شفیع احمد ، نیو کالونی کھریو(پلوامہ)
………………………..
مصنف: پادری جے ہنٹن نول
مترجم: کاچو اسفند یار خان
…………………………..
چند برس پہلے جب ایک کتاب کشمیری کہاوتوں کی ڈکشنری نظر سے گزری تو اس کا مطالعہ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی اور جب یہ پتہ چلا کہ لداخ خطے سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب اور سابق بیروکریٹ کاچو اسفند یار خان کا اس کتاب سے براہ راست تعلق ہے تو دلچسپی میںمزید اضافہ ہوا کہ خطہ لداخ سے تعلق رکھنے والے یہ صاحب کشمیری کہاوتوں کی ڈکشنری تیار کر چکے ہیں۔مجھے کتابیں خرید کر پڑھنے کے عادت ہے۔ یہ کتاب خرید لی اور ایک فنکشن کے دوران اس پر کاچو صاحب کے دستخط بھی چسپان کروائے۔
سطحی مطالعے پر پتہ چلا کہ اصل میں یہ کتاب 1885 میں کشمیر میں کام کرنے والے ایک پادری جے ہنٹن نول نے عرق ریزی کے بعد تیار کی ہے جو کہ کشمیری کہاوتوں کا انگریزی ترجمہ ہے ۔کاچو صاحب کے پاس اس کتاب کا نسخہ کس طرح پہنچا ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ میرے علاقے کھریو کے ایک باشندے پنڈت شیو جی بٹ نے ہدیتاً انہیں مرحمت فرمایا ۔ اور اس پر طرہ یہ کہ پادری کی طرح کاچو صاحب نے بھی مشقت کرکے اس کا اردو ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ تشریحات سے بھی نوازا۔ پیش لفظ میں جس طرح کاچو صاحب نے کشمیری سماج میں تبدیلیاں ظہور پذیر ہونے پر تبصرہ کیا ہے وہ آئینہ دکھانے سے کم نہیں۔ میں ان کے اس تبصرے سے بعض پیرا گراف نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
’’ میرا ماننا ہے کہ ان نا مساعد حالات اور افرا تفری کی وجہ سے اب ہر کشمیری ایک ذہنی ہیجان کی کیفیت سے گزر رہا ہے اب لوگ نہ صرف اپنی تاریخ اور تمدن سے دور ہو رہے ہیں بلکہ اپنے کلچر پر فخر کرنے کے بجائے اب دوسری زبانوںاور تہذیبوں کو اپنا رہے ہیں۔محسن کشمیر شاہ ہمدان ؒ کے سکھائے ہوئے ہنروں کو اب حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیںاور ان شہرہ آفاق دست کاریوں کو بھول رہے ہیں جن کی وجہ سے کشمیر یوںکا نام چار دانگ عالم میں مشہور تھا ۔یہاں کی نئی نسل اب اپنی زبان سے بھی نا آشنا ہو رہی ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کشمیری عام طور پر اپنے گھروں میں کشمیری میں بات کرنا غیر مہذب فعل سمجھنے لگے ہیں۔”
اصل مصنف ہنٹن نول کے بارے میں کاچو صاحب یوں رقمطراز ہیں۔ ” نول جیسے ادیب اور اسکالر صدیوں میں چند ہی پیدا ہوتے ہیں۔ایسے لوگ علم ادب کے لئے اپنی ساری زندگی اور زندگی کی خوشیاں تک قربان کر دیتے ہیں۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جب ساری دنیا دن بھر کی تھکان سے چور چور ہوکر نرم نرم بستروں پر سو جاتی ہے تب یہ لوگ اٹھ کر راتوں کو چراغ جلاتے ہیں اور دنیا اور ما فہیما سے بے نیاز ہو کر علم، تحقیق اور تخلیق کے بیکران سمندر میں غوطے لگاتے رہتے ہیں اور ہمارے لئے چند گوہر نایاب ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ہنٹن نول ایک پادری تھے اور سرینگر میں مشن میں کام کرتے تھے۔