سرینگر//حریت (گ)چیرمین سید علی گیلانی نے تہاڑ جیل، کٹھوعہ، ادھمپور، کوٹ بلوال سمیت ریاست اور ریاست کی باہری جیلوں میں نظربند کشمیری قیدیوں کی حالت زار پر اپنی گہری تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ہر طرح سے انتقام گیری کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کو ذہنی اور جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ طبی امدار سے بھی محروم رکھا جارہا ہے۔ انہوں نے عالمی ریڈکراس کمیٹی (ICRC)کو ان جیل خانہ جات کا دورہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ ان کی مفوضہ ذمہ داری ہے کہ وہ بیمار نظربندوں کا خیال کرے، البتہ اس کے اہلکاروں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک عرصے سے جموں کشمیر کی کسی بھی جیل کا دورہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حریت چیرمین نے کہا کہ مسرت عالم بٹ تحریک آزادی کشمیر کے ایک ذمہ دار فرد ہیں، جو پچھلے8 سال کے عرصے سے پابند سلاسل رکھے گئے ہیں۔ پولیس نے انہیں فرضی کیسوں میں ملوث کرنے کی کوشش کی، البتہ عدالت میں ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو ثابت نہیں کیا گیاجس کے بعد انہیں رہا کیا جانا چاہیے تھا، البتہ پولیس نے ان پر کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)کا اطلاق کیا اور جب سے ایک کے بعد دوسرا پی ایس اے ان پر عائد کیا جاتا رہتا ہے اور انہیں عدالتی احکامات کے باوجود بھی جیل سے رہا نہیں کیا جاتا ہے۔ گیلانی نے مزید کہا کہ ڈاکٹر غلام محمد بٹ بھی پچھلے آٹھ سال سے تہاڑ جیل میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں اور کافی عارضوں میں مبتلا بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شبیر احمد شاہ، الطاف احمد شاہ، پیر سیف اللہ، ایاز اکبر، راجہ معراج الدین، شاہد الاسلام، نعیم احمد خان، فاروق احمد ڈار، شاہد یوسف، ظہور احمد وٹالی سمیت دیگر قیدیوںکی طبی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے اور ان کو انتقام کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان حریت قائدین کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے، مگر سوشل میڈیا اور فرضی کہانیاں گڑھ کر ان کی گرفتاری کو جواز پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حریت چیرمین نے کہا امیرِ حمزہ شاہ جو گزشتہ 3سال سے مسلسل قید تھے، گزشتہ ماہ موصوف پر لگایا گیا پبلک سیفٹی ایکٹ عدالت عالیہ نے کواش (Quash)کرکے رہائی کے احکامات صادر کئے، البتہ پولیس نے انہیں رہا کرنے کے بجائے پہلے بانڈی پورہ اور پھر امر گڑھ سوپور تھانے میں رکھا اور اب سب جیل کپواڑہ میں غیر قانونی طور پر پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔گیلانی نے ڈاکٹر محمد قاسم، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، غلام قادر بٹ، فیروز احمد بٹ، پرویز احمد وغیرہ کو بدستور ریاست کی باہری جیلوں میں بند رکھنے کی کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کو لاقانونیت سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے حکمرانوں کی تنگ نظری پر عبرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کے قیدیوں کو ترجیحی بنیادوں پر اپنے لوگوں سے دُور ترین جیلوں میں پابند سلاسل کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے نزدیکی رشتہ داروں کو ان کے ساتھ ملاقات کرنے کو مشکل سے مشکل تر بنایا جاسکے۔ گیلانی نے محمد یوسف فلاحی، میر حفیظ اللہ، ناصر گنائی، عبدالغنی بٹ، نذیر احمد خواجہ، غلام محمد خان سوپوری، محمد یوسف میر، غلام محمد تانترے، محمد شعبان خان، مفتی عبدالاحد، محمد اشرف ملک، منظور احمد کلو، عبدالمجید لون، شیل احمد ایتو، جاوید احمد فلائی، محمد امین آہنگر، محمد امین پرے، عبدلحمید پرے، محمد شعبان وانی گام، غلام حسن شاہ، حاکم الرحمان، عبد العزیز گنائی، منظور احمد وار، عبدالرشید بٹ، اخلاص احمد شیخ، معشوق احمد، ہلال احمد پالہ، مقصود احمد، محمد رجب بٹ، اعجاذ احمد بہرو، نثار احمد نجار، عبدالخالق ، امتیاز احمد میر، فاروق احمد بٹ، معراج الدین نائیکو اور بشیر احمد صالح سمیت دیگر سینکڑوں آزادی پسندوں کو مسلسل نظر رکھنے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی پر زور دیا ہے۔حریت چیرمین نے آزادی پسند قائدین کی مسلسل نظربندی اور پُرامن سیاسی پروگراموں پر روک لگائے رکھنا کسی بھی طور دانشمندی نہیں ہے اور ایسا کرکے حکومت خود ریاست کے حالات کو بد سے بدتر بنانے کی حماقت کررہی ہے۔ حریت راہنما نے بھارتی حکمرانوں کی جانب سے آئے روز بات چیت کے بیانوں کو ڈرامہ بازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کبھی بھی مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ بھارت کے ظلم اور جبر کے آگے سریندڑ کریں اور اس کے فوجی قبضے کو تسلیم کریں۔ یہ پالیسی کشمیریوں کو سرینڈر کرکے کے لیے عملائی جارہی ہے، تاکہ آزادی پسند قیادت اپنے آزادی کی جدوجہد کو ترک کرے۔