نوٹ: یہ مقالہ تحریک حریت کشمیر کے مختلف تاریخی گوشوںکااحاطہ کر نے والی پیر افضل مخدومی مرحوم کی تصنیف کردہ کتاب کے سرسری جائزے پر مبنی ہے۔ مقالہ نگار ریاست کے سابق چیف انفارمیشن کمشنر ہیں ۔ ادارہ
کشمیر بر صغیر کی ان چند ریاستوں اور قومیتوں میں ایک ہے جن کی تواریخ نویسی کی روایت بہت قدیم ہے۔ہمیں یہ فخر حاصل ہے کہ ہماری تحریر شدہ تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔اگرچہ راج ترنگنی،نیل مت پران اور پیش رئووں کی لکھی ہو ئی تاریخ میںایک اچھا خاصا مواد دیومالائی روایات پر مبنی ہے لیکن حالات و واقعات پر مبنی ایک بیش بہا خزانہ بھی ہے۔دراصل کشمیری قوم کے مزاج میںتاریخ شناسائی رچی بسی ہوئی ہے اسی لئے امریکہ میں بسی ہوئی ایک کشمیری نژاد سکالر چتر لیکھا زتشی نے صحیح کہا ہے۔
…..".kashmir was (and continues to be ) a historically aware society…… that not ؎only were kashmiris engaged with their history, but they also had a sense of the existence of a long tradition of historical composition in kashmir."
Kashmir's Contested Pasts
Chitralekha Zutshi
Oxford University Press, New Delhi
Page 16
کشمیر میں ظہور اسلام کے ساتھ ہی تواریخ نویسی میںایک نیا اُبھار آیااور مسلم عہد حکومت کے دوران کئی مسلمان وقائع نویسوں نے کئی مخطوطات قلمبند کرکے کشمیر میں تاریخ نویسی کی اس شاندار روایت کو اور بھی جلا بخشی۔افغان،سکھ اورڈوگرہ شاہی کے دور میں جن مصائب و آلام سے یہ قوم گزری ہے اس کی روئداد ہمارے کئی بزرگوں نے براہ راست نہ سہی، واضح اشاروں اورکنایوں میں ہم تک پہنچائی ہے۔
ہا واؤ واتکھ نا توتے ییتہ ڈاپھ ترأوتھ مصطفیﷺ ( مرحوم ثنا اللہ کریری )
زالڈگر حاجی سم اور ریشم خانہ کے دل دہلانے والے واقعات نے رواں تحریک حریت کشمیر کی ابتدائی تخم ریزی کی جس کے شگوفے اور کونپلیں ان ایام میں شیخ محمد عبداللہ کی جرأت مندانہ پکار کی صورت میںکھل اُٹھیں۔اس طرح کاروانِ حریت کی حنا بندی ہوئی۔جب سے اب تک تحریک کی ( جو اب خاک اور خون سے نہلائی گئی ہے ) کی تاریخ کئی مخلص بزرگوں نے رقم کی ہے جن میں پنڈت پریم ناتھ بزاز،مرحوم محمد یوسف صراف،رشید تاثیر، منشی محمد اسحق ،شبنم قیوم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس خزانے میں ایک اوراضافہ پیر محمد افضل مخدومی کی زیر نظر کتاب ’’تاریخ تحریک حریت کشمیر ‘‘کی صورت میں ہے۔
فاضل مصنف نے اس کتاب میں کچھ اہم انکشافات کئے ہیںجنہیںقارئین کی خدمت میں پہنچانے کی سعیٔ بلیغ کرہاہوں ۔یہ کتاب مرحوم محمدافضل مخدومی جو تحریک حریت کے ایک ممتاز رکن اوراس تحریک کے روح رواں شیخ محمد عبداللہ کے ایک اہم رفیق رہے ہیں،اُن کی یاداشتوں پر مبنی ہے جو کہ انہوں نے سلسلہ وار قسطوں میں ۱۹۷۰ ء کی ابتدائی دہائی میں سرینگر کے اخباری اور ادبی حلقوں میں تہلکہ مچانے والے ہفت روزہ’’ ــ آئینہ ‘‘میںشائع کئے ہیں۔میں۱۹۷۳ء تک مرحوم مخدومی کی ان یاداشتوں کو بلا ناغہ پڑھتا رہا۔ ۷۳ ۱۹ ء کے بعدمیری بیرون ریاست تعلیمی مصروفیات اور غم ِروزگار نے اس سلسلہ کو منقطع کر دیا۔