اِکز اِقبال
ہر معاشرے میں کچھ رویّے ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر معمولی دکھائی دیتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ ہمارے اجتماعی شعور کو بدلتے چلے جاتے ہیں۔ ہم کبھی ان پر باقاعدہ غور نہیں کرتے، لیکن یہ اندازِ فکر، یہ روزمرّہ کی خفیف سی عادتیں، رفتہ رفتہ ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری خاندانی زندگی، حتیٰ کہ ہمارے اخلاقی ڈھانچے تک کو شکل دیتی رہتی ہیں۔ کوئی بھی سماج ایک دن میں بگڑتا نہیں اور نہ ہی ایک دن میں بنتا ہے،بگاڑ اور بہتری دونوں ایک مسلسل عمل کا نام ہیں۔ ہم اکثر سمجھتے ہیں کہ بڑے بحران کسی اچانک حادثے کا نتیجہ ہوتے ہیں، حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ بحران ان چھوٹی چھوٹی دراڑوں سے جنم لیتے ہیں جو برسوں تک ہمارے رویّوں، ہمارے فیصلوں، ہماری ترجیحات اور ہمارے اجتماعی غفلت نامے میں جڑی رہتی ہیں۔ آج کا انسان معلومات کے طوفان میں تو زندہ ہے مگر سچائی، ایمانداری اور اجتماعی ذمہ داری کے چہرے اُس گھٹن میں گم ہو رہے ہیں جسے ہم نے خود اپنے اعمال سے پیدا کیا ہے۔ یہ تحریر اِنہیں باریکیوں، اِنہیں دراڑوں اور اِنہیں غلط رجحانات پر روشنی ڈالنے کی ایک کوشش ہے جو ہماری روزمرّہ کی زندگی میں پیوست ہو چکے ہیں اور جنہیں پہچانے بغیر ہم کوئی بڑی اصلاح نہیں کر سکتے۔
بات ہمارے نوجوانوں کی ہیں ۔ ان نوجوانوں کے اندر بے کنار انتشار کا شور ہے۔ یہ نوجوان جنہیں کبھی مستقبل کا چراغ سمجھا جاتا تھا، آج ان میں سے بہت سے چراغ بجھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،نہ یہ نسل کمزور ہے، نہ بے ہنر۔مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سمت دینے والے سب خاموش بیٹھے ہیں۔
آن لائن دنیا۔خواہشوں کا بازار، حقیقتوں کی قبرستان:
یہ دور ڈیجیٹل ہے، اتنا تیز، اتنا چمکتا، اتنا فریب لئے ہوئے کہ نوجوان کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیںناممکن ہو گیا ہے۔ آج کا نوجوان ایسے دور میں جی رہا ہے جہاںکامیابی کی پیمائش محنت سے نہیں، اسکرین کی لائکس سے ہوتی ہے۔ جہاں ’’تُرنت نتیجہ‘‘ نہ ملنے پر مایوسی آ جاتی ہے۔ شارٹ کٹ اب شوق نہیں، مسلسل دباؤ کا نتیجہ ہے۔
معاشی بے یقینی، نوکریوں کا بحران، سماجی توقعات اور آن لائن ’’کامیابی کے قصے‘‘ نوجوان کے دل میں ایک مصنوعی آگ بھڑکاتے ہیں۔ وہ دوڑنے لگتا ہے، اس سمت میں جس کے آخر میں اکثر مایوسی، فریب اور ٹھگی اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔آن لائن بزنس، فینٹسی گیمز، ڈیجیٹل انکم والے کورسز، اسکیمنگ نیٹ ورکس،یہ سب اس نوجوان کے لئے دلکش نہیںبلکہ اس کی بے بسی کا اعلان ہیں۔یہ تلاشِ رزق نہیں،تلاشِ سہارا ہے۔
نوجوان کا ذہن خاموش مگر بھرا ہوا:
دنیا کے سامنے نوجوان مسکراتا ہے، تصاویر بناتا ہے، سیلفیاں اَپلوڈ کرتا ہے، مگر اس کے اندر ایک بھاری خلا ہے۔ایسا خلا جو نہ نظر آتا ہے اور نہ وہ کسی کے سامنے کہہ پاتا ہے۔ یہ دور ’’اظہار‘‘ کا ہے، مگر عجیب بات یہ ہے کہ انسان پہلے سے زیادہ ’’خاموش‘‘ ہو گیا ہے۔ وہ اپنے دل کی بات اسکرین سے کہتا ہے اور اسکرین اسے کبھی نہیں سمجھ پاتی۔یہ تنہائی سب سے بڑا نشہ ہے اور شاید سب سے خطرناک بھی۔
منشیات کا بڑھتا ہوا عذاب۔ خواہش نہیں درد کے علاج کی کوشش:
کشمیر میں منشیات کا پھیلتا ہوا جال صرف چند نوجوانوں کی نااہلی نہیں،یہ پورے سماج کی غفلت کی سزا ہے۔ منشیات کے اعداد و شمار جو رپورٹوں میں آتے ہیں،وہ اصل کہانی کا صرف ایک ٹکڑا ہیں۔ اصل کہانی وہ ہے جوگھر کے کمروں میں، کالجوں کے بینچوں پر اور دوستوں کی محفلوں میں خاموشی سے پھیلتی ہے۔ نوجوان منشیات اس لئے نہیں لیتا کہ اسے ’’فیشن‘‘ کا شوق ہے، وہ اِس لئے لیتا ہے کہ مستقبل کی بے یقینی اسے اندر سے کھا رہی ہوتی ہے۔اُسے لگتا ہے کہ اس کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ کہ کوئی راستہ نہیں کہ کوئی اُمید نہیں۔نشہ صرف جسم کو نہیں مار رہا ہے، یہ نسل کے اندر اعتماد کی موت لکھ رہا ہے۔ نشے کے پیچھے اصل دشمن ’’ڈیلر‘‘ نہیں، اصل دشمن وہ احساسِ تنہائی ہے جس سے نوجوان روز لڑتا ہے۔
سوشل میڈیا۔ جوڑنے آیا تھا، ٹوٹ پھوٹ دے گیا :
سوشل میڈیا اکیسویں صدی کا ’’محبوب ترین نشہ‘‘ ہے۔ یہ پلیٹ فارم نوجوان کو شہرت دیتا ہے مگر سکون نہیں، دوست دیتا ہے مگر رفاقت نہیں، مصروفیت دیتا ہے مگر مقصد نہیں۔
ریلز، سوچنے کی صلاحیت چھین رہی ہیں۔اسنیپ اسٹریکس، تعلقات کو عدد بنا چکی ہیں۔لائکس خودی کو گرانے کا پیمانہ بن چکے ہیں۔نوجوان گھنٹوں اسکرین پر نظریں گاڑے رہتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے سامنے سے گزرتی ہوئی زندگی کو دیکھ ہی نہیں پاتا۔ یہ نشہ کسی پاؤڈر سے کم نہیںبلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ ذہن کو آہستہ آہستہ حساسیت سے محروم کر دیتا ہے۔
اخلاقی اقدار کا زوال ۔ محبت، وقار اور ذمہ داری کا بحران :
یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ نوجوان اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ مگر کیا کسی نے یہ دیکھا کہ ان کی اخلاقیات کی تربیت کس نے کرنی تھی؟ نوجوان کو غلط راستہ دکھانے والے بہت ہیں،صحیح راستہ دکھانے والے کم۔اخلاقیات کتابوں سے نہیں آتیں، گھروں میں پروان چڑھتی ہیں۔ لیکن جب گھر خود بے یقینی، تشویش اور بے سکونی کا شکار ہو تو نوجوان سے کیسے توقع کی جائےکہ وہ مضبوط رہے گا؟یہ صرف نوجوان کا نہیں، ہمارے پورے سماج کا بحران ہے۔تعلیم وہ عمارت جس کے ستون اندر سے کھوکھلے ہو رہے ہیں۔
کشمیر میں تعلیم اب ایک ’’رسم‘‘ ہوتی جا رہی ہے۔ بچے اسکول جاتے ہیں، امتحان دیتے ہیں، ڈگریاں لیتے ہیں، مگر ان کے اندر ہنر نہیں، سمت نہیں اور مقصد نہیں۔
