۔ 21؍اکتوبر کا دن کشمیر کی تاریخ میںایک اور سیاہ دن کااضافہ کر گیا۔ ا س روز کولگام میں موت کا فرشتہ واقعی بے لگام ہوا، نتیجہ یہ کہ یہاں پرجھڑپ میں پہلے کئی عسکری نوجوان جاں بحق ہوئے اور پھر جھڑپ کے فوراً بعد موقعٔ واردات پربے شمار کشمیری نوجوان باردوی سرنگ بلاسٹ کی نذر ہوگئے ۔ یہ سطور قلم بند کر نے تک بم بلاسٹ کی زد میں آنے و الے سات سوئلین لاشیں دفن کی گئی تھیں اورفی الحال یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ موت کے اس تانڈو ناچ میں اور کتنی جانیں تلف ہونا باقی ہیں کیونکہ بہت سارے شدید زخمی ابھی تک شفاخانوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کولگام کے اس غم ناک المیے پر ارض ِ وطن کے اطراف وجو انب میں لوگ دُکھی ہیں ، رنج وغم کی شدت سے پورا وطن سوگوار ہے ، متاثرہ کنبے دُکھ اور افسوس کے عالم میں سینہ کو بیاںکرر ہے ہیں ،ماتم منارہے ہیں، آنسوبہارہے ہیں، آہیں بھر رہے ہیں مگر ہے کون جو ان کی شنوائی کرے ؟ فتح کدل سری نگر میں دوعسکریت پسندوںا ور ایک سوئلین نوجوان رئیس احمد کے جان بحق ہو نے سے اہل کشمیر پہلے ہی غم سے نڈھال ہوکر تعزیتی ہڑتال پر رہے کہ کولگام کا المیہ پیش آیا ۔22 ؍ اکتوبر کو اس پر ایک اور تعزیتی ہڑتال نے زندگی کی نبضیں روک دیں ۔ لوگ مایوسی اور دل شکنی کا اظہار کرکے یہی سوالات ایک ودسرے سے کر تے ہیں کہ آخر ماردھاڑ کایہ طویل سلسلہ رُکتا کیوں نہیں؟ کیوں ایک مسلّمہ سیاسی مسئلے کا کوئی متفقہ حل نکالنے سے حکومت ِہند کنی کتراتی ہے؟ کیوں کشمیر کو افسپا کی بھینٹ چڑھانے میں تمام مر کزی حکومتوں کو مزا آتا ہے ؟ کہاں ہے زخموں کا مرہم ؟ کدھر ہے باعزت امن ؟ کہاں ہے گولی نہیں بولی ؟کیا گورنر ستیہ پال ملک کا یہ فرمان کہ ملی ٹینٹ نہیں ملی ٹینسی کا خاتمہ ہوگا، بیان برائے بیان ہے ؟ کیوں پولیس اورسی آر پی والےsop پر عمل درآمد کر نا ا پنی کسر شان سمجھتے ہیں ؟ کیا مسئلہ کشمیر کا حل یہی ہے کہ قتل عام جاری رکھا جائے ؟ کیوں اس دیرینہ قضیہ کے سیاسی حل کی بابت نعرہ زنی کرنے والے قابل ِ گردن زدنی قراردئے جاتے ہیں؟ کیا کشمیر میں قتل وغارت کے روز مرہ واقعات سنگھ پریوار کا منظم ا یجنڈا ہے ؟ کشمیری قوم نے گزشتہ اٹھائیس سال سے مختلف الاطراف بندوقوں کے سائے میں بہت دُکھ سہے ہیں اور آج یہاں کسی کی جان ومال کے حفاظت کی ضمانت ہے اور نہ کسی پہلو چین نصیب ہے ۔ اگر یہ بدحالی سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ووٹ بنک سیاست کا کرشمہ نہیں تو براہ ِ کرم مسئلے کو طول دینے کے بجائے ا س کا کوئی پُر امن حل ڈھونڈکر کشمیر یوں کو جینے کا حق دیجئے ۔ کیا کوئی ضمیر کی یہ آواز سننے کو تیار ہے ؟