سرینگر //کولگام شہری ہلاکتوں پر نیشنل کانفرنس کی راج بھون کوشش ناکام بناتے ہوئے پولیس نے متعدد لیڈران اور کارکنان کی علامتی گرفتاری عمل میں لائی ۔منگل کو پارٹی جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر کی قیاد ت میں نوائے صبح سے راج بھون تک ایک ریلی نکالنے کی کوشش کی گئی۔ ریلی میں پارٹی لیڈران اور کارکنان نے نعرہ بازی کرتے ہوئے ہلاکتوں میں ملوث افراد کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔این سی لیڈران نے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے ،جن پر مختلف اقسام کے نعرے درج تھے ۔اس دوران’ کولگام کے قاتلوں کو پیش کرو ‘ سرکاری دہشت گردی نہیں چلے گی ،‘ ’بی جے پی ہائے ہائے‘،آر ایس ایس ہائے ہائے‘‘،معصوموں کا قتل عام بند کرو کے فلک شکاف نعرے بھی بلند کئے گئے۔ ریلی کے شرکاء جب ریڈیو کشمیر سرینگر کے نزدیک پہنچی تو وہاں پہلے سے موجودپولیس کی بھاری نفری نے انہیں آگے جانے سے روکا ۔پولیس نے احتجاج کر رہے مبارک گل، شریف الدین شارق، سلمان ساگر، غلام نبی بٹ، ایڈوکیٹ جہانگیر یعقوب، جاوید رحیم بٹ اور خالد راٹھور کے علاوہ کئی دیگران کو حراست میں لیا۔نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے علی محمد ساگر نے کہا کہ مرکز نے کشمیر کے متعلق جو ہٹ دھرمی کی پالیسی اپنائی ہے اس کے نتائج ٹھیک نہیں ہیں اور اس سے حالات بد سے بتر ہو رہے ہیں۔انہوں نے مرکز پر زور دیا کہ وہ اپنی اس پالیسی کو ترک کر کے بات چیت کے ذریعے ریاست کے تمام متعلقین سے بات چیت شروع کرے تاکہ حالات میں بہتری آسکے ۔ساگرنے کہاکہ کشمیری نوجوانوں کی زندگیوں سے ایک منصوبہ بندسازش کے تحت کھلواڑکی جارہی ہے اور انسانی زندگیوں سے کھلواڑکے مرتکب فورسزاہلکاروں کی کوئی جوابدہی نہیں ہورہی ہے، بلکہ ایسے المناک واقعات پرپردہ ڈالنے کیلئے جھوٹ کاسہارالیاجاتاہے۔ ساگر نے کہا کہ مودی سرکار کی سخت گیری پالیسی سے جموں وکشمیر کی حالت بدتر ہوتی جارہی ہے اور غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے نہ صرف یہاں سیاسی انتشار اور خلفشار پیدا ہوگیا ہے بلکہ سیکورٹی کی بدترین صورتحال کے ساتھ ساتھ لوگ اقتصادی بدحالی کے بھی شکار ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ خونین واقعات کا پیش آنا روز کا معمول بن گیا ہے، پُرامن شہریوں کو سرعام قتل کیا جارہا ہے یہاں تک کہ خواتین کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے۔ ساگر نے کہا کہ شادی مرگ پلوامہ میں 6ماہ سے حاملہ خاتون کو اپنے گھر کے صحن میں ابدی نیند سلا دیا گیا،ابھی وہ زخم تازہ ہی تھا کہ کولگام میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ انہوں نے کہا کہ کاش وزیر داخلہ دو روز قبل یہاں آئے ہوتے اور کولگام میں قیامت صغریٰ کا خود مشاہدہ کیا ہوتا کہ کس طرح سے چیخ و پکار ، آہوں اور سسکیوں سے پوری وادی ماتم کدہ بن کر رہ گئی ۔ کولگام سانحہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ساگر نے کہا کہ اُن اہلکاروں کی نشاندہی کی جانی چاہئے جن کی غفلت شعاری کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ اس تحقیقات کیلئے وقت کا تعین کیا جایا اور ماضی کی طرح تحقیقات کو وقت گزرنے کے ساتھ ہی بھول جانے کی پالیسی کو ترک کیا جائے۔ احتجاجی جلوس میں ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال، ناصر اسلم وانی، سکینہ ایتو، مبارک گل، محمد اکبر لون، شریف الدین شارق، ڈاکٹر بشیر احمد ویری، میر سیف اللہ، ایڈوکیٹ عبدالمجید لارمی، الطاف احمد کلو، ایم ایل سی آغا محمود، ایم ایل سی علی محمد ڈار، شوکت حسین گنائی، یوتھ ونگ کے مردوزن کارکنان اور لیگل سیل کے اراکین نے شرکت کی۔