تاریخ اور سیاست کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے مجھے ان یاداشتوں کا آئندہ نسلوں کے لئے ایک حواالۂ معلومات و آ گہی ہونے کا خوب اندازہ تھا۔ چونکہ یہ سفر جہد اور جذبۂ حریت ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا ہے، اس لئے میں مرحوم افضل مخدومی کے لائق و فائق فرزندمحترم جاویدمخدومی سے پچھلے کئی سال سے پیہم ملتمس رہا کہ وہ ان یاداشتوں کو باضابطہ کتابی شکل دیں تاکہ حریت نواز لوگوں کیلئے یہ نشان راہ بنیں۔الحمداللہ یہ آرزو پایۂ تکمیل کو اب پہنچی ہے اورہمارے ہاتھ مرحوم مخدومی کی ۱۹۳۱ ء سے خاک و خون میں نہلائی ہوئی تحریک کے نشیب و فراز پر مبنی تاریخ ایک کتابی صورت میں آگئی ہے۔
طباعت سے پہلے میں نے اس کے مسودے کو غور سے پڑھا اور مجھے اس کا احساس ہوا کہ مرحوم مخدومی نے کچھ اہم واقعات کو بیان کر نے کے سلسلے میں سیاسی،سماجی اور ذاتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کرتلخ حقائق سامنے لائے۔ تحریک حریت کے حوالے میری نظر سے پریم ناتھ بزاز،جسٹس یوسف صراف،رشید تاثیر اور کئی مقتدرشخصیات کی تحریریں گزری ہیں لیکن مرحوم مخدومی صاحب کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ نہ صرف واقعات کے چشم دید گواہ تھے بلکہ تحریک کے ایک فعال کارکن بھی تھے۔اس لئے ان کے بیانیہ میں تاثیر اورثقاہت دونوں موجود ہیں۔وہ ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کوسرینگر سنٹرل جیل کے باہراُس مجمعہ کا حصہ تھے جو مرحوم عبدالقدیر کے مقدمے کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے جمع ہوا تھا۔اُن کا استقبال ڈوگرہ پولیس بولی سے نہیں بلکہ گولی سے کیا اور مرحوم افضل صاحب بھی اس دوران زخمی ہوئے۔ لوگ اس کتاب پر لازماً تبصرے کریں گے۔ میں قارئین کے سامنے صرف چندعینی واقعات رکھتا ہوں جن کے ارد گرد ہمارے اس وقت کے لیڈران نے اپنی خود غرضی اور انا کی تسکین کیلئے توہمات اورخرافات کا ایک حصار قائم کر دیا تھا۔مثلاً پوری تحریک صرف ایک ہی شخصیت کے نام وقف کی گئی،کسی اور لیڈرکو اُبھرنے نہیں دیا گیا۔مرحوم پیرافضل لکھتے ہیں:’’ یہ سراسر غلط ہے کہ کسی ایک فرد یا جماعت نے اللہ دین کے چراغ سے سب کام خود کئے اور آن واحد میں قوم کو تیار کیا۔‘‘اکثر سیاستدان اور اُن کے چیلے چانٹے اپنی شخصیت کے ارد گردایک طلسماتی دنیا کھڑی کرتے ہیں تاکہ اُن کی مقبولیت آناً فاناً بڑھ جائے۔ ۱۹۳۱ ء کی تحریک کے ساتھ ہی حالات کی مصلحت تھی کہ شیخ صاحب کی شخصیت کو طلسماتی بنایا جائے۔ چنانچہ یہ افواہ عام ہوگئی
پنہ وتھرن کیا چھُ لیکھتھ
شیر کشمیر زندہ باد
مخدومی صاحب نے اپنے چشم دید مشاہدے کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے خود اپنے محلے شہرخاص دری بل کے ایک سنارکے پاس ایک برگِ سبز دیکھا۔ تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ مذکورہ سنار نے اپنی کاریگری کو بروئے کار لاکر تیزاب کے عکس مخصوص پتوں پرڈالے کہ شیر کشمیر زندہ باد کانعرہ اُبھر آیا۔ آج کے سیاستدان کا بیانیہ بھی یہی ہے۔ ’’ ہر ہر مودی گھر گھر مودی ‘‘ ۔ میرے لڑکپن میںسرینگر کے کینگ خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ مرحوم محمد امین کینگ نے مجھے ایسا ہی واقعہ سنایا ہے کہ سرینگر کے نواب بازار سے گزرتے ہوئے نوجوانوں کی ایک ٹولی ہاتھوں میں درختوں کے سبز پتے لے کے لوگوں سے جبراً شیر کشمیر زندہ باد کہلواتے تھے۔اسی طرح مرحوم افضل مخدومی نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ سرینگر کے میرواعظ خاندان سے عقیدت رکھنے والے بعض لوگوں نے ۲۸؍ جولائی ۱۹۳۳ء کو ہفتہ وار ’’ اسلام‘ ‘اخبار نکالااور بحیثیت مدیر مولوی محمدامین کو متعارف کیا گیا لیکن اصلاً اخبار کے ادارئے کوئی کشمیری پنڈت لکھا کرتے تھے۔مخدومی صاحب جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا،گر چہ شیخ محمد عبداللہ کے عاشق اور وفادار تھے لیکن حقیقت بیان کرنے میں کو تاہی نہیں کی ہے۔ شیخ محمد عبدللہ نے اپنی خود نوشت ــ’’آتش چنار ‘‘ میں۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کے شہداء کے بار ے میں ایک اہم واقعہ لکھا ہے کہ ــ ’’ اتنے میں ایک زخمی نے جو جان کنی کی حالت میں تھا ،مجھے اشارے سے اپنے پاس بلا لیا اور اپنی نحیف آواز میں مجھ سے یوں مخاطب ہوا:’’ شیخ صاحب! ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے ،اب آپ کی ذمہ داری ہے قوم سے کہئے کہ وہ اپنا فرض نہ بھولیں ۔یہ الفاظ ادا کرتے ہی اس نے آخری ہچکی لی اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی ۔‘‘ آتش چنار (شیخ محمد عبداللہ)1986ایڈیشن صفحہ 96۔اب آپ مرحوم مخدومی صاحب کی شہادت سنئے :کہا جاتا ہے کہ کہ کسی شہید نے شیخ محمد عبداللہ کو بلا کر کہا تھا کہ ــ’’ہم نے اپنا فرض ادا کردیا اور اب یہ آپ کا فرض ہے کہ ملک کو آزاد کرانے میں جدوجہد کریں ۔یہ سلسلۂ کلام بھی اسی غلام نبی کلوال کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔بحیثیت عینی شاہد کے مجھے اس کا کوئی علم نہیں اورنہ اس وقت کسی اور سے سنا ــ۔‘‘ ۱۹۷۰ء کی ابتدائی دہائی میں جب کہ شیخ صاحب مقبولیت کے نصف النہار پر تھے لیکن افضل مخدومی نے اس مقبولیت سے خوفزدہ نہ ہوتے ہوئے سچائی کا دامن نہ چھوڑا اور ان توہمات کو طشت از بام کر دیا ۔مرحوم کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ محاذ رائے شماری میں بیگ ،مسعودی رسہ کشی میں ان کا رُجحان مرحوم مولانا مسعودی کی طرف تھا لیکن یہ قربت افضل صاحب کو اس بات کا انکشاف کرنے سے مانع نہ ہوئی کہ ابتداء میں مولانا مسعودی پر مرزائی خیالات ومعتقدات کا غلبہ تھا ۔حالانکہ بعد میں مولانا مسعودی احراریوں کی یلغار میں بہہ گئے اور مرزائیوں کو تحریک حریت کشمیر پر اثر انداز ہونے سے روکنے کیلئے ایک کلیدی رول ادا کیا۔ ۱۹۳۲ء سے ہی مسلمانان سرینگر کی کم نصیبی رہی کہ میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ اور شیخ صاحب کی چپقلش نے تحریک کو کمزور کیا ۔اس کی ذمہ داری بجاطور پر مرحوم مخدومی نے شہر خاص کے کچھ متمول اور مفاد پرست خاندانوں پر ڈالی ہے ۔فاضل مصنف نے اعتدال سے کام لے کر اگر ایک طرف میرواعظ کی تاویلات کو ہدفِ تنقید بنایا ہے ، وہیں پر اس انتشار میں شیخ صاحب کے غیر مصالحانہ رول کا برملا اظہار کرکے تاریخ نویسی سے کیا ہے ۔