دنیا میں جتنے بھی شعراء آئے اپنے اپنے فن ، اسلوب زبان اور بیان میں ماہر تھے ۔ جہاں تک اقبال کے کلام کا تعلق ہے ۔ ان کی شاعری میں اورعالم ادب میں ان کا ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔ اقبال اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کے بھی بڑے شاعر تصور کئے جاتے ہیں ۔ ان کے افکار و نظریات اور خیالات کی وسعت وبلندی کی تفسیر وتوضیح میں اب تک ہزاروں کتابیں اور مقالات معرض وجود میں آچکے ہیں ۔ہزاروں ریسرچ اسکالر وں نے اقبال کو دل کی گہرائیوں سے یاد کرکے ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کے افکارکے مختلف جہات پرروشنی ڈالی ہے ۔مقالات ومضامین تحریر کئے گئے۔ ڈاکٹر ظ ۔ انصاری لکھتے ہیں : ’’ کتب ومقالات کا اتنا بڑا سرمایہ جتنا اقبال کے بارے میں شائع ہو چکا ہے ، برصغیر کے کسی دوسرے شاعر و فنکار کے حصے میں نہیں آیا ۔‘‘لیکن جہاں تک تحقیق و تنقید کا سوال ہے اقبال کے کلام ، ان کے نظریات اور ان کی فنی مہارت کے تئیں ابھی بہت سارے گوشوں پر کام کرنا یا تحقیق کرنا تشنئہ طلب ہے ۔ تشکیل جدید اسلامیہ کی بات ہو ، مسلمانوں کی زبوں حالی کی بات ہو ، سرمایہ داری اور اشتراکیت کی بات ہو ، مسلمانوں کی مایوسی اور بے بسی کی بات ہو یا دورِ حاضر کے انسان کی مختلف دلی امراض میں مبتلا ہونے کی بات ہو۔ غرض ہر طرح انسان ایک نہ ختم ہونے والے بھنور میں بُری طرح پھنس چکا ہے ۔ اقبال نے اپنے کلام کے فنی محاسن کے ذریعے کافی سمجھایا لیکن یہ آدم ٹس سے مس نہیں ہوتا ۔ کلام اقبال میں الفاظ کی نغمگی ، فنکاری و صناعی اور اسلوب کی جمالیات جابجا ملتی ہے۔ ان کے کلام میں جاذبیت اور تاثیر ہی کی بدولت انسان اور خوش لحن والے اس کے کلام کو موسیقی کارنگ دیتے نظر آتے ہیں ۔ ان کے کلام میں جادوبیانی اور الفاظ ومعنی کی جدت وندرت اور عمدگی کے سبب یہ فنی دنیا میں کافی مشہور ہیں ۔ حالانکہ اقبال نے اپنے آپ کو کبھی شاعر نہیں کہا ۔ انکے کلام کا یہ فنی تبرک میں سے ایک اعلیٰ شعر ہے ۔ ملاحظہ کیجئے؎
رنگ ہو یا خشت وسنگ ، چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
اقبال کے استاد داغ ؔدہلوی کافی خوش تھے کہ اقبال جیسا شاگر د ان کے پاس تھا ۔ اقبال شاعر کے ابتدائی دور میں استاد داغ ؔ دہلوی سے مشورئہ سخن کیا کرتے تھے۔ خط و کتابت اور شاعری وغیرہ کے حوالے سے داغؔ نے اقبال سے کہا کہ اب آپ کو مزید اصلاح ومشورہ کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔جس کے لئے بعد میں اقبال نے بھی اس رشتئہ تلمذ کا حسین انداز میں اظہار کرکے ـ’’ مجھے بھی فخر ہے شاگردئی داغِ سخنداں کا۔‘‘فرمایا۔اقبال نے داغ کے ہی رنگ میں غزلیں کہی ہیں ۔ اس کے علاوہ اقبال نے اس فن کو شیخ سعدی شیرازیؒ اور حافظ شیرازی ؒ سے بھی حاصل کیاتھا۔ اقبال جب لندن میں بحیثیت طالب علم تھے ۔تو اس دوران انہوں نے عطیہ فیضی اور مسز سروجنی نائڈو کی موجودگی میں کہاتھا کہ’’ میں حافظ کا حافظ ہوں اور کبھی ایسا لگتا ہے جیسے حاٖفظ کی روح میرے اندر سرایت کرگئی ہے ۔ ‘‘ اقبال نے ابتدا ء میں اپنے فن کی آبیاری میں بھرپور طریقے سے کئی اساتذہ کے کلام جن میں مرزاغالب، شیخ سعدی ، حافظ شیرازی، مولاناحالی و اکبرالہٰ آبادی، مولانا غلام قادر گرامی اور داغ دہلوی کے اسماء سرفہرست ہے سے استفادہ کیا۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان کے حوالے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ جن شعراء کے کلام نے ابتداء میں اقبال کی شاعری کو پروان چڑھانے میں مدد دی وہ سب زبان وبیان کے ماہر وامام تصور کئے جاتے ہیں ۔ کلام اقبال کے ساحرانہ اعجاز کو پیش نظر رکھتے ہوئے بانگ درا کی ابتدائی نظموں سے لے کر ارمغان حجاز کے حسین اور پُر شوق قطعات تک ہر جا نظر آتا ہے ۔ اقبال کے شعری خصائص اور فنی مہارت سے بڑے بڑے شعراء چونک گئے اور رشک کرنے لگے۔اقبال کی زبان سے مشکل الفاظ اور اصطلاحات کو سمجھنے کے لئے انہوں نے ایسا طرز اختیار کیا ہے کہ انکا کلام آسانی سے سمجھ آسکتا ہے ۔ انہوں نے ایسا آہنگ اختیار کیا ہے کہ بات کھل کر سامنے واضح ہوجاتی ہے ۔ علی سردار جعفری نے ایک جگہ فرمایا : ’’ بعض مقامات پر اقبال نے کھل کر صاف صاف (نظریاتی) باتیں کہی ہیں اور وہاں شعر کو صرف ان کا بلند آہنگ سنبھالتا ہے۔‘‘