مشن کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے علم کی پیاس بجھانے کے لئے انہوں نے کشمیر کی سردیوں کا خوب استعمال کیا تھا اور کشمیری کہاوتوں کو جمع کرکے ان کو شایع کیا تھا۔آج ہنٹن نول کی انتھک کاوشوںکی بدولت 1518 کشمیری کہاوتوں پر مشتمل یہ خزانہ ہمارے سامنے موجود ہے اور یہی اس بڑے ادیب اور اسکالر کی طرف سے ہماری تاریخ اور ثقافت کے تئیں ایک انمول دین ہے۔”
اس کتاب میںڈیڑھ ہزار کے قریب کہاوتوں کا گلدستہ موجود ہے جو ظاہر ہے عرق ریزی سے جمع کیا گیا اور اس کے بعد اسی محنت سے اسکا ترجمہ کیا گیا۔لطف کی بات یہ ہے کہ مصنف اور ترجمہ کار دونوں کشمیری زبان سے واقف نہیں تھے۔ لیکن کاچو صاحب نے ترجمہ کاری کے مشکل دور سے گزر نے کی روداد بیان کی ہے، جسے پڑھکریہ پتہ چلتا ہے کہ لگن اور محنت سے کام کیا جائے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں۔اس طرح کی محنت کے لئے اہل کشمیر کو دونوںصاحبان کا شکر گزار رہنا چاہئے۔
کتاب کے متن کوپُرکشش بنانے اور نوک پلک سنوارنے میں کاچو صاحب کے بقول ڈاکٹر اشرف آثاری اور مقبول ساجد نے قابل تحسین کام کیا ہے ،کشمیر ی زبان و اددب کے ساتھ دلچسپی رکھنے والوں کو ان کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے۔ اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر اشرف آثاری رقمطراز ہیں۔ ” کشمیر میں کشمیری زبان کے زبان زد ہر خاص و عام محاوروں پر مبنی زیر نظر کتاب ان کی کئی برسوں پر محیط مشقت و عرق ریزی اور بے حد صبر و تحمل اور بردباری کا نتیجہ ہے جس کو انہوں نے انتہائی احسن طریقے سے مکمل کر لیا ہے ۔میرے خیال میں یہ ضخیم کتاب ایک دستاویز سے کم نہیں ہے ۔ وہ اس لئے بھی کہ یہ ایک ایسے شخص کی کوشش و کاوش کا نتیجہ ہے جس کی کشمیری زبان مادری زبان نہیں ۔مجھے یاد نہیں آ رہا کہ اس طرح کی کوشش کسی کشمیری ادیب نے اس سے قبل بھی کی ہے یا نہیں۔”
یہ کتاب ہر لحاظ سے دیدہ زیب ہی نہیں بلکہ علمی خزانے سے کم نہیں تاہم ہر ایک اچھی کوشش میں کہیں نہ کہیں کوتاہی ہو ہی جا تی ہے ۔اس کا مطالعہ کرتے ہوئے چند جگہوں پر مجھے جو کمیاں نظر آئیں ان کی نشاندہی ضروری ہے تاکہ اگلے ایڈیشن میں وہ دور ہوسکیں ۔صفحہ 162 پر گُرُس کا ترجمہ دہی لکھا گیا جبکہ چھا چھ ہونا چاہئے ۔صفحہ 240 پر زام کا ترجمہ نند ہے نہ کہ داماد کی بہن ، اور پام کا بہتر ترجمہ گالی نہیں بلکہ طنز ہے۔صفحہ 450 پر وور ماج کا ترجمہ ساس لکھا گیا ہے جب کہ اصل سوتیلی ماں ہے۔ جہاں اس کتاب کا متن دلکش ہے وہیں اسکی چھپائی اور سر ورق ڈیزائن بھی قابل تعریف ہے ۔چار سو ترانوے صفحات پر مشتمل یہ کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ذاتی کتب خانے کی زینت بنانے کے لایق بھی ہے ۔عام ایڈیشن کی قیمت 375/= روپے ہے جو اس خوبصورت کتاب کے لئے کسی بھی صورت زیادہ نہیں۔
(رابطہ۔9419009169 )