ندیم خان۔بارہمولہ
بے روزگاری ہمارے معاشرے کا ایسا روگ ہے جو بےشماربُرائیوں اور طرح طرح کے جرائم پھیلنے کا سبب بن رہا ہے ،اگر نوجوانوں کو اچھی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ بہتر روزگار بھی فراہم کیا جائے تو بُرائیوں اورجرائم کی شرح میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کل جس طرف نظر ڈالی جائے،ہر سُو بےروزگاری کا رونا رویا جارہا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی یہ بھی ہےجو نوجوان نسل نامور تعلیمی اداروں سے اپنی پڑھائی مکمل کرچکے ہیں،وہ بھی اپنے چہروںپر بے یقینی اور ناکامی کا لیبل (Label) سجائے ہوئے باہر آتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بہت سارے مسائل سے دوچار ہے۔ جن میں سے ایک مسئلہ ایسا ہے جو دوسرے کئی مسائل کو جنم دیتا ہے اور یہ مسئلہ بےروزگاری کا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کشمیر میں لاتعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بےروزگار ہے۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی دفاتر، بیشتر اعلیٰ اذہان نوکری کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اپنی حاصل کردہ ڈگریوں کو وہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔محنت کش والدین کی خون پسینے کی کمائی اور دوسرے وسائل کو بروئے کار لاکر نوجوانوں نے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کی تھی،مگرآج اُن کے لئے ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ وہ محض اپنا پیٹ بھی نہیں پال سکتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی زندگی اور فکر وسوچ پر کیا بیت رہی ہے، صرف وہی جانتے ہیں۔ اپنی زندگی کا بوجھ، ماں باپ کا بوجھ ہلکا کرنے کی فکر، بھائی ،بہنوںکی تعلیم اور انہیں آگے بڑھانے کا غم اور سماج کے توقعات پر کھرا اُترنے کا عمل، ہر باشعور تعلیم یافتہ نوجوان کو بے چینی کے عالم میں ڈال چکا ہے۔اُسے کہاں سکون میسر ہوگا اور وہ کب تک اپنے کمزور اور ناتواںوالدین کی محدود کمائی