کشمیر کی نسل کشی لگاتارجاری ہے ۔کشمیر کا چپہ چپہ انسانی خون سے تر بہ تر ہے اور شوپیان اور سرینگر میں پیش آئے تازہ ترین خونین واقعات اس بات کے گواہ ہیں۔ تادم تحریرسرینگرسے شوپیاں تک ایک مرتبہ پھر ایک درجن کشمیریوں کوجابحق کردے گئے ۔ اس سے جہاں پوراخطہ کشمیر مبتلا ئے الم ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مہربانوں نے برطانوی سامراج کے جنرل ڈائر کے ہاتھوںجلیانوالہ باغ کے قتل عام سے کوئی سبق بھی حاصل کیا؟ کیاجلیانوالہ باغ قتل عام کے بل پر انگریزہندوستان کواپنی جبری گرفت میں رکھ سکایااُسے بالآخرہندوستان کی عوامی تحریک کے سامنے سپراندازہو ناپڑا۔اربابِ حل وعقد کوجنرل ڈائر کی سفاکیت کی تاریخ پڑھ لینی چاہئے اوراس پراپنے نیتائووں کے ریمارکس بھی دیکھ لینے چاہیئں۔یہاں جلیانوالہ باغ کی سرگذشت اس لئے ضروری ہے تاکہ کشمیر کو میدان جنگ میں تبدیل کر نے والے نیتایہ سمجھ سکیں کہ زور ِ بازو ،ریاستی جبر یا بندوق کی نوک سے کسی قوم کو ہمیشہ کے لئے اپنے سیاسی حقو ق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اتریخ شاہد عادل ہے کہ13 اپریل1919 ء کو شام ساڑھے پانچ بجے امرتسر کی سڑکوں سے ہوتے ہوئے دو بکتر بند گاڑیاں جلیاں والا باغ کے قریب ایک پتلی سی گلی کے سامنے رُکیں۔ گاڑیاں آگے نہیں جا سکتی تھیں کیونکہ وہاںراستہ اس قدرتنگ تھاجس پر صرف دو لوگ ہی ایک ساتھ گزرسکتے۔ایک گاڑی پر بریگیڈیئر جنرل ریجنلڈ ڈائر اپنے میجر مورگن برگز اور اپنے دو برطانوی سارجنٹ اینڈرسن اور پزی کے ساتھ سوار تھے۔گاڑی سے اُترتے ہی انہوں نے رائفلوں سے لیس25 گورکھا اور 25 بلوچ فوجیوں کو اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا اور صرف کھکھری سے لیس 40 فوجیوں کو باہر ہی کھڑے رہنے کے لیے کہا گیا۔اس سے پہلے جب وہ ہال بازار کے سامنے سے گزر رہے تھے تو ان کے دماغ میں چل رہا تھا کہ اگلے چند منٹوں میں وہ کیا فیصلہ لینے والے ہیں۔جنرل ڈائر نے ہنٹر کمیٹی کو بتایا تھا: ’’جیسے ہی میں گاڑی میں بیٹھا میں نے طے کر لیا تھا کہ اگر میرے احکامات پر عمل نہیں ہوا تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے گولی چلوا دوں گا‘‘۔
جنرل ڈائر نے باغ میں داخل ہوتے ہی میجر برگز سے پوچھاکہ آپ کے اندازے میں کتنے لوگ اس وقت یہاں پر موجود ہیں؟برگز نے جواب دیاتقریبا پانچ ہزار۔ اس وقت سٹیج پر ایک بنک کلرک برج بیال اپنی نظم’’فریاد‘‘سنا رہے تھے۔اسی اثناء میں ایک ہوائی جہاز بھی بہت نیچی پرواز کرتے ہوئے جلسے کے اوپر سے حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔ فوجیوں کو دیکھتے ہی کچھ لوگ وہاں سے گھبرا کر اُٹھنے لگے۔ تبھی سبھا کے ایک آرگنائزر ہنس راج نے چلا کر کہا:’’انگریز گولی نہیں چلائیں گے اور اگر چلائیں گے بھی تو گولیاں خالی ہوں گی‘‘جنرل ڈائر نے بغیر کسی انتباہ کے 30 سیکنڈ کے اندر اندرچلاّتے ہوئے حکم دیا’’فائر‘‘ اور فوجیوں نے گولیاں چلانی شروع کر دیں۔بعد میںجنرل ڈائر نے پنجاب کے چیف سیکریٹری جے پی ٹامسن کو بتایا کہ گولی چلانے کا فیصلہ کرنے میں مجھے صرف تین سیکنڈ لگے۔ اس آوپریشن میں موجود دو گورکھا فوجیوں سے ایک آئی ایس افسر جیمز پی ڈی نے ان کے تجربات کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا:’’ صاحب جب تک گولیاں چلیں، بہت اچھا رہا۔ ہم نے اپنے پاس ایک بھی گولی بچا کر نہیں رکھی‘‘1964 میں ’’ٹائمز لٹریری فیسٹیول‘‘میں سارجنٹ اینڈرسن کا ایک خط شائع ہوا تھا جس میں بتایا گیا کہ’’ ری لوڈنگ‘‘ کے دوران جب گولیاں چلنا بند ہوئیں تو اس دوران ایک افسر پلومر نے ڈائر سے کہاکہ ہم نے بھیڑ کو ایسا سبق سکھایا ہے جسے وہ زندگی بھر نہیں بھولے گی ۔۔۔ڈائر نے بالآخر فائرنگ تب رکوائی جب اسے لگا کہ فوجیوں کے پاس بہت کم گولیاں بچی ہیں۔لارڈ ہیلی پیپرز میں اس بات کا ذکر ہے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ جنرل ڈائر نے پلٹ کر اپنے ایک ساتھی سے پوچھاکہ تمہیںلگتا ہے کہ اب کافی ہو گیا ہے؟ہنٹر رپورٹ کے مطابق، ڈائر نے اندازہ لگایا کہ تقریبا 200 سے 300 افراد ہلاک ہو گئے ہوں گے، لیکن بعد میں اس نے تسلیم کیا کہ مرنے والوں کی تعداد 400 سے 500 کے درمیان تھی۔انسانی خون کی بو پا کر کچھ آوارہ کتے جلیاں والا باغ پہنچ گئے اور پوری رات انہوں نے ادھر ادھر بکھری لاشوں کو نوچ کھایا۔جب ڈائر، مورگن اور ارون نے رات ساڑھے دس اور آدھی رات کے درمیان شہر کا دورہ کیا تو شہر مکمل طور پر ساکت و خاموش تھااور وسیع وعریض باغ میں زخمی لوگ آہستہ آہستہ دم توڑ رہے تھے، اور پورے شہر پر سوگواری کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔
آج کے ہندوستان کے بانی جواہرلال نہرو نے اپنی سوانح عمری میں لکھاکہ 1919 ء کے اخیر پر میں رات کی ٹرین سے امرتسر سے دہلی آ رہا تھا۔ صبح مجھے پتہ چلا کہ میرے ڈبے کے سارے مسافر انگریز فوجی افسر تھے۔ ان میں سے ایک آدمی بڑھ چڑھ کر اپنی بہادری کے قصے بیان کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی مجھے پتہ چلا کہ وہ جلیاں والا باغ والا جنرل ڈائر تھا۔وہ آگے لکھتے ہیں کہ وہ بتا رہا تھا کہ کس طرح اس نے پورے باغی شہر کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھالیکن اس قتل عام کے باوجودجنرل ڈائر کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔20؍اپریل1920 ء کوجنرل ڈائر انگلینڈ کے لیے روانہ ہوا، جہاں سات سال بعد 23ولائی،1927ووہ مر گیا۔1947میںہندوستان برطانوی سامراجیت سے آزادہوگیا۔ہندوستان کوآزادہوتے وقت جنرل ڈائرزندہ ہوتے توشائداپنے سفاکانہ کرداروعمل پرافسوس کرکے بول پڑتے کہ قوموں کی آزادی جبرکی بنیادپرسلب نہیں کی جاسکتی۔تاریخ بتلاتی ہے کہ جلیاں والا باغ کے قتل عام کے بعد، پنجاب کے سنگرور ضلع کے سنام گائوں میں پیدا ہونے والے ایک نوجوان شخص نے اس کا انتقام لینے کی قسم کھائی۔اس نوجوان ادھم سنگھ کو وہ قسم پورا کرنے میں 21 ؍سال لگ گئے۔ 13 ؍مارچ 1940 کو لندن کے یسٹن ہال کے ایک اجتماع میں اس نے اپنی پستول سے ایک کے بعد ایک چھ فائر کیے۔دو گولیاں وہاں موجود ایک شخص کو لگیں، وہ وہیں پر گر گیا اور پھر کبھی نہیں اٹھا۔ اس کا نام تھا سر مائیکل او ڈائر۔وہ جلیاں والا باغ قتل عام کے وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھا اور اسی نے جنرل ڈائر کی طرف کی جانے والی فائرنگ کو ایک صحیح قدم بتایا تھا۔
