2014میں ریاستی حکومت کے دفتر داخلہ نے حق معلومات کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 1987سے 2014تک 16,329کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ اوسطاً ہر سال کم از کم ڈیڑھ ہزار کشمیری جیلوں میں رہتے ہیں۔اس سال اپریل میں بھی ایسے ہی ایک جواب میں بتایا گیا کہ فی الوقت 2638افراد ریاست کی مختلف جیلوں میں قید ہیںجبکہ تمام جیلوں میں 2675افرادکے قیام کی گنجائش ہے۔اس کا مطلب ہے کہ سبھی جیل ہاؤس فُل ہیں، ایسے میں قیام امن کے دعوے کس کھاتے میں درج ہونگے؟
متحدہ مزاحمتی فورم نے قیدیو ں کے ساتھ یکجہتی کے لئے اپنی بساط کے مطابق مظاہروں اور ہڑتال کا اہتما م کیا اور توقعہ کے مطابق قوم نے اس لبیک کہا۔ ظاہر ہے دو ہی طرح کے لوگ ہیں جن کی براہ راست قربانیوں کے بل پر تحریک چلائی جارہی ہے۔ ایک وہ جو مظاہروں یا تصادموں کے دوران فورسز کی گولی کھاکر جان دیتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اپنی جوانیاں عقوبت خانوں میں گُھلا رہے ہیں۔ اور پھر جیلوں سے طویل قید کے بعد رہا ہونے والے بیشتر نوجوان مزاحمتی خیمے کی ہی پیادہ فوج بن جاتے ہیں۔ لہٰذا حریت کانفرنس کا اس معاملے پر سرگرم ہوجانا ایک بروقت عمل ہے۔
گزشتہ ماہ عدالت میں حکومت نے جو اعداد شمار پیش کئے اُن سے بھی لگتا ہے کہ کشمیری قیدیوں کی زندگیاں اجیرن بن گئی ہیں۔مثال کے طور پر جموں کی امپھالہ جیل میں صرف 398قیدیوںکے قیام کی گنجائش ہے، لیکن وہاں فی الوقت 529کشمیری قید ہیں۔ اننت ناگ جیل میں صرف 64افرد کو نظر بند کیا جاسکتا ہے، لیکن وہاں 146افراد نظر بند ہیں۔ادھمپور جیل کی گنجائش 283ہے اور وہاں برابر 283کشمیریوں کو قید کیا گیا ہے۔ اسی طرح سرینگر کی سینٹرل جیل میںصرف 364افراد ہی سماسکتے ہیں لیکن وہاں بھی فی الوقت 377کشمیری محبوس ہیں۔
جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن طویل عرصے سے قیدیوں سے متعلق قانونی جنگ لڑرہی ہے۔ لیکن ابھی تک عدالتی حکمناموں کے باوجود CRPCکے سیکشن 436-Aپر عمل نہیں ہو پایا۔ اس سیکشن کے مطاق زیرسماعت قیدی نے اگر عدالتی فیصلے سے قبل اُس سزا کا نصف حصہ جیل میں گزارا ہو جو جرم کے عوض اسے ملنی ہے، تو اسے فوراً رہا کیا جانا چاہیے۔
کشمیر میں جیلو ں کا مسلہ صرف قیام و طعام کی سہولات سے ہی متعلق نہیں ہے۔ جیلوں میں ٹارچر بھی ایسا مسلہ ہے جو خال خال ہی سیاسی بیانیوں کا حصہ بنتا ہے۔ 2012میں عالمی انسانی حقوق ادارہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس کے وہ سبھی مراسلے وِکی لیکس کے سبب منظر عام پر آگئے جو تنظیم نے کشمیر کی جیلوں سے متعلق رقم کئے اور امریکی سفیروں کو ارسال کئے تھے۔ ایسے ہی ایک مکتوب میں بتایا کہ 2002-04 کے دوران آئی سی آر سی کے رضاکاروں نے جمو ں کشمیر کی جیلوں کے 177دورے کئے جن کے دوران انہوں نے 1491قیدیوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ مکتوب کے مطابق ان قیدیوں میں سے 852نے جسمانی تشدد کی تصدیق کی، 171نے بتایا کہ ان کی شدید مارپیٹ ہوئی اور 681نے الیکٹرک شاک، ٹانگو ں پر رولر پھیرنے،مخالف سمت میں ٹانگیں راست کرنے، پانی میں طویل عرصے تک سر ڈبونے اور جنسی تشدد کی شکایت کی۔ قیدیوں کے ٹارچرکا معاملہ کوئی پرانی ریت نہیں ہے، تازہ واقعہ تہاڑ جیل میں پیش آیا ہے جس پر وزیراعلی محبوبہ مفتی نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور مرکزی ہوم سیکریٹری نے تحقیقات کا یقین دلایا ہے۔
