اِکز اِقبال
کبھی کبھی زندگی کی سب سے بڑی ناکامی یہ نہیں ہوتی کہ ہمیں روزگار نہیں ملتا، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ ہم انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں — اُس وقت کا، اُس موقع کا، اُس نوکری کا جو شاید کبھی آ ہی نہ سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دن قسمت دستک دے گی اور ہمیں عزت، آرام اور شہرت کے ساتھ’’اچھی نوکری‘‘ مل جائے گی۔ مگر افسوس! زندگی اُن کے ساتھ چلتی ہے جو اُٹھ کر چلنے لگتے ہیں، نہ کہ اُن کے ساتھ جو بیٹھ کر خوابوں کے محل بناتے ہیں۔
آج کی یہ باتیں اُن نوجوانوں کے نام ہے جن کے ہاتھوں میں ڈگری ہے مگر دل میں تذبذب، ذہن میں انتظار اور جیب میں خالی خواب۔ جن کے سامنے اُن کے والدین کی قربانیاں ایک عہد کی طرح کھڑی ہیں — مگر وہ “اچھی نوکری” کے فریب میں عملی زندگی کے میدان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔یاد کیجیے وہ دن جب آپ کے والد صبح سویرے مزدوری کے لیے نکلتے تھے۔ کبھی سرد ہوا میں، کبھی تیز دھوپ میں۔ کبھی اینٹیں اُٹھاتے، کبھی مزدوروں کے ساتھ کام بانٹتے۔ آپ کی ماں نے بھی گھر کے کاموں میں اپنے ہاتھوں کے چھالوں کو کبھی شکایت نہیں بننے دیا۔ اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ’’کون سا کام عزت دار ہے‘‘ بلکہ یہ سوچا کہ ’’کون سا کام گھر کا چولہا جلا سکتا ہے۔‘‘
اُن کے پسینے کی بو میں محبت تھی، اُن کے تھکے بدن میں عزت تھی، اُن کے زخموں میں قربانی تھی۔انہوں نے آپ کو پڑھایا، پالا، بڑا کیا — اس امید پر کہ ایک دن آپ اُن کی محنت کا بدلہ عزت و خدمت سے چکائیں گے، نہ کہ بے عملی کے انتظار سے۔اب سوال صرف اتنا ہےکہجب اُنہوں نے انتظار نہیں کیا تو آپ کیوں کر رہے ہیں؟
ڈگری رکھنا کافی نہیں :آج بھارت جیسے ملک میں ڈگری یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگاری کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
Periodic Labour Force Survey (PLFS) کے مطابق 2022-23 میں گریجویٹس کی بے روزگاری کی شرح 13.4 فیصد رہی۔یہ اعداد و شمار محض نمبر نہیں، بلکہ ایک تلخ حقیقت ہیں — کہ تعلیم یافتہ ہونا اور روزگار یافتہ ہونا دو الگ باتیں ہیں۔مزید یہ کہ حالیہ اقتصادی سروے کے مطابق صرف 51.25 فیصد بھارتی گریجویٹس ہی ’’ملازمت کے لیے تیار‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔یعنی آدھی سے زیادہ نسل وہ ہے جو ڈگری تو رکھتی ہے، مگر مہارت، عملی علم اور تجربے کی کمی کی وجہ سے مارکیٹ کے قابلِ قبول نہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ تعلیم بےکار ہے — بلکہ یہ کہ تعلیم کی بنیاد پر خواب دیکھنا کافی نہیں، عمل بھی ضروری ہے۔ہم میں سے بیشتر نوجوانوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ’’مواقع کی کمی‘‘ نہیں بلکہ ’’انتظار کی عادت ‘‘ہے۔ہم سوچتے ہیں کہ بس ایک بہتر موقع مل جائے تو زندگی بن جائے گی۔ مگر یہ سوچ ہی ہمارے لیے زوال کا دروازہ کھول دیتی ہے۔
معاشرہ بھی اس فریب میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ہر کوئی آپ سے توقع رکھتا ہے کہ آپ کی نوکری بڑی ہو، آفس شاندار ہو، کرسی آرام دہ ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عزت کرسی سے نہیں، کردار سے بنتی ہے۔