اس تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوء اب کشمیر کا رُخ کریں اور خود سے یہ سوال کریں کہ کیا وجہ ہے محمد عیسیٰ فاضلی اور محمد رفیع بٹ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل وباصلاحیت نوجوان عسکریت کا راستہ اختیارکیوں کرتے ہیں ؟ عیسیٰ کے تعلیم یافتہ گھر انے میں کیا کمی تھی؟ محمد رفیع بٹ کشمیر یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تھے ، انہوں نے کیوںسب کچھ تج دے کرایک مشکل اوردشوار زندگی اختیارکرلی اور صرف36 گھنٹے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے؟۔کیاان حقائق کی موجودگی میںبھی دل کے اندے اور دماغ کے کورے لوگ کشمیر کاز کو بے روزگاری کا سمجھنے کی بھول کریں گے یا اسے ایک حل طلب سیاسی مسئلہ سمجھ کر اس کے منصفانہ حل کی وکالت کر یں گے ؟ یہ مسئلہ کشمیر کو حل نہ کر نے کے بجائے ظلم وتشدد کی بھٹیاں گرمانے کا شاخسانہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عسکریت کی پُرخطر صفوں میں شمولیت اختیارکرتے جارہے ہیں۔وہ تحقیقی مقالہ (THESIS)جس پرپروفیسرڈاکٹرمحمدرفیع بٹ کوکشمیریونیورسٹی حضرت بل سے پروفیسر ڈاکٹرمحمدسلیم جہانگیرکی زیرنگرانی عمرانیات میں ڈاکٹریٹ کی سندفراغت ملی اور یہ اعلیٰ تعلیمی اعزاز ملا فیس بک پراَپ لوڈ ہے اور بتاتا ہے کہ ڈاکٹرمحمدرفیع بٹ جیسے اسکالر بھی کشمیر کاز پر خوشی خوشی قربان ہور ہے ہیں تاکہ اہل کشمیر کا سیاسی غم کافور ہو اور ایک آزاد و خوش حال کل کا خواب پورا ہو ۔ ڈاکٹرمحمدرفیع کایہ تعلیمی اعزا زپوری دنیاکی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراناچاہتاہے کہ کوئی تووجہ ہے کہ ڈگری اورعہدے کو چھوڑ کرکوئی کیوں خارزار وں کاانتخاب کرتاہے ۔یہ بات خم ٹھونک کر کہی جاسکتی ہے کہ محمد عیسٰی فاضلی اور ڈاکٹررفیع کوکشمیرکے لاتعداد جلیانوالہ باغوں نے ہی اس راہ ِ ایثار کی طرف دھکیلا ،اس کے علاوہ ان کا کوئی اور ذاتی مقصد نہیں تھا ۔
کشمیر یونیورسٹی میں تعینات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ ولد عبدالرحیم ساکن ژھندن گاندربل جمعہ کو یونیورسٹی سے4مئی کو’’ لاپتہ ‘‘ہوگئے تھے اوراتوار6مئی2018کو شوپیان جھڑپ میں جاں بحق ہوگئے۔سوشیالوجی میں پی ایچ پی ڈی کے بعد محمد رفیع یونیورسٹی میں کنٹریکچول اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے۔ یہ32 سالہ اسکالر شادی شدہ تھے۔ بعینہٖ23 کے محمد عیسیٰ فاضلی باباغلام شاہ یونیورسٹی میں بی ٹیک کے ہونہار اور شریف الطبع طالب علم تھے اور دونوں کا اختتامِ زندگی ایک جیسے حالات میں ہو ا اور اپنے پیچھے یہ پیغام چھوڑا کہ کشمیر حل تاریخ کی ایک ناگزیر ضرورت ہے چاہیے آپ جابجا قبرستان بنابناکر اسے کتنی ہی دیر ٹالتے رہیں ۔ غور طلب ہے کہ ڈاکٹر محمد رفیع بٹ نے شوپیان جھڑپ کے دوران اپنے والد کو آخری مرتبہ فون کرکے ان سے معافی مانگی اور جاں بحق ہوگئے۔ بتا یاجاتا ہے کہ’’ لاپتہ‘‘ ہونے کے بعد یہ ڈاکٹر رفیع کی یہ پہلی کال تھی۔ان کے والد کے مطابق اتوار علی الصبح فون کی گھنٹی بجی اور رفیع بات کرنے لگا۔انہوں نے والد سے کہا مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں نے آپ کی خدمت نہ کرسکا ، اب میں اللہ تعالیٰ سے ملنے جارہا ہوں۔ ایک دینی گھرانے میں آنکھ کھولنے کے سبب ڈاکٹر محمد رفیع بچپن سے ہی اسلامی طرز زندگی کا حامل تھا۔پانچ سال قبل ان کی لال بازار سرینگر میں شادی ہوئی اور ایک بچے کے والد تھے ۔ان رشتوں سب کوتج دے کر محض 36گھنٹے سرفروشوں کی صف میں شامل ہونے والا یہ اسکالربڈی گام امام صاحب شوپیان میں اپنے دیگرساتھیوں صدام احمد پڈرو، توصیف احمد شیخ، بلال مولوی، عادل احمدکے ہمراہ جان بحق ہوگئے۔صدام پڈر ہف شرمال کا رہنے والا تھا اور قریب 4سال سے عسکری کمانڈر تھے۔ صدام نے25ستمبر 2014 میں ہتھیار اٹھائے اور برہان وانی کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔بہت تیز دماغ والے صدام نے برہان وانی کے بعد وچی اور شوپیان علاقے میں بڑی تیزی کے ساتھ اپنے قدم جمائے اور انہیں عسکری منصوبہ ساز کہا جاتا تھا۔ برہان ہی کی طرح وہ بھی سوشل میڈیاپرچھائیرہتے۔دوماہ قبل سرینگر سینٹرل جیل سے نوید جھٹ نامی جو عسکریت پسند فرار ہو، کہا جاتا ہے ا س کا منصوبہ صدام نے بنایا تھا۔ عادل احمد ملک ولد نذیر احمد ملک ساکن ملک گنڈ شوپیان نے صدام سے قبل ڈیڑھ ماہ یعنی 7؍اگست 2014 ء کوعسکریت میں شمولیت اختیار کی تھی۔بلال احمد مہند عرف بلال مولوی ولد محمد یوسف ساکن ہف شرمال نے10؍نومبر 2016 ء کو ہتھیار اٹھائے۔توصیف احمد شیخ ولد عبدالسلام شیخ ساکن رام پور کولگام ان سب میں سینئر تھے جنہوں نے23؍نومبر 2013 ء کو ہتھیار اٹھائے اور گذشتہ 5سال سے انتہائی سرگرم تھے ۔ کولگام علاقے میں وہ جنوبی کشمیر کے ان کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے ۔شوپیاں کی زیر بحث جھڑپ کے دوران فورسز کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوانوں پر فورسز اہلکاروں کی فائرنگ اور چھروں کے استعمال سے زخمی ہونے والوں میںسے40زخمی نوجوانوں کو سرینگر کے صدر اسپتال منتقل کیا گیا ۔ شوپیاں سے صدر اسپتال سرینگر منتقل کئے گئے 35زخمی نوجوانوں میں12گولیاں لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے جب کہ 28نوجوان پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے ، ان میں 12؍کی آنکھوں میں پیلٹ لگے ہیں۔ بڈی گام شوپیان میں مظاہرین کو ایک بار پھر گولیوں کا نشانہ بنایا گیااور 5مظاہرین کی زندگی گل ہونے پر اختتام پذیر ہوئی۔ فورسز کی اندھا دھند فائرنگ سے قریب 130؍شہری زخمی ہوئے جن میں 5کی تادم تحریر موت واقع ہوئی۔جاں بحق ہونے والوں میں 16سالہ دسویں جماعت کا طالب علم زبیر احمد ننگرو ولد محمد رجب ننگرو ساکن آئین گنڈ راجپورہ پلوامہ،18سالہ طالب علم آصف احمد میرولد غلام محمد میر ،دسویں جماعت کاطالب علم نصیر احمد کمار ولد غلام محمد کماراور 20 سالہ نوجوان سجاد احمد راتھر ولد منظور احمد ساکن سہہ پورہ ڈورو اورعادل احمدشامل ہے۔ برستی بارش و بندشو ں کے باوجود ہزاروں لوگوں نے ہلاک شدہ نوجوانوں کی نماز جنازہ میں شرکت کر کے شہید قبرستان میں سپرد خاک کیا ۔ اس سے قبل 5مئی 2018ہفتے کو شہرخاص سری نگر صفا کدل میں اس وقت کہرام مچ گیا جب فورسزکی بکتربند گاڑی نے مظاہرہ کررہے نوجوان کو ٹائر کے نیچے لاکر کچل ڈالا ۔ 21 سالہ رضوان احمد دیگرنوجوان علاقے میں ہوئی جھڑپ میں تین عسکریت پسندوں کے جان بحق ہونے پر اپناغم وغصہ کا اظہار فورسز پر پتھراؤ سے کررہے تھے۔اس موقع پررضوان کوکس بہیمانہ طریقے سے گاڑی کے نیچے لاکرکچل ڈالاگیاسوشل میڈیاپراس کی ویڈیووائرل ہوئی تولوگ اپنے آنسو پلکوں کی چھاؤں میں روک نہ سکے۔ رضوان کی موت کو پہلے پولیس ترجمان نے بلا تکلف سڑک حادثہ قرارا دیا مگر جب ویڈیو وائرل ہوئی اور لوگوں کو پولیس کی جبر وزیادتی کا آنکھوں دیکھا حال معلوم پڑا تو حکومت نے بکتر بند گاڑی کے ڈرائیور کو معطل کر کے انکوائری کا رسمی اعلان کیا۔ قبل ازیں چھتہ بل سرینگر میں ایک معرکے میں تین عسکریت پسندکام آئے تھے جن میں سے ایک کی شناخت فیاض احمد حمال ساکنہ فتح کدل سرینگر کے بطور ہوئی ہے۔فیاض احمدنے اپریل 2017میںعسکری تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی تھی اوروہ ایک فعال رکن کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، جب کہ ایک اور جان بحق عسکریت پسند پلوامہ کا مطلوب ترین لشکر کمانڈر تھے ۔رضوان کوفورسزکی بکتر بندگاڑی کے نیچے لاکرکچلنے سے راشٹریہ رائفلز کے میجر گگو ئی کا وہ دست تظلم یاد آگیا جب بیروہ میں فاروق احمد ڈارکوجمعہ14؍اپریل2017 کو فوجی جیپ کے ساتھ اس وقت باندھا گیاکہ جب یہ نوجوان پولنگ بوتھ سے الیکشن بائیکاٹ کے باوجود ووٹ ڈال کر گھر واپس آرہاتھا، اُسے راستے میں ہی راشٹریہ رائفلز کی34؍ ویںبٹالین کی ایک گشتی پارٹی نے پکڑ کر شدید مارپیٹ کی ، اور بعدازاں اسے ایک فوجی جیپ کے بانٹ کے ساتھ باندھ کر دن بھر درجنوں دیہات میں اسی حالت میںگھمایا گیا تاکہ لوگ یہ منظر دیکھ خوف اور ڈر کے مارے سہمے سہمے گھروں میں رہیں ۔ یہ فلمی منظر کشمیر میں نئے جنرل ڈائروں کے جدت طراز مظالم کی داستان سرائی کر گیا تو پوری مہذب دنیا میں ہاہاکار مچی اور کشمیر میں حقوق البشر کی صریحی وناقابل برداشت خلاف ورزیوں پر دلی کو موردالزام ٹھہرایا ۔ ا س میں دوائے نہیں کہ ایک ہاتھ کشمیر کا مسئلہ لٹکائے رکھنا اور ودسرے ہاتھ ظلم و ستم اور جبرو زیادیتوں کے مناظر کا روز مرہ تسلسل و ہ دوجوہ ہیں جن کے دباؤ میں آکر کشمیری نوجوان تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق عسکریت
کی راہ اپنانے پر مجبور کئے جارہے ہیں ،اوپر سے شوپیان کی آسیہ ونیلوفر اور کھٹوعہ کی آصفہ جیسی کر یہہ الصورت داستانیں کشمیر کو ایک جہنم زار بنائے ہوئی ہیں ۔ یادرکھئے اس سب کے باوجود نوشتہ دیوار یہ ہے کہ کشمیری قوم کی قربانیاں اورکشمیریوں کی پامردی ایک دن روز ضرور رنگ لائیں گی چاہے مظلومان ِ وطن کو کتنے ہی جنرل ڈائروں کا سامنا کر نا پڑے یا اور آگ اورخون کے کتنے ہی دریا پار کرنے پڑیں ؎
ثابت قدم ہوں ضبط ِالم کے محاذ پر
ٹوٹا ہوا ضرور ہوں ہارا نہیں ہوں میں