اسی طرح سے شیخ صاحب کے معتمد خاص بخشی غلام محمد کی شاطرانہ چال یعنی مولانا ہمدانی کو مولانا محمد یوسف شاہ کے خلاف اُبھارنے کی سازش بے نقاب کی ہے ۔مخدومی صاحب باوجود یکہ شیخ صاحب کی مسلم کانفرنس سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے دیانت سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ باہمی مفاہمت اور صلح صفائی کے لئے یہ طے ہوا تھا کہ اشتعال انگیز تقریر بازی سے اجتناب کیا جائے گا لیکن شیخ صاحب متفق نہ ہوئے ۔ اگر اختلاف مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کے متنازعہ فیصلے پر ہوا ،پھرپوچھا جا سکتا ہے کہ مسلم کانفرنس وجود میں ہونے کے باوجود آزاد مسلم کانفر نس کی تشکیل کیوں ہوئی ؟
اگر چہ مصنف کو بخشی غلام محمد نے ۱۹۵۳میں قید و بند کیا اور بعد میں سازش کیس میں بھی ملوث کیا لیکن یہ ذاتی اشتعال مصنف کو بخشی غلام محمد کی تحریک کے دوران انتظامی قابلیت کا مظاہرہ کرنے کے عمل کا اعتراف کرنے سے نہ روک پایا۔فاضل مصنف نے ایک اور انکشاف کیا ہے کہ تحریک پر شیخ محمد عبداللہ کی گرفت اور متعلق العنانی کو قائم ودائم رکھنے کے لئے انہوں نے ابتدائی برسوں میں تحریک کے اپنے کئی رفقا کو ملازمت کے چکر میں پھنسا کر اپنے آنے والے مسابقین کو میدان سے ہٹا دیا ۔فاضل مصنف نے اپنے رہنما کی انسانی کمزوری کو طشت از بام کیا ہے ۔پچھلے کئی سالوں سے یہاں کے کئی سیاست دان خصوصاْ الحاق نواز کشمیری پنڈتوں اور جموں کے بارے میں حق گوئی سے اجتنا ب کرتے ہوئے نہایت ہی منافقانہ رول ادا کرتے ہیں ۔مخدومی صاحب نے جہاں تحریک کے دوران کچھ نامزد کشمیری پنڈت اہلکاروں کے کشمیری مسلمانوں کے تیئں تعصب اور ظلم ونفرت کو بے نقاب کیا ہے اور کشمیری پنڈتو ں کا ظلم کا ساتھ دینا ،ٹکٹکی کی سز ا موقوف ہونے پر کشمیری پنڈت ترجمان ’’مارتنڈ ‘‘میں تنقید کو بے نقاب کیا ہے ،وہیں نیک اور رحم دل کشمیری پنڈتوں کی سراہنا بھی کی ہے ۔تحریک کے دوران خصوصاً نیشنل کانفرنس کے قیام کے بعد شیخ محمد عبداللہ اس بات کا ڈھنڈورہ پیٹتے تھے کہ کانگریس نے ہمیشہ کشمیر کی تحریک کی حمایت کی لیکن مصنف نے پنجاب کے اردو مسلم پریس اور پنجاب کے مسلمانوں کی تحریک سے والہانہ وابستگی کو نمایاں طور پر اُجاگر کیا ہے اور کانگریسی پریس کی منافقانہ اور بددیانتی پر مبنی رول کو بے نقاب کیا ہے ۔مصنف کے یہ مشاہدات اور تجربات پڑھنے کے بعد آج دلی کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بد نما شبیہ آنکھوں کے سامنے رقصاں ہوجاتی ہے کہ اس کے پیچھے اصلاًکون سی ذہنیت کا رفرماہے ۔مصنف نے کشمیری مسلمانوں کی مالی کمزوری کو اُجاگر کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ لاہور کے پنجابی مسلمان خصوصاً کشمیری نژاد افرادکس طرح ریاستی مسلم نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو بڑھاوا دینے کے لئے ان کی مالی اعانت اور امداد کرتے تھے ۔اس سلسلے میں انہوں نے کئی ایسے خاندانی نوجوانوں کا ذکر کیا ہے جو کشمیر کمیٹی کے مالی تعاون سے استفادہ کرکے بیرون ریاست خصوصاً لاہور وغیر ہ میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے چلے گئے لیکن جب ملازمتوں پر تعینات ہوئے تو وہ قرض حسنہ ادا کرنے سے مکر گئے ۔مصنف نے ان حضرات کے نام لکھ کے (جوکہ اُس وقت بڑے عہدوں پر یہاں براجمان تھے )جرأت اظہار کا ثبوت دیا ہے ۔آج کل ہم جیسے مصلحت پسند لوگ ایسی باتوں کاحوالہ اشاروں اور کنایوں میں ہی دیتے ہیں ۔
