ایک طرف جہاں اقوام متحدہ نے مواصلاتی بریک ڈاؤن کو کشمیریوں کے لیے اجتماعی سزا قرار دے کر ایسی پابندیوں کو عالمی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیاہے، دوسری جانب بھارت کی مختلف ریاستوں میں مزید ڈھٹائی کے ساتھ کشمیریوں کا ذہنی ٹارچر اور جسمانی تعذیب کے نت نئے حرنے بروئے کار لائے جارہے ہیںاور ایسا کر تے ہوئے ہر اخلاقی اور انسانی قدر کے ساتھ ساتھ ملکی آئین اور بین الاقوامی قانون کو پیروں تلے روندا جارہا ہے۔حالیہ دنوں اسی ضمن میں یہاں کے اخبارات میںایک اندوہ ناک خبر کے مطابق کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک مریضہ کاپی جی آئی چندی گڑھ میں ڈاکٹر نے صرف اس بناپر علاج کرنے سے منع کیا کیونکہ وہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں۔ نسرین ملک نامی اس مریضہ کے بیٹے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا’’ میں اپنی والدہ کو علاج کی غرض سے پی جی آئی چندی گڑھ لے گیا، جہاں منوج تیواری نامی ڈاکٹر نے ابتداء میں ہم سے اچھا سلوک کیا، لیکن جب اُس نے صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کے نسخہ جات اورکاغذات دیکھے جن سے انہیں پتہ چل گیا کہ ہم کشمیری ہیں تو وہ آگ بگولہ ہوگئے۔ ڈاکٹرصاحب نے ہم نے کہا ’’ وہاں کشمیر میں ہمارے( فوجی ) جوانوں کو پتھر مارتے ہو اور پھر یہاں علاج معالجہ کرنے آتے ہو‘‘ڈاکٹر نے ہمارے تمام کاغذات پھینک دئے اور مریضہ کا علاج کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اگر چہ ڈاکٹر نے ہمیں براہ ِراست ہسپتال سے چلے جانے کے لیے نہیں کہا ،البتہ اُنہوں نے ہم سے کہا کہ علاج میں پندرہ لاکھ کا خرچہ آئے گا، جب کہ جس بیماری میں میری والدہ مبتلا ہیں، اُس کا وہاں پر زیادہ سے زیادہ ۸۰؍ہزار کا خرچہ آتا ہے۔ ہمیںوہاں شروع سے ہی نسلی تعصب اور بیمار سوچ کا شکار ہونا پڑا، کسی ایک فردبشر نے بھی از راہ ِ انسانیت ہماری رہنمائی نہیں کی، بالآخر ہسپتال انتظامیہ کے بہت ہی بُرے برتاؤ کی وجہ سے ہمیں شفاخانے سے بغیر علاج ومعالجہ کے بے نیل ومرام لوٹنا پڑا۔‘‘ چناںچہ جب اس افسوس ناک واقعہ کو تشہیر ملی تو پی جی آئی چنڈی گڑھ کی انتظامیہ نے اگرچہ تحقیقات کرکے قصور وار ڈاکٹر کے خلاف ضابطے کی ’’کارروائی‘‘ کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر آثار وقرائین سے لگتا ہے کہ یہ محض زبانی جمع خرچ ہے اور اس’’تحقیقات‘‘ کا حشر بھی کشمیر میں کسی نوجوان کے قتل پر انکوائری بٹھانے کے عمل جیسا ہو نا طے ہے۔ البتہ اس ایک واقعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ریاست سے باہر کشمیریوں کے تئیں کیسی مردہ ضمیری اور مریضانہ ذہنیت پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے چشم فلک نے اور چیزوں کے علاوہ وہ دن بھی دیکھا جب ۴ا۲۰ ء کے تباہ حال سیلاب متاثرہ کشمیریوں کی ا مداد وراحت کے لئے انڈیاکے ایک تعلیمی ادارے کے پنڈت سربراہ نے چندہ جمع کرنے کا کیمپ لگایا ۔ دیش بھکتوں نے نہ صرف ا سے اکھاڑپھینکا بلکہ پرنسپل موصوف کی یہ کہہ کر مارپیٹ کی کہ وہ کشمیر کے’’ دیش دروہیوں ‘‘کے لئے چندہ کیوں جمع کر رہے تھے ۔ آج کل اس نوع کی مریضانہ ذہنیت چونکہ سیاسی سرپرستی اور سماجی پذیرائی حاصل کر چکی ہے ،اس لئے کشمیر یوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے کے ان واقعات پر کسی کی ناک بھوئیں چڑھانا اور حیرت یا رسمی تشویش ظاہر کر نا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔
اہل کشمیر کے ساتھ ہندوستان بھر میں منا فرت ، شکوک وشبہات ،تعصب اور تنگ نظری کا مائنڈ سیٹ دن بہ دن اپنی تمام زہر ناکیوں کے ساتھ اب جا بجا ظاہر ہورہاہے، یہ الگ بات ہے کہ سرکاری طور پر بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے کشمیر یوں کے ساتھ ناروا سلوک ترک کئے جائے کی ایڈوائزری ریاستوں کے نا م جا ری کی گئی۔ اُن کایہ سرکاری ہدایت نامہ او ر ہندوستانی عوام کے نام یہ تازہ پیغام کہ ان کے یہاں کشمیر ی طلبہ اور کامگاروں وغیرہ کا’’ خیرمقدم ‘‘کیاجائے ،گویا ا س حقیقت کی تصدیق ہے کہ بھارت کی ریاستوں میں کشمیریوں کے تئیں خلاف رائے عامہ کس قدر خراب چل رہی ہے ۔ یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ نوے سے برابر کشمیریوں کو بھارت میں جرم بے گناہی کی پاداش میں ہزرہا تکالیف ، جیلیں ، ہلاکتیں، لوٹ مار، نفرتوں اور تعصبات کا سا منا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے دور ِ اقتدار میں ریاست کے اُس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی مجبوراً بھارتی ریاستوں میں تنگ طلب کرنے اور بغض وعناد کی بھینٹ چڑھانے کا سلسلہ روکنے کے لئے آٹھ وزارائے اعلیٰ کو ان کی حدود میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ ، تاجرین، مزردوں اورملازمین کوتحفظ دینے کی فہمائش کر نا پڑی تھی ۔ بہرصورت پی جی آئی چندی گڑھ کا شرم ناک اور قابل صد تشویش واقعہ اہل عالم کے لئے چشم کشامعاملہ ہے کہ اہل کشمیر اپنے گھر اور گھر سے باہر یکساں طور عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ ہمارے اجتماعی حافظے کی تختی پر کشمیریوں کی ہراسانی اور پریشانی کے ایسے ایسے دل دہلادینے والے واقعات رقم ہیں کہ کتنے وہ کم نصیب کشمیری ہیں جن کو ریاست سے باہر نسلی تعصب اور مذہبی تنفر کا شکار ہونا پڑاہو ہے ۔ ایسے درجنوں واقعات اخبارات اور چنلوں کی زینت بن چکے ہیں۔ کشمیریوں کو بیرون ریاست عام ہندوستانیوں کی جانب سے تعصب کی ایک اور کہانی گزشتہ سال عوامی احتجاج کے دوران بنی ۔ اس وقت پیلٹ گن سے متاثر ہونے والے جن چار زخمیوں کو سرکاری سطح پر آل انڈیا میڈیکل انسٹی چیوٹ منتقل کیا گیا تھا ، دو ماہ گزر جانے کے جب وہ وادی واپس آئے تو اُنہوں نے یہاں دل دہلادینے والی سرگزشتیں بیان کیں۔ اُن کے مطابق وہاں ہسپتال انتظامیہ نے اِن زخمی مریضوں کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا، اُن کے علاج کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ چھروں سے متاثر ہ ان کی آنکھوں پر صرف میڈئکل تجربات کئے گئے ۔ان مریضوں کی وادی واپسی پر یہاں کے ڈاکٹروں نے جب اُن کا ملاحظہ کیا تو وہ بھی دنگ رہ گئے اور اُنہوں نے بھی اس بات کا کھلا اعتراف کیا کہ ان مریضوں کی آنکھوں کو ماہرانہ طریقے سے نہیں دیکھا گیا بلکہ اِن پر صرف پیلٹ اثرات کی جانچ کے لئے تجربات کر کے اُن کی حالت کومزید ابتر کی گئی۔حالانکہ ریاستی سرکار نے اُن کے علاج و معالجے کے حوالے سے اپنی مسیحائی اور غم گساری کا خوب پروپیگنڈا کیا اور اُنہیں تمام سہولیات دستیاب رکھنے کے وعدے بھی کئے تھے۔ اُن میں دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ایک متاثرہ نے ذاتی طور راقم سے کہا کہ وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران آکر صرف ہمارے ساتھ اپنا فوٹو کھینچواتے تھے ،وہاں ہمارا کسی قسم کا کوئی دوادارو نہیں ہوا ہے، اور ہمیں معمولی دوائی تک بازار سے خرید کر لانے کو کہا جاتا ہے۔
