عارف شفیع وانی
کشمیر کی لائف لائن یا شہ رگ سمجھے جانے والے دریائے جہلم کو سیوریج کے بہاؤ اور کچرے کے ڈھیر سے پیدا ہونے والی آلودگی کی وجہ سے سنگین ماحولیاتی خطرے کا سامنا ہے۔جنوبی کشمیر کے ویری ناگ سے نکلنے والا جہلم 175مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہےجو جنوب سے شمالی کشمیر تک ناگ کی شکل میں گھومتا ہے۔ اس دریا کو چار ندیوں سے پانی ملتا ہے جن اننت ناگ ضلع میںسندرن، برنگ، ارپتھ اور لدرشامل ہیں۔ان کے علاوہ ویشوا ور رمبی آراجیسی چھوٹی ندیاں بھی دریا کو تازہ پانی فراہم کرتی ہیں۔یہ دریا ضلع بارہمولہ سے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) میں بہنے سے پہلے ولر جھیل میں سموتا ہے۔جہلم نہ صرف پینے اور آبپاشی کے مقاصد کے لئے پانی فراہم کرنے کیلئے بلکہ بنیادی طور پر اضافی پانی کو نکالنے کر کشمیر کو سیلاب سے بچانے کےلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
چند دہائیاں پہلے تک مناسب سڑکوں کی عدم موجودگی میں جہلم شمال سے جنوبی کشمیر تک نقل و حمل کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر کام کرتا تھا۔ کسی بھی ضابطے کی عدم موجودگی میں دریا کے کناروں پر بتدریج تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے۔ غیر منظم اور وسیع پیمانے پر ریت نکالنے کے سلسلہ نے دریا کے نباتات اور جمادات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔جہلم جنوبی سے شمالی کشمیر تک تمام نالیوں سے نکلنے والی بدروکی براہ راست آمد سے آلودہ ہو رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس بنانے کے بجائے، یکے بعد دیگرے حکومتوں نے تمام بدرو نالیوں کو دریا میں ڈالنے کےلئے پمپنگ سٹیشن بنائے۔
حکام کی جانب سے کچرے کو درست طریقے سے جمع کرنے اور اسے سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانے میں ناکامی نے جہلم کو تیرتے کوڑے دان میں تبدیل کر دیا ہے۔ کئی ٹن کچرا بشمول پولی تھین اور پلاسٹک جیسی تلف نہ ہونے اشیاء کو خاص طور پر سوپور اور بارہمولہ میں دریا میں پھینکا جاتا ہے۔ جہلم مردہ جانوروں کا آخری ٹھکانہ بن چکا ہے۔ دریا کے کسی بھی حصے پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی جانوروں کے مردہ ڈھانچے تیرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ماہرین ماحولیات یہ اعلان کرنے کے لجئے مبہم الفاظ کا سہارا نہیں لیتے کہ حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے تباہی کی وجہ سے جہلم اپننے اندر پانی سمونے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ جہلم نے ستمبر 2014 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے دوران اپنا بدلہ لیا جس نے کشمیر میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ 7 ستمبر 2014 کو ہونے والی مسلسل بارشوں کے بعد جہلم نے رام منشی باغ گیج میں ریکارڈ 23 فٹ سے تجاوز کیا تھا، جب کہ سنگم میں یہ سطح 36 فٹ سے تجاوز کرگئی تھی جس کے نتیجہ میں جنوبی کشمیر سے سری نگر تک دریا کے دونوں کناروں پر واقع علاقے ڈوب گئے۔اندازوں کے مطابق تقریباً 120,000 کیوسک کاسیلابی پانی جہلم کے اندر پانی سمونے کی صلاحیت سے پانچ گنا زیادہ تھا۔