جب آپ محنت سے کماتے ہیں — چاہے وہ مزدوری ہو، چھوٹا کاروبار ہو یا کسی اسٹور پر نوکری — آپ خود کو نہیں، بلکہ اپنے والدین کے خوابوں کو عزت دیتے ہیں۔کام کی کوئی ذات نہیں ہوتی۔ یہ تصور کہ کچھ کام ’’چھوٹے‘‘ہوتے ہیں، صرف ان لوگوں نے پیدا کیا ہے جو خود کام سے بھاگتے ہیں۔آپ کے والدین نے کبھی یہ سوال نہیں کیا کہ’’یہ کام عزت دار ہے یا نہیں‘‘، انہوں نے بس یہ سوچا کہ’’یہ کام ایمان دار ہے یا نہیں۔‘‘لہٰذا چاہے آپ کسی ورکشاپ میں ہوں، دکان پر، کھیت میں یا کسی آن لائن پلیٹ فارم پر — یاد رکھیں، ہر جائز کام عبادت ہے۔دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ Artificial Intelligence، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، اِنٹرپرینیورشپ، اور فری لانسنگ جیسے شعبے نوجوانوں کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔آج کسی بھی سمارٹ فون والا نوجوان گھر بیٹھے اپنے ہنر سے آمدنی حاصل کر سکتا ہے۔لیکن شرط یہ ہے کہ وہ انتظار نہ کرے، بلکہ سیکھنے اور کوشش کرنے کی جرات کرے۔ایک رپورٹ کے مطابق، جن نوجوانوں نے اپنی بنیادی ڈگری کے ساتھ کوئی اضافی ہنر سیکھا، ان میں سے 73 فیصد کو بہتر روزگار کے مواقع ملے۔
تو سوال یہ نہیں کہ’’نوکری کہاں ہے؟‘‘سوال یہ ہے کہ’’میں نے خود کو کتنا قابل بنایا ہے؟‘‘اگر بازار آپ کو فوراً قبول نہیں کرتا، تو اپنا راستہ خود بنائیں۔چھوٹے کاروبار، سروس ورک، آن لائن تعلیم، یا کسی ہنر کی تربیت — سبھی راستے رزقِ حلال کے دروازے ہیں۔ہر آغاز چھوٹا ہوتا ہے، مگر مسلسل محنت سے بڑا بنتا ہے۔جو آج ایک ریڑھی والا ہے، وہ کل دکان دار بن سکتا ہے، جو آج فری لانسنگ کرتا ہے، وہ کل کمپنی چلا سکتا ہے۔اصل طاقت آپ کی نیت اور عمل میں ہے — نہ کہ معاشرتی سند یا بڑے دفتر کے سائن بورڈ پر۔
معاشرتی تاثر اور حقیقت کا فرق:ہم نے کامیابی کا معیار سماجی تاثر کے تابع کر دیا ہے،’’اچھی نوکری، بڑی تنخواہ، گاڑی، فلیٹ، برانڈڈ کپڑے۔‘‘لیکن اگر انہی چیزوں کی خاطر آپ اپنے والدین کے خواب بھول جائیں، تو پھر کامیابی کا یہ ماڈل خود فریب کے سوا کچھ نہیں۔یاد رکھیں، معاشرہ متاثر ہونے میں دیر نہیں لگاتا، بھولنے میں بھی نہیں۔
اس لیے اپنی زندگی معاشرتی تاثر کے لیے نہیں، بلکہ اپنی ذمہ داری کے احساس کے لیے جئیں۔آپ کے والدین کی عزت آپ کے بینک بیلنس میں نہیں، آپ کے کردار میں پوشیدہ ہے۔کسی بھی دستیاب کام سے شروعات کریں۔ ابتدا چھوٹی ہو، مگر نیت بڑی۔ نئی مہارت سیکھیں۔ چاہے وہ کمپیوٹر ہو، مارکیٹنگ، یا کوئی چھوٹا ٹریڈ۔ ماہانہ بجٹ بنائیں۔ اپنے گھر کی ضروریات سمجھیں، اخراجات پر نظم پیدا کریں۔ والدین سے بات کریں۔ اُن کے احساسات کو جانیں، اُن سے رہنمائی لیں۔ خود کو متحرک رکھیں۔ روز کچھ نہ کچھ نیا سیکھیں، محنت کریں، آگے بڑھیں۔زندگی کا سب سے بڑا دھوکا ’’کل‘‘ ہے۔کل میں کچھ کروں گا، کل میں شروع کروں گا، کل اچھا موقع ملے گا — مگر کل ہمیشہ آج سے شروع ہوتا ہے۔آپ کے والدین نے کل کا انتظار نہیں کیا تھا۔انہوں نے پسینہ بہایا، محنت کی، اور آج آپ کو عزت دی۔اب آپ کی باری ہے کہ اُن کے فخر کو واپس لوٹائیں۔
اٹھیں، کوشش کریں، کچھ بنیں۔معاشرہ خود متاثر ہو جائے گا، اگر آپ اپنے گھر والوں کے لیے کارآمد بن گئے۔کیونکہ عزت ڈگری سے نہیں، کردار سے پیدا ہوتی ہے۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]