فکرو فہم
غلام قادر جیلانی
کشمیر، جو اپنی بے مثال مہمان نوازی اور محبت بھری روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا تھا، آج غلط رسومات کے چنگل میں پھنس کر نہ صرف اپنی شناخت کھو رہا ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی زوال کا بھی شکار ہو رہا ہے۔ عیش و عشرت اور دکھاوے کی ان رسومات نے غریب اور متوسط طبقے کو شدید مالی بوجھ تلے دبا دیا ہے، جس سے معاشرتی ناہمواری اور رشتوں میں کھوکھلا پن بڑھ رہا ہے۔ ہمیں اپنی وراثت کو بچانے اور اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے ان فرسودہ رسومات کو ترک کرنا ہو گا۔
کشمیر میں خوشی کے مواقع پر نقد رقم اور تحائف دینے کی رسم ’’ورتاؤ‘‘ اب خالصتاً لین دین اور لالچ کی شکل اختیار کر چکی ہے، جہاں دینے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ واپسی پر اس سے زیادہ وصول کیا جائے۔یہ رواج رشتوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا سبب بن رہا ہے۔ ہمارے گاؤں شمناگ میں دو سگے بھائیوں کے بیچ رشتہ محض اس وجہ سے ٹوٹ گیا کہ ایک بھائی دوسرے کے برابر ’’ورتاؤ‘‘ نہیں دے سکا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک واقعہ یہ ہے کہ ایک گھر نے رشتہ صرف اس لیے توڑ دیا کیونکہ وارتاؤ کی رقم پہلے وصول کی گئی رقم کے برابر تھی۔ جب اس پر بات کی گئی تو جواب ملا: ’’ورتاؤ میں مجھے اتنی ہی رقم ملی جتنی میں نے اس سے پہلے دی تھی‘‘ اس وجہ سے میں نے رشتہ ہی توڑ دیا۔یہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ وارتاؤ نے محبت اور خلوص کو تباہ کر کے ہمارے تعلقات کو مالی حساب کتاب تک محدود کر دیا ہے۔ اگر ہم کسی غریب کی خوشی میں رقم یا تحفہ احسان کے بجائے خالص ہمدردی کے تحت پیش کریں تو نہ صرف خیر سگالی کا جذبہ بڑھے گا بلکہ غریب کو بھی احسان کا بوجھ محسوس نہیں ہو گا۔
دیکھا دیکھی اور اسراف کی دوڑ اب ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ غریب طبقہ بھی اب امیروں کی طرح بے جا رسومات پر اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے لگا ہے، جس کی وجہ سے وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں پنپ رہے یہ بُرے رسومات غریبوں کو اپنے ہی رشتہ داروں کی خوشیوں میں شریک ہونے سے روک رہے ہیں، کیونکہ غریب قیمتی تحفے خریدنے سے قاصر ہیں۔ ان کی غیر حاضری کو جان بوجھ کر کیا گیا عمل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اس کی اصل وجہ صرف مالی وسائل کی کمی ہے۔
کشمیر میں شادی پر خرچ ہونے والی رقم کئی لاکھ روپےسے تجاوز کر جاتی ہے، جس کا بڑا حصہ غیر ضروری رسومات پر صرف ہوتا ہے۔2019ء کے ایک مطالعے کے مطابق، صرف 3فیصد مسلمان خاندان شادی پر دو لاکھ روپے تک خرچ کرتے تھے، جبکہ 20 فیصد خاندانوں نے 12سے 20لاکھ روپے یا اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کی ہے۔2024ء میں یہ رجحان مزید بڑھا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ایک اعلیٰ درجے کی شادی پر ساٹھ لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی لاگت آ رہی ہے۔
اس مالی دباؤ کا ایک تلخ ثبوت فیاض احمد نامی شخص ہے، جسے اپنی بیٹی کی شادی کی رقم اکٹھا کرنے کے لیے اپنی چار کنال زرعی زمین میں سے دو کنال بیچنی پڑی۔
غلط رسومات کا بڑھنا دراصل پیسوں کے صحیح استعمال سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ ہم جو پیسہ بے لگام اسراف پر ضائع کرتے ہیں، اسے صحیح طریقے سے استعمال کرکے اپنا قیمتی سرمایہ بڑھا سکتے ہیں۔ کشمیر میں ہر سال شادیوں پر کروڑوں روپے درآمد شدہ میوہ جات اور مصنوعات پر لٹائے جاتے ہیں۔ ہمارا سرمایہ کاجو، بادام اور کشمش جیسے باہر سے آنے والے میوہ جات پر خرچ ہوتا ہے، جب کہ کشمیر کا اپنا اخروٹ، بادام، سیب اور ناشپاتی جیسے غزائیت سے بھرپور پھل نظر انداز کئے جاتے ہیں۔یہ طرزِ عمل نہ صرف ہماری مقامی معیشت کو تباہ کر رہا ہے بلکہ ہمارا سرمایہ دوسری ریاستوں کی طرف بہا رہا ہے۔ اس کا ثبوت باغبانی کی فی کس آمدنی میں نظر آتا ہے، کشمیر میں یہ 18250 روپے ہے، جب کہ پنجاب میں (جو مقامی فصلوں کا زیادہ استعمال کرتا ہے) یہ 29600 روپے فی کس ہے۔
اگر شادیوں پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی تعلیم، صحت یا مقامی کاروبار میں لگایا جائے تو اس سے بے روزگاری جیسے سنگین مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔فضول خرچی ہماری صحت کے اصولوں کو بھی نظر انداز کر رہی ہے۔ شادیوں کی تقریبات میں کھانے کا کوئی نظم و ضبط باقی نہیں رہا۔ رات گئے شادیوں کے تقریبات مہمانوں کو کولڈ ڈرنکس اور جوس جیسے غیر معیاری مشروبات دیے جاتے ہیں، جو حفظانِ صحت کے خلاف ہیں۔شادی بیاہ کی تقریبات میں رات کے بارہ بجے تک کھانے کا سلسلہ جاری رہنا نہ صرف ہماری صحت کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ یہ بات ہماری عقل و فہم سے بھی پرے ہے کہ ہم کیوں اس غیر فطری اور نقصان دہ رواج پر عمل پیرا ہیں۔ دیر رات کا کھانا ہمارے ہاضمے اور نیند کے نظام کو شدید متاثر کرسکتاہے۔انتظامیہ کو ان غلط رسومات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ شادیوں میں مضر صحت اشیاء، جیسے مصنوعی رنگ اور کیمیکلز کا استعمال فوراً بند کیا جانا چاہیے۔سخت قانونی سازی کے ساتھ ساتھ موثر اطلاقی نظام کو فعال بنانا اشد ضروری ہے۔چھاپہ مار کارروائیاں اور بھاری جرمانے عائد کرنا اس ضمن میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
آخر میں، یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ان بُری رسومات کا قلع قمع کریں۔ تب ہی ہمارے معاشرتی اقدار، جو صرف محبت اور خلوص پر منحصر ہیں، دوبارہ زندہ ہو سکیں گے اور ہماری معیشت بھی مستحکم ہو سکے گی۔
[email protected]