یہ ایک عام شاہدے کی بات ہے کہ بیرون ریاستی کشمیری طلباء ، تاجروں اور ضروری کام کاج کے لئے عام کشمیریوں کی جگہ جگہ تنگ طلبیا ور تذلیل ایک معمول بنا ہوا ہے۔گاڑیوں میں ، مارکیٹ میں، ریل گاڑیوں کے ڈبوں میں کشمیری لوگ تعصب اور تنگ نظری کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُنہیں طعنے دئے جاتے ہیں اور خوف اور ڈر کے ماحول میں اُن کا جینا دو بھر کردیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس ریل سفر کے دوران ہر ڈبے میں جاکر کشمیری مسافروں کو تلاش کرتی رہتی ہے اور ڈرا دھمکاکر اُن سے پیسے وصولے جاتے ہیں۔ اس لئے عام کشمیری کے لئے ریاست سے باہر کے سفر میں ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ بیرون ریاست کے تعلیمی اداروں میں جنونی فرقہ پرست اور تو اور اٹیم انڈیا کے ہارنے پر سارا نزلہ کشمیری طلباء پر نکالتے ہیں ۔ خیر عدم برداشت کی وحشی لیول جب مسیحاکہلانے والے ڈاکٹروں تک میں سرایت کرجائے تو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ بھارتی سماج شدت پسندی کی کس سطح تک پہنچ چکا ہے۔ڈاکٹر کو آج بھی انسانیت کامسیحا سمجھا جاتا ہے جو اس پروفیشن میں جاتے وقت عہد کرتا ہے کہ خالص انسانی بنیادوں پر اپنی خدمات انجام دیتا رہوں گا، وہ اگر میڈیائی پروپیگنڈے کے ذریعے شدت پسند نظریات اور نفرت کے حامل بن گئے ہوں، تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے کہ اس سماج سے انسانیت ، ہمدردی اور خدمت کا جذبہ مرچکا ہے۔ انڈیا کے عام لوگ نفرت اور تعصب کی عینک سے ہی کشمیرکو دیکھنے کے اس لئے عادی ہوچکے ہیں کیونکہ ان کے’’دیش بھگت سیاست دانوں نے انہیں ایسے موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے جہاں اپنی قوم ، مذہب اور نسل کے بغیر اُنہیں کوئی بھی کشمیری انسان دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔
کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے؟ اس کا اندازہ بھارت میں رہنے والے لوگوں کو نہیں ہوگاکیونکہ وہ ’’دیش بھگتی‘‘ اور ’’قومی مفاد‘‘ کی خود ساختہ عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے ہیں،اُنہیں فرقہ پرستی کے حشیش نے اس قدر مست کردیا ہے کہ کشمیر میں ہورہی زیادتیوں کے نتیجے میں یہاں کی روتی بلکتی انسانیت کی چیخیں انہیںسنائی ہی نہیں دیتے ۔اُن کی فوج نے افسپا کی مہربانی سے اور کرسی پر لٹو سیاست دانوں نے یہاں مشترکہ طور عوام کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے، وہ یہاں لاشیں گرا کراپنی کرسیوں کو دوام بخشتے ہیں، وہ یہاں معصوم بچوں کی زندگیاں اُجاڑ رہے ہیں اور اس کے ردعمل میں جب قفس کا پنچھی بنا عام کشمیری اپنے دفاع میں معمولی احتجاج کرنے کی جسارت کرتا ہے تو وہ ٹی وی چنل سے لے کر پنڈال تک ہر جگہ دنیا کا ’’بدترین ‘‘انسان اور ’’خونخوار دہشت گرد‘‘ کہلاتا ہے۔ تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھئے کہ ہم سیلاب میں خو د دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن غیر ریاستی مزدروں ، کاریگروں ، یاتریوںاور سیاحوں بلکہ وردی پوشوںکو بھی کہیں بچاتے رہے کہیں کھلاتے پلاتے رہے، اُنہیں اپنے گھروں میں جگہ فراہم کرتے رہے، جو وردی پوش ہمارے نونہالوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں، کیا ہمارے ہی نوجوانوں نے سیلاب کے دوران اُنہیں سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقام تک پہنچا نہ دیا؟ ۲۰۱۶ء میں جن کشمیریوں پر آپ کی فیکٹریوں میں بننے والا بارود بہادر فوجی بے دریغ کشمیریوں پر ختم کرتے جاتے تھے ،وہی کشمیری بجبہاڑہ میں یاتری بس کو ہوئے حادثے میں نہ صرف زخمی یاتریوں کو نکال کر ہسپتال پہنچا دیتے ہیں بلکہ وہاں اپنی رگوں سے خون نکال کر انسانیت کے نما ان کی رگوں میںچڑھادیتے ہیں۔کشمیریوں نے ہر ہمیشہ پورے بھارت کو انسانیت، اخوت ، ہمدردی اور دل جوئی کا سبق سکھایا ہے، بدلے میں اُنہیں تعصب، تنگ نظری اور نفرت ملی ہے۔ ہم نے اُنہیں انسان دوستی کا پیغام دیا ہے، اُنہوں نے ہمیں نفرت اور حقارت کی نظروں سے دیکھا ہے۔