اقبال اپنے شاعر ہونے کا شدت سے انکار کرتے رہے ۔ لیکن تغزل اور زبان وبیان کے سبھی شعرا ء اور نقاد ان کی فنکارانہ دسترس اور عظمت کا بھرپور اعتراف کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری ان کا مقصد یا کوئی منزل نہیں تھی بلکہ ان کی یہ شاعر ی پیغام پہنچانے کاایک ذریعہ تھی ۔ان کی شاعری پاک اور منزہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم شاعر کی شاعری واقعی دل کو چھوتی ہے ۔ لفظی تراش خراش اور ان کی ترتیب و تزئین کامظاہرہ اقبال کے کلام میں جابجا ہوتاہے ۔ مثال کے طور پر کشمیر کے پسِ منظر میں ـ ’ پیام مشرق ‘ کی ایک نظم کا یہ شعر دیکھئے ؎
بادِ بہار موج موج ، مرغ بہار فوج فوج
صلصل وساز زوج زوج برسرِ نارون نگر
اس کے علاوہ زبان وبیان کایہ حسین اسلوب دیکھئے کہ کس طرح لفظوں کی ترکیب و ترتیب اور تزئین کا بخوبی استعمال کیا گیا ہے ۔ اور اس میں اقبال نے شام کا نقشہ اپنی ایک نظم ـ’’ بزمِ انجم ‘‘ میں دلپذیر انداز میں کھینچا ہے ؎
سورج نے جاتے جاتے شام ِ سیہ قبا کو
طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور
قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی
چمکے عروسِ شب کے موتی وہ پیارے پیارے
وہ دور رہنے والے ہنگامئہ جہاں سے
کہتا ہے جن کو انسا ں اپنی زباں میں تارے
حسنِ ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں
جس طرح عکسِ گل ہو شبنم کی آرسی میں
اقبال کے کلام میں فنی لطافت اور نغمگی کا حال یہ ہے کہ کئی مریض اس کے کلام کو پڑھ اور گنگنا کر کر باغ باغ ہوجاتے ہیں۔ مشرق سے لے کر مغرب بلکہ پورے عالم میں اقبال کے کلام کو پذیرائی حاصل ہے ۔پھر بھی چند گنے چنے لوگ اقبال کی شاعری کو محض حسد کی بنیاد پر اہمیت نہیں دیتے ۔ لیکن اقبال تو اقبال ہی تھے۔ مشہور ماہر اقبالیات ، پروفیسر عبدالمغنی حلقئہ ادبِ اسلامی ، دوحہ قطر کی فکرِ اقبال پر منعقدہ تقریب میں شرکت کے لئے گئے تھے اور وہاں انہوں نے جلسہ میں یہ اعلان کیا کہ’’ اقبال دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ وہ شیکسپیئر ، دانتے اور گوئٹے وغیرہ سے بڑے شاعر ہیں ۔‘‘
علامہ اقبال کے کلام میں عربی الفاظ اور قرآنی اصطلاحات بھی کافی جگہوں پر مستعمل ہیں ۔ کلام اقبال میں الہامی اور نیم الہامی کیفیت مولانا رومیؔ کے کلام کے کسب فیض سے نمودار ہوئی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی مرحوم نے لکھا ہے کہ :’’ کہیں کہیں اقبال خود اپنے آپ کو بہت پیچھے چھوڈ دیتے ہیں اور یہ وہ مقامات ہیں جہاں سوال پید اہونے لگتا ہے ۔ کہ اگر یہ الہام ہے تو شاعری کیا ہے ؟ اور اگر شاعری ہے تو الہام کیا ہے۔؟
اقبال کی سب سے زیادہ معنی خیز اور معرکہ آرا نظمیں اردو میں خضرِ راہ، طلوعِ اسلام ، ساقی نامہ ، ذوق وشوق اور مسجدِ قرطبہ ہیں اور فارسی میں جو کلام الہامی ونیم الہامی کیفیت پیدا کئے ہوئے ہیں وہ پیام ِ مشرق، جاوید نامہ ، زبورِ عجم، اور ارمغان حجاز میں ہے۔ پیام مشرق کی وہ نظم جس میں انسان خدا سے مخاطب ہوکر کہتاہے یہاں مثال کے طو ر پر پیش کی جاتی ہے ؎
سفال آفریدی ، ایاغ آفریدم
تو شب آفریدی ، چراغ آفریدم
بیابان و کہسار ورا غ آفریدی
خیابان و گلزار وباغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نو شینہ سازم