تعلیم صرف ڈگری دینے کا نام نہیں، تعلیم وہ ہے جو سوچنے کی قوت پیدا کرے، فیصلے کرنے کی ہمت دےاور معاشرے کو سمت دے۔ ہماری تعلیم نوجوان کو کتابوں کا بوجھ تو دیتی ہے، مگر زندگی کا شعور نہیں دیتی۔جب نوجوان ڈگری ہاتھ میں لے کر بازارِ روزگار میں پہنچتا ہے اور اسے دروازے بند ملتے ہیں، تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی ٹوٹے دل سے نشہ، مایوسی اور بے سمتی جنم لیتی ہے۔
نوجوان ۔ کمزور نہیں مگر بے سمت ضرور ہیں:
یہ درست ہے کہ نوجوان آج شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کمزور ہیں؟نہیں!اصل بات یہ ہے کہ نوجوان طاقتور ہیں،لیکن انہیں اس طاقت کا استعمال سکھانے والا کوئی نہیں۔یہ نسل اپنے اندر جذبہ، ہنر، طاقت اور ارادہ رکھتی ہے۔ بس انہیں یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ قابلیت رکھتے ہیں۔نوجوان اگر بھٹک رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے سامنے روشنی نہیں رکھی گئی۔
حل۔ نوجوانوں کی بحالی نہیں نوجوانوں کے اعتماد کی تعمیر :
اس بحران کا حل جذباتی تقریروں میں نہیں، یہ حل حکومتی اعلانات میں بھی نہیں، یہ حل لائکس اور شیئرز والے فیصلہ کن جملوں میں بھی نہیں۔ اس بحران کا حل عمل میں ہے۔
(۱—) نوجوانوں کو عزت دار روزگار چاہیے۔ نوجوان جب اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا، تو غلط راستوں کے پیغامبر خود ہی خاموش ہو جائیں گے۔
(۲) تعلیم کو کتابوں سے نکال کر زندگی سے جوڑیں۔ ہنر، تحقیق، تخلیقی سوچ، اندر سے اعتماد پیدا کرتی ہیں۔
(۳) — خاندانوں میں گفتگو کا آغاز دوبارہ ہو ۔ نوجوانوں کو نصیحت نہیں، سماعت اور محبت چاہیے۔
(۴) — سوشل میڈیا کے شور میں نوجوان کی اپنی آواز سنائیں۔ یقین، اخلاق اور خودی کی تربیت صرف گھروں میں پیدا ہوتی ہے۔
(۵) — نوجوانوں کو دشمن نہیں، سرمایہ سمجھیں۔ قومیں اپنے نوجوانوں سے لڑ کر نہیں بنتیں، نوجوانوں کے ساتھ کھڑے ہو کر بنتی ہیں۔
امید کا وہ چراغ جو بجھتا نہیں:
میں اکثر سوچتا ہوں کہ کشمیر کے نوجوان آخر اتنے آسیب میں کیوں گِھر گئے ہیں؟ پھر میں دیکھتا ہوں کہ ان کے اردگرد کتنی غیر یقینی ہے، کتنی تیز رفتار زندگی ہے، کتنی توقعات ہیں، کتنا دباؤ ہے۔بچے نہیں جیسے کوئی کندھوں پر سماج کا پورا بوجھ اٹھائے کھڑا ہے اور اسی لمحے دل کہتا ہے،نوجوان کمزور نہیں، یہی تو سب سے زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔اگر انہیں سمت، محبت اور یقین دیا جائے، تو یہی نوجوان کشمیر کا مستقبل ہی نہیںبلکہ کشمیر کی نجات بن سکتے ہیں۔یہ وادی صرف برف اور پہاڑوں سے حسین نہیں،اس کی اصل خوبصورتی اس کے نوجوانوں کے دل، ارادوں اور خوابوں میں چھپی ہے۔ بس انہیں ٹوٹنے سے پہلے تھام لیا جائے اور بھٹکنے سے پہلے سمت دے دی جائے۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
(رابطہ۔ 7006857283)
[email protected]