجی برائیوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک مایوس شخص اور ایک انتہا پسند، دونوں ہی اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔
5 اکتوبر 2017بدھ کو سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ملنے کے بعد روشن خیالی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے سرکاری ٹی وی نے میوزک کنسرٹ نشر کیا ۔مشرق وسطی میں ماضی کی معروف گلوکارہ امِ کلثوم جسے لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔سعودی عرب کے کلچر اور آرٹ کے چینل الثقافیہ پر کئی دہائیوں کے بعد معروف عرب گلوکارہ ام کلثوم کا کنسرٹ نشر کیا گیا۔یہ تحفہ سعودی عرب کے کلچر اور آرٹ کے چینل الثقافیہ پر کئی دہائیوں کے بعد معروف عرب گلوکارہ ام کلثوم کا کنسرٹ نشر کیا ۔سعودی عرب کے ولیِ عہد محمد بن سلمان نے ملک میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ ان کے ویژن 2030 منصوبے کے تحت خواتین کو معاشرے میں اہم کردار دیے جانے کا امکان ہے۔کنسرٹ نشر کرنے کے بارے میں ٹی وی چینل الثقافیہ کی ٹویٹ کو سو مرتبہ دوبارہ ٹویٹ کیا اور یہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ امِ کلثوم کی سعودی چینل پر واپسی کے ہیش ٹیگ سے 54 ہزار ٹویٹس ہوئیں۔سعودی عرب میں مصری گلوکارہ کے مداحوں نے اس فیصلے پر خوب جشن منایا اور سوشل میڈیا پر ان کے مقبول گانے اور کنسرٹ کی تصاویر شیئر کیں۔لیکن دوسری جانب بعض افراد نے وہ قرانی آیات شیئر کی جن میں آخرت کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ دین میں موسیقی سننا گناہ کا باعث ہے اور اس سے توجہ عبادت کے بجائے دوسرے جانب مبذول ہوتی ہے۔اس تبدیلی کے حمایتی اور مخالفین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اس نام نہاد ’’آگہی‘‘ بیدار کرنے والی اسلامی فورسز کا خاتمہ ہے۔ جس کا گذشتہ چند دہائیوں سے ملک پر اپنا اثر و رسوخ ہے۔ ( ختم شد)
�������