انسانی حقوق کے لئے سرگرم مختلف گروپوں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائٹیز کے سربراہ پرویز امروز نے گزشتہ برس ایک تحقیق کی بنیاد پر بتایا کہ ہر 6میں سے ایک کشمیری قید کے دوران تعذیب سے گزرا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کشمیر کی 70لاکھ آبادی میں سے دس لاکھ سے زیادہ افراد کو ٹارچر کی صعوبت جھیلنی پڑی ہے۔کولیشن نے کشمیر کے پچاس دیہات پر مبنی ایک تحقیق بھی جاری کی ہے جس کے مطابق صرف ان ہی دیہات میں ٹارچر کے دو ہزار معاملے درج کئے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2010کی ایجی ٹیشن کے دوران 3500نوجوانوںکو گرفتار کیا گیا جن میں سے 120پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے انہیں طویل نظربندی کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔
کشمیری قیدیوں کے ساتھ جو بھی سلوک ہورہا ہے، اس پر عالمی اداروں نے وقتاً فوقتاً لب کشائی کی ہے۔ لیکن اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ کشمیری قیدیوں کو جنیوا کنوینشن کے پروٹوکال 1977کے تحت ان کے بنیادی حقوق نہیں دئے جارہے ہیں۔چونکہ کشمیری عسکریت پسندوں یا مظاہرین یا علیحدگی پسندوںکو جنگی قیدی کا درجہ نہیں مل سکتا ، تاہم ایسے قیدیوں کے لئے جنیوا کنوینشن میں موجود حقوق اور سہولات سے بھی یہ قیدی محروم ہیں۔
یاد دہانی کے لئے ہڑتال کرنا تو ٹھیک ہے، لیکن قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا سلوک نہایت گھمبیر معاملہ ہے۔ اور پھر جس طرح جموں کشمیر میں جیلوں کو منیج کیا جارہا ہے، یہ تشدد اور تخریب کاری کی نرسریاں بن چکی ہیں۔ گزشتہ برس متحدہ مزاحمتی فورم کے کلیدی رہنما یاسین ملک نے راقم کو بتایا کہ اننت ناگ جیل میں انہوں نے ایک کم سن لڑکے کو دیکھا جو ہر قیدی سے کہتا تھا کہ اسے صرف ایک پستول کہیں سے ملے تو اس کی زندگی کا مقصد پورا ہوجائے گا۔حکومت ہند اور مقامی حکومت جیلوں میں سڑ رہے زیرسماعت قیدیوں کی تقدیر کو ہر بار کسی نہ کسی مذاکرات کاری یا سی بی ایم کا حصہ بناتی رہی ہے۔ حالانکہ حکومت کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ حبس بے جا کے کلچر کو ختم کرے۔
حریت کانفرنس چونکہ ایک سیاسی اور سفارتی اتحاد ہے۔ قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے صرف ایک عدد ہڑتال کرکے ان کا مسلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کیلئے عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا ضروری ہے۔ پاکستان بھی اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے فورموں میں محض انشا پردازی (Rhetoric)سے کام لیتا ہے۔ عملی کام یہ ہے کہ عالمی اداروں کو اس سنگین مسلہ سے متعلق موبلائز کیا جائے۔
اب تو نئے مذاکرات کار دنیشور شرما اور وزیراعلی محبوبہ مفتی نے ساڑھے چار ہزار نوجوانوں کے خلاف مقدمے واپس لینے کی بات کی ہے۔لیکن جیلوں سے رہائی بھی ایک بڑا مسلہ ہے۔ جیل سے رہائی پانے کے بعد کشمیری نوجوان سفری حقوق یا سرکاری ملازمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسے لامحالہ یا تو حریت کانفرنس کے کفاف پر زندگی گزارنا ہوتی ہے یا پھر اُسی مین سٹریم سیاستکار کا دم چھلا بننا پڑتا ہے، جس نے اس کی رہائی میں کسی طرح کی کوئی مدد کی ہوتی ہے۔متعدد جیل خانوں میں پڑے ہزاروں کشمیریوں کی رُوداد سن کر ہی یورپی یونین کے ایک وفد نے 2004میںاپنے دورے کے بعد کشمیر کو خوبصورت قید خانہ قرار دیا تھا۔ لیکن اس خوبصورت قید خانے میں جو بدصورت تعذیب خانے ہیں ان میں پڑے نوجوانوں کی الم ناکیاںنیک نیتی اور دیانتداری سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