اقبال کے شعری اسلوب میں فنکارانہ دسترس اور فنی و صنعتی کمالات مخفی جلوہ گر ہیں ۔ اقبال کا چاہے اردو کلام ہو یا فارسی کلام دونوں میں الہامی اوروجدانی کیفیت کی معلومات فراہم ہوتی ہے ۔ تیس اکتیس برس کی عمر میں اقبا ل جرمنی میں تھے ۔ وہاں دریائے نیکر ( ہائیڈل برگ )کے کنارے لکھی گئی ایک نظم بعنوان ’’ ایک شام‘‘ نہایت ہی خوبصورتی سے اقبال کی زبان سے ملاحظہ فرمائے ؎
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
فطرت بے ہوش ہوگئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
خاموش ہیں کوہ ودشت ودریا
قدرت ہے مراقبے میں گویا
اے دل تو بھی خموش ہو جا
آغوش میں غم کو لے کے سوجا
اقبال کی شاعری لوریاں سنانے کے لئے نہیں بلکہ اس میں ایک ایسا پیغام ہے جو خوابیدہ لوگوں کو بیدار کرنے میں کارگر ثابت ہوسکتی ہے ۔ یہ شاعری خون کو سرد بھی کرسکتی ہے اور اسے حرارت بھی دے سکتی ہے ۔ یہ جدوجہد اور عمل پر زور دیتی ہے اور دبے لوگوں کو کمر باندھنے اور حالاتوں سے مقابلہ کرنے کی طرف راغب کرتی ہے ۔ اس میں ایک ایسی جلا اور توانائی ہے جس سے روح میں حرارت اوردل میں گرمی پیدا ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہتے ہیں ؎
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
ٖفرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہوگئے پانی
مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا
اقبال کا کلام خصوصیات سے مزین ہے ۔ ان کے کلام میں رفعتِ تخیل، کلاسکیت اور رومانیت،سوزوگداز، پیچ وتاب، موسیقیت اور ترنم ، رمزیت، مصوری ، تشبیہ و استعارہ، تغزل، جدت ترکیب جس میں وہ نئی نئی اور حسین ترکیبیں تراشتے نظرآتے ہیں ۔ تخیل کی بلندی میں اقبال لاثانی فلسفی شاعر ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
دہر میں عیش ودوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہوگئیں
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افز اء کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فروا کو میں
برتر از اندیشہ سودوزیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلم جاں زندگی
اقبال کے کلام میں فکر کی گہرائی وسعت لئے ہوئے ہے ۔اس کا یہاں مندرجہ ذیل شعر سے بھی پتہ لگایا جاسکتا ہے ؎
عشق کی اک جست نے کردیا قصہ تمام
اس زمین وآسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک
جس کوآواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
علاوہ ازیں ان کے کلام میں موسیقی اور ترنم کا حسین امتزاج پایا جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کئی جگہوں پر مترنم اور رواں بحروں کا انتخاب کیا ہے۔جس سے ان کے اشعار میں موسیقیت کا فقدان کہیں نظر نہیں آرہا ہے ۔مندرجہ ذیل چند اشعار کو دیکھئے:
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا ، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاک جادوئے سامری تو قتیل شیوئہ آزری
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقرو غنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
اقبال کے کلام سے مزید یہ کہ مصور ی کا جابجا اثر نمایاں ہے۔ انہوں نے بیشتر نظموں میںمناظر فطرت کی منظر کشی اس طرح کی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے چند اشعار ؎
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام
وہ حضر بے برگ وساماں وسفر بے سنگ ومیل
وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بیں خلیل
اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں
اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ، ندی کاصاف پانی تصویر لے رہا ہوپانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو اقبال کے کلام میں افکار، خیالات اورجذبات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ جس کی ہرسمت پہ اور اس کی گہرائی میں گھن گرج کی سی حالت نظر آتی ہے۔
رابطہ :ریسرچ اسکالر اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی سری نگر
فون نمبر: 9858319484
�����