لیکن اس سیلاب سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ نو سال گزرنے کے باوجود دریا کے پانی کے بہاو کو بڑھانے کے لئے پائیدار اور سائنسی اقدامات غائب ہیں۔ چند روز کی بارش کے بعد بھی جہلم خطرے کے نشان پر پہنچ جاتا ہے۔ ضابطے کی عدم موجودگی میں جہلم کے سیلابی میدانوں میں پچھلی کئی دہائیوں میں بے دریغ تعمیرات ہوئی ہیں۔جہلم کے بائیں اور دائیں طرف کی آبی پناہ گاہیں سیلابی پانی کے ذخائر کے طور پر کام کرتی تھیں۔ تاہم پچھلی پانچ دہائیوں میں، زیادہ تر آبگاہیںبنیادی طور پر زرعی زمین یا کنکریٹ لینڈ سکیپ میں تبدیل ہونے کی وجہ سے اپنے اندر پانی سموپانے کی صلاحیت کھو چکی ہیں ۔جہلم کے سیلابی میدانوں میں ماحولیاتی طور پر اہم آبی پناہ گاہیں جیسے ہوکرسر، بمنہ ویٹ لینڈ، نارکرہ ویٹ لینڈ، بٹہ مالو نمبل، رکھ آرتھ، آنچار جھیل اور گلسر تیزی سے تجاوزات اور شہری کاری کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہیں۔ آب گاہوںکی تباہی نے سیلاب کے پانی کو جذب کرنے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے جس کے نتیجہ میں جہلم پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
20آبگاہیں، جو جہلم کے سیلابی میدانوں کا حصہ تھیں، گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران ص طور پر سری نگر کے جنوب میں شہری کالونیوں کے نیچے دب چکی ہیں۔ اب جہلم بپھر رہا ہے۔ اس سال 16 ستمبر کو جہلم میں پانی کی سطح 14 ستمبر کو سنگم گیج پر 0.09 فٹ کی نچلی ترین سطح پر گر گئی جو کہ 70 سال میں سب سے کم ہے۔ اوسطاًاس عرصے کے دوران جہلم میں برف پگھلنے کی وجہ سے سب سے زیادہ بہاؤ رہتاتھا۔ یہ وہی عرصہ تھا جب کشمیر کو اپنے تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
وادی کشمیر ہمالیہ میں سیلاب کے سب سے زیادہ خطرہ والے خطوں میں سے ایک ہے۔ پہاڑوں سے گھرا کشمیر صدیوں سے مسلسل سیلاب کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اس نے 1903، 1929، 1948، 1950، 1957، 1959، 1992، 1996، 2002، 2006، 2010 میں سیلاب دیکھا اور آخری سیلاب 2014 میں آیا تھا۔
ہائیڈرولک انجینئرا عجاز رسول، جنہوں نے جہلم پر وسیع مطالعہ کیا تھا، نے دریا کے تحفظ کےلئے سائنسی مداخلت کی سفارش کی ہے۔ اعجاز کہتے ہیں’’جہلم میں 2014 کے سب سے زیادہ سیلاب نے آب گیری علاقہ سے بہت زیادہ گاد نکالا اور ساتھ ہی گاؤں کے مکانات، پلوں اور دیگر ڈھانچے کا ملبہ جہلم اور ولر جھیل میں جمع ہوا‘‘۔
اعجاز ولر جھیل کے لئے جامع مینجمنٹ ایکشن پلان کی تشکیل کے لئے ویٹ لینڈز انٹرنیشنل – جنوبی ایشیا کے ساتھ واٹر مینجمنٹ کے ماہر تھے۔یہ جہلم میں تیز بہاؤ کے دوران سیلاب کو جذب کرنے او رپانی کم ہونے کی مدت میں پانی چھوڑنے کےلئے ولر جھیل کے ویٹ لینڈ فنکشن کو بحال کرنے کے لئےضروری تھا۔اعجاز مزید کہتے ہیں’’مزید برآں بانڈی پورہ اور سوپور قصبوں میں پیدا ہونے والے ٹھوس فضلہ کو سنبھالنا ابھی تک سائنسی انتظام سے عاری ہے حالانکہ CMAPمیں اس کاتصور کیا گیا تھا۔جہلم کے دونوں کناروں پر واقع شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کا مائع اورٹھوس فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے براہ راست دریا میں جاتا ہے۔ اس سے دریا اور ولر جھیل کے پانی کے معیار پر منفی اثر پڑتا ہے کیونکہ جھیل کے پانی کا 80 فیصد بہاؤ جہلم کا حصہ ہے‘‘۔