دنیا کی ہر تحریک آزادی میں جو لوگ حکمرانِ وقت کی انتظامیہ چلانے کے لئے ملازمت اختیار کر تے رہے، وہ اپنی محنت و مشقت کا محنتانہ ضرور پاتے لیکن ان انتظامی چہروں میں نیک لوگوں کا وہ طبقہ بھی موجودہوتا جو دل ہی دل میں دبے کچلے عوام کے ساتھ اپنے آپ کو جذباتی طور منسلک پاتے ۔پیر افضل صاحب لکھتے ہیں کہ تحریک کے ان ابتدائی ایام میں چونکہ ہر کام اخلاص اور ملی جذبے کے تحت سر انجام پاتا تھا ،اس لئے سی آئی ڈی اور مخبری کے کام کو ’’ قتل عمد ‘‘ کے برابر سمجھا جاتا تھا ۔مصنف چونکہ گوشت پوست کا آدمی تھا، ان سے یہ اُمید رکھنا کہ جو کچھ بھی انہوں نے کتاب میںلکھا ہے اس کے ساتھ ہر قاری متفق ہو ،یہ بعیداز حقیقت بات ہوگی ۔ان کی تصنیف میں شیخ محمد عبداللہ مرکزی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ شیخ صاحب ایک موقع پر تحریک کو منجدھار میں چھوڑ کے مزید تعلیم کے لئے لندن جانا چاہتے تھے ۔ بہر کیف شیخ صاحب کا اس تصنیف میں مرکزی کردار ہونا قابل فہم ہے ،البتہ ایک جانب انہوں نے شیخ صاحب کو مرکزی موضوع بحث بنایا ہے، دوسری جانب شیخ صاحب کی اپنے رفقاء اور ناقدین کے ساتھ عدم رواداری کو اُجاگر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی ہے ۔تحریک میں شیخ صاحب ان کا ہیروہے لیکن ہیرو کی ازدواجی زندگی جو کہ موجودہ مغربی تنقیدی معیارات کے مطابق کھلے طور تحقیقات کا موضوع بننا چائیے تھا ، مخدومی صاحب نے اس کے برعکس شیخ صاحب کے نکاح کو سرسری طور بیان کیا ہے۔زندگی کے آخری دور میں فاضل مصنف محاذ رائے شماری میں بیگ مسعودی گروپ کی سیاسی رسہ کشی میں مولانا مسعودی کے قریب تھے۔اس لئے محترم ٹینگ صاحب نے اپنے دیباچہ میں صحیح طور پر اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ مصنف نے اپنی تحریر میں مرزا محمد افضل بیگ کا تحریک حریت میں رول نمایاں طور اُجاگر نہیں کیا ہے ۔بحیثیت مجموعی ہر کشمیری پڑھے لکھے کو خاص طور پر نوجوانوں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چائیے ۔ نیز کتاب کے مرتب کو اس کا انگریزی ترجمہ کروانے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے تاکہ آج کی نسل اس کتاب میں شامل معلومات سے مستفید ہو جائیں ۔
اس کتاب کا عنوان’’ کشمیرخواب ،عذاب ،سراب ‘‘ہے ۔اردو کے ادنیٰ طالب علم اورتاریخ تحریک آزادی ٔکشمیر اور دنیا کی تحاریک آزادی اور ان کے نتائج کی کچھ علمیت رکھنے والے طلب علم کی حیثیت سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ عنوان اس کتاب کی نفس ِ مضمون سے ہم آہنگ نہیں ہے بلکہ لفظ سراب ممکنہ طور لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے گا ۔بحیثیت مجموعی یہ کتاب تاریخ تحریک آزادی کشمیر کے نشیب وفراز اور سرووگرم پر آج تک ہوئیں مرقومات میں ایک شاندار اضافہ ہے ۔
نوٹ :اس کتاب کا رسم اجرا ء’ جی کے فاؤنڈیشن ‘ایک اہم قومی فریضہ کے طور کر رہی ہے۔