بلا شبہ اس سال ماہِ اگست کے دوران جموں و کشمیرمیں زمینی و آسمانی آفتوں نے جو قہر برپا کیا ،وہ انتہائی تباہ کُن اورالمناک ہے۔موسمی قہر سامانیوں نے جہاں جموں و کشمیر کے کئی علاقوں کے لوگوں کو مالی و جانی نقصانات سے دوچار کرکے زبردست مصائب و آلام میں ڈال کر بے کس و بےبس کردیا ہے، وہیں کشمیر کے دو اہم شعبوں باغبانی اور زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔جنوبی اور وسطی کشمیر کے کچھ علاقوں میں موسمی قہر سامانی نے سینکڑوں کنال پر پھیلے ہوئے میوہ باغات میں تباہی مچادی اور دھان کی تیار فصل کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا اور ستم بالائے ستم کہ کشمیر کے میوہ تاجروں و مالکان باغات کا تیار شدہ میوہ مال خصوصاًسیب وغیرہ،جوکہ مال بردار گاڑیوںمیں لادکر بیرون ِریاستوں تک پہنچاناتھا ،جموں سرینگر قومی شاہراہ تواتر کے ساتھ آمدورفت کے لئےبند رہنے کی وجہ سےمال بردار گاڑیوں میںسَڑ کر تلف ہوگیا ،جس کے سبب ہزاروں کروڑ روپے مالیت کا نقصان ہوچکا ہےاور تاحال جموں و سرینگر قومی شاہراہ آمدورفت کے لئے نامکمل ہے،جس کی خبریں روازنہ اخبارات کے ذریعے عوام تک پہنچ رہی ہیں۔جس سے یہ بات تقویت پارہی ہےکہ جموں و کشمیر کی ڈبل انجن سرکار کی کارکردگی انتہائی ناقص اور غیر ذمہ دارانہ رہی ہے۔ظاہر ہے وادیٔ کشمیر میں پھلوں کی صنعت،کشمیر کی معیشت کا ایک اہم ستون ہے بلکہ ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اور یہ صنعت لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔
سالانہ اگست سے لیکر دسمبر تک وادی کشمیر سے لاکھوں میٹرک ٹن سیب، ناشپاتی، خوبانی، اخروٹ اور دیگر میوہ جات ملک کی مختلف منڈیوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔پہلے پہل یہ پھل مقررہ وقت پرمال بردار گاڑیوں کے ذریعےبنا کسی رکاوٹ کے ملک کی مختلف منڈیوں تک آسانی سے پہنچ جاتے تھے، جبکہ بعض اوقات جموں سرینگر قومی شاہراہ ناقص موسمی حالات کے تحت چند دنوں تک مسدود ہوجاتی تھی ،جس کے باعث میوہ بیوپاریوں کو معمولی نوعیت کا نقصان اٹھانا پڑتا تھا،لیکن گذشتہ چند برسوں سےغیر یقینی موسمی حالات میںاس شاہراہ کو آمدروفت کے لئے بحال رکھنے میں جو صورت حال دیکھنے میں آئی،وہ انتہائی افسوس ناک و تشویش ناک ہے۔اس بارقریباً ایک ماہ گذرنے کو آرہا ہے ،لیکن مرکزی دائرہ اختیار میں جموں و کشمیر کی یہ قومی شاہراہ تا حال دوطرفہ ٹریفک کے لئےناقابل آمدورفت ہے۔جس پر یہاں کے وزیر اعلیٰ یہ کہنے تک مجبور ہوگئےکہ مرکزی حکومت کو یہ شاہراہ جموں و کشمیر کی منتخبہ حکومت کے حوالے کرنی چاہئے تاکہ وہ مقامی سطح پر اسے مکمل طور پر آمدورفت کے لئےفعال بنا سکیں۔
اگرچہ مرکزی حکومت نےمیوہ بیوپاریوں کو کسی حد تک راحت پہنچانے کے لئےگذشتہ روز ایک پارسل ٹرین بھی چلائی ،جوکہ ایک قابل قدر اقدام ہے تاہم محض ایک ٹرین چلانے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، بلکہ اس ٹرین کو مستقل بنیادوں پر چلانے کی ضرورت ہے،کیونکہ اکثرخراب موسم ، پسیاں گِر آنے یا پتھر کھِسکنےکے باعث سرینگر جموں قومی شاہراہ اچانک بند ہو جاتی ہے، جس سے سیبوں سے لدی ہوئی مال بردار گاڑیاں کئی روز تک درماندہ رہتی ہیں،گاڑیوں میں لدے سیب کی کوالٹی بھی خراب ہو جاتی ہے اور کاشتکاروں، تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے،جبکہ سیبوں کی فصل کو کشمیر سے باہر کی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے مناسب متبادل راستوں کی بھی کمی ہے۔اس لئے مرکزی و جموں و کشمیرکی حکومتوں کے لئے لازم ہے کہ وہ کشمیر میں سیب کی صنعت کو بچانے،اسےدرپیش مسائل کو دور کرنے ،متاثرہ باغ مالکان و میوہ تاجروں کو امداد فراہم کرنے اور قبل از وقت اس میوہ صنعت کو تحفظ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں۔ میوہ صنعت نہ صرف کشمیر بلکہ پورے بھارت کی معیشت کا اہم حصہ ہے، کیونکہ بھارت میں سب سے زیادہ سیبوں کی پیداوار، تقریباً 75 فیصدکشمیر میں ہی ہوتی ہے۔ یہاں سالانہ تقریباً 20 سے 22 لاکھ میٹرک ٹن کی پیداوار ہوتی ہے اور 35 لاکھ لوگوں کا روزگار براہ راست اس سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح یہ صنعت کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،جبکہ بعض تاجروں کے مطابق عالمی منڈیوں تک معقول رسائی نہ ہونے اور حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث جموں و کشمیرکو سالانہ اربوں روپے کی آمدنی دلانے والی یہ صنعت کسی بھی وقت زوال پذیر ہوسکتی ہے،قبل اس کے ایسی صورت حال سامنے آئے،اس پر بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