کئی سال پہلے جہلم ایکشن پلان اعجاز کے ذریعے چار قصبوں اننت ناگ، سری نگر، سوپور اور بارہمولہ کے لیے مشترکہ طور پر تیار کیا گیا تھا تاکہ ان شہروں اور قصبوں کے سیوریج کو روکنے، موڑنے، منتقل کرنے اور اسے ایس ٹی پیز میں ٹریٹ کیا جا سکے۔ اس سے صرف علاج شدہ فضلے کو جہلم میں واپس آنے دیا جاتا۔اس پروجیکٹ کو حکومت ہند نے منظوری دی تھی لیکن ابھی تک فنڈنگ اور عملدرآمد کا انتظار ہے۔ ولر کے سی ایم اے پی نے جہلم ایکشن پلان میں دیگر شہروں اور قصبوں کو شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ یہ مشق بھی حکومت نے ابھی تک نہیں کی ہے۔
جہلم کی سائنسی ڈریجنگ کرنے کی ضرورت ہے جسے آب گیری پانی سے بڑے پیمانے پر گاد کا سامنا ہے۔1960 میں سویا-1 اور بادشاہ نامی دو مکینیکل ڈریجر اس وقت کے وزیر اعظم ہند پنڈت جواہر لعل نہرو کے ذریعہ سوپور سے بارہمولہ تک دریا کی کھدائی کےلئے افتتاح کرنے کے بعدکام پر لگائے گئے تھے۔ یہ ڈریجنگ 1986 تک جاری رہی جب ڈریجرز نے اپنی ڈیزائن کردہ زندگی مکمل کر لی۔ اس کے بعد 26 سال تک کوئی ڈریجنگ نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں دریا کے ساتھ ساتھ ولر جھیل بھی گاد سے بھرگیاجس کو پانی جہلم سے ملتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جھیل اپنی حجم کی صلاحیت کا 30 فیصد کھو بیٹھا۔
2014 کے سیلاب کے بعد حکومت ہند نے دریائے جہلم اور اس کی معاون ندیوں کے سیلاب کے جامع انتظام کے منصوبے کی منظوری دی۔ اس منصوبے کو وزیر اعظم کے ترقیاتی پیکیج کے تحت فنڈ کیا گیا تھا۔ دریائے جہلم کے فلڈ مینجمنٹ پلان کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جہلم کے اخراج کی صلاحیت کو 31,800 کیوسک سے بڑھا کر 60,000 کیوسک کرنے کے لیے پہلے مرحلے کے لیے 399 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی۔
1903 میں برطانوی انجینئروں نے جہلم کے آب گیرہ میں حصہ ڈالنے سے اوپر کی مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے گاد کے اثرات کو روکنے کے لئے ہنگامی دیکھ بھال کے اقدام کے طور پر دریا کے پشتے کو بڑھا کر اور سوپور سے بارہمولہ تک دریا کو ڈریج کرکے حل فراہم کیا۔
جہلم کے تحفظ کے لئے وافر فنڈز موجود ہیں، منصوبے پر عمل درآمد میں صرف عزم اور ولولہ نظر نہیں آتا۔ دریا کشمیر کی تاریخ، ثقافت کا ایک اہم حصہ رہا ہے اور ہمارے ماحول کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جہلم کے تحفظ کو ایک مشن کے طور پر لیا جانا چاہئے نہ کہ دوسرے ترقیاتی منصوبوں کے طور پر۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے وجود کا دارومدار جہلم پر ہے۔ یہ ہمارا سماجی اور مذہبی فرض ہے کہ ہم اپنی لائف لائن یعنی شہ رگ کی حفاظت کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے!
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیرکے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں۔)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)