بھارت میں جو نسل پرستانہ سیاست اپنے جوبن پر ہے، دنیا اسے بری نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نسل پرستی کا جنون میں کسی مظلوم قوم کو اس کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر دُھتکارناانسانی اصولوں کے سراسر منافی ہے۔ ایسی کوتاہ قسمت قوم کے مریضوںکا علاج اپنے ہسپتالوں میں نہ ہونے دینا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ یہ کام تو اسرائیل محصور شدہ غزہ پٹی میں بھی نہیں کرتا ۔ بایں ہمہ اگر پنجرے میں مقید اس قوم کو طبی سہولیات تک سے محروم رکھنا انڈین نیشن کی دیش بھگتی کالازمہ ہے تو کھول دیجئے سرینگر راولپنڈی روڑ کھول اور پھر دیکھیں کشمیری کے بیماروں کے علاج ومعالجہ کی جدید ترین سہولیات کن کن ممالک سے یہاں پہنچتی ہیں۔ویسے بھی دلی ، چندی گڑھ یا کسی اور جگہ علاج کی سہولیات فراہم کرکے کشمیریوں پر کوئی احسان نہیں کیا جاتا ، نہ وہ مفت علاج کرانے اتنا دور داز سفر اختیارکرتے ہیں بلکہ اس کے عوض ڈکٹر اور شفاخانے کشمیریوں سے بھاری معاوضہ وصولتے ہیں۔ ہندوستان میں شعبہ طب نے کاروباری حیثیت اختیار کرلی ہے ،اس لئے ہندوستان کے تمام نامی گرامی ہسپتالوں نے وادی ٔکشمیر میں ہر جگہ اپنے ایجنٹ پھیلا رکھے ہیں جو مریضوں کی کونسلنگ کرکے اُن کا علاج اپنے ہسپتالوں میںکروانے کے لیے اُنہیں ذہناً تیار کرتے ہیں ۔ بنابریں کشمیری اپنے جیب کا پیسہ خرچ کر کرکے علاج کروانے پنجاب، دلی یا کسی اور جگہ جاتے رہتے ہیںلیکن چنڈی گڑھ کے زیر بحث واقعے نے کشمیریوں کو بہت زیادہ مایوس کر کے چھوڑا ہے ۔
اہل کشمیر کے خلاف اناپ شناپ بک کرہندوستانی میڈیا سیاست دانوں سے چائے پانی حاصل کر کے ہمارے تئیں نفر ت اور شکوک کے زہرناک بیچ بوتا جارہا ہے، پرائم ٹائم میں چلنے والے ٹاک شوز میں فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے جو کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں۔میڈیا پر چلنے والے ان پروگراموں نے ہندوستانی عوامی ا ذہان کو اس قدر مسخ کر کے رکھا ہوا ہے کہ اکثریتی آبادی میں خود بخود کشمیریوں کے تئیں نفرت پیدا ہوجاتی ہے، اگر اس میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ آر ایس ایس کے سیاست دان پوری کرتے جارہے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا اور فرقہ پرست یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کشمیر میں آج بھی انسانیت کا بول بالا ہے ،اس لئے غیر ریاستی مزدوروں اور کاریگروں سمیت طلبہ اور تاجر لاکھوں کی تعداد میں یہاں بلا خوف وخطر اپنا کام کاج کر تے ہیں۔ جو رویہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں کشمیریوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے اگر خدانخواستہ وہی رویہ کشمیری بھی غیر ریاستیوں کے ساتھ اختیار کر یں تو کیا انسانیت کا گلستان بھسم نہیں ہو گا۔ المختصر کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے، یہاں کے لوگ سیاسی جدوجہد کرکے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کررہے ہیں اور پڑھائی ، علاج یا تجارت کی غرض سے جو کشمیری لوگ باہری ریاستوں کو جاتے ہیں ، یہ اُن کا حق ہے۔ دلی یہاں کے وسائل کو مال مفت دل بے رحم کی طرح چوستی جا رہی ہے ۔ اس کے بدلے میں کشمیریوں کو سوائے اس کے کیا ملتا رہا ہے کہ یہاں کے طالب علم، تاجراور مریض بیرون ریاست مجبوریوں کے تحت جب دیگر ریاستوں میںجاتے ہیں تو وہاں سے اگر صحیح سلامت لوٹیں بھی مگرہند وستان کے مریضانہ تعصب اور تنگ نظر جنونیوں سے کوئی نہ کوئی مارکھاکر ہی ۔ یہ بیمار ذہنیت جو لوگ اپنے نجی اغراض کے لئے پروان چڑھاتے ہیں پھر وہ لوگ کس منہ سے کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو اپناؤ!!!