بلال فرقانی
سرینگر// ضلع پلوامہ میں دریائے جہلم کے کنارے پر واقع واکھو کاکہ پورہ ، جسے ’پنسل گاؤں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس وقت شدید خام مال کے بحران کا شکار ہے۔ یہ گاؤں برسوں سے بھارت کی پنسل سازی کی صنعت کا مرکز رہا ہے اور ملک میں تیار ہونے والی تقریباً 90 فیصد پنسلیں یہیں سے تیار ہوتی ہیں۔ تاہم سفیدوں کی کمی نے اس صنعت کو زوال کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔سفیدے کی لکڑی پنسل بنانے کے لیے بنیادی خام مال ہے۔ سرینگر سے20کلو میٹری کی دوری پرواکھو میں خواتین اور مرد مزدور دن رات محنت کرکے لکڑی کے موٹے گٹھوں کو باریک تختوںمیں تبدیل کرتے ہیں، جنہیں بعد میں مختلف ریاستوں، بشمول جموں اور چندی گڑھ کے کارخانوں میں بھیجا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں سفیدے کے درختوں کی بے تحاشا کٹائی نے اس صنعت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔سال 2020 میں جموں و کشمیر حکومت نے تقریباً 42 ہزار روسی ؎سفیدے درختوں کو کاٹنے کا حکم دیا تھا، جنہیں اس وقت سانس کی بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ تاہم ماہرجنگلات جنید قیوم کے مطابق ’’اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ سفیدے درخت بیماری پھیلاتے ہیں بلکہ درخت انسانی صحت کے لیے مفید ہیں‘‘۔واکھو پلوامہ کے کاریگرمحمد لطیف ڈار کے مطابق ’’ایک سفیدہ کو مکمل طور پر تیار ہونے میں تقریباً 20 سال لگتے ہیں۔ اگر حکومت تیزی سے بڑھنے والی اقسام یا اجتماعی شجرکاری کا منصوبہ نہیں بناتی تو یہ صنعت چند برسوں میں ختم ہوسکتی ہے‘‘۔مزدوروں کا کہنا ہے کہ سردیوں کے دوران خام مال کی قلت بڑھ جاتی ہے، جس کے باعث کئی دن تک کام بند رہتا ہے۔ پہلے جہاں اوکھو میں 17 پنسل یونٹ کام کرتے تھے اور 2 سے 3 ہزار مزدور روزگار پاتے تھے، اب صرف 9 فیکٹریاں رہ گئی ہیں۔ایک فیکٹری میں کام کرنی والی 37 سالہ دلشادہ کا کہنا ہے ’’ہم میں سے زیادہ تر غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کام ہماری واحد روزی روٹی ہے‘‘۔نسیمہ بیگم، جو کئی برسوں سے اسی فیکٹری میں کام کر رہی ہیں، نے تشویش ظاہر کی ’’فی دس درختوں میں صرف ایک درخت لگایا جاتا ہے۔ اس شرح سے شجرکاری نہ ہونے پر یہ صنعت ختم ہو جائے گی۔‘‘پنسل سازی کا یہ کام نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کی معیشت کے لیے بھی اہم ہے۔ محمد لطیف کے مطابق، ’’ہمارے یہاں بننے والی پنسلیں تقریباً 85 ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔ بھارت میں استعمال ہونے والی ہر تین پنسلوں میں سے دو اوکھو میں تیار ہوتی ہیں۔‘‘مقامی لوگوںکے مطابق، اگر حکومت فوری طور پر بڑے پیمانے پر پاپلر درختوں کی شجرکاری کا منصوبہ نہیں اپناتی تو ’’پنسل گاؤں‘‘ کا یہ اعزاز کھو سکتا ہے، جس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو جائیں گے اور ایک تاریخی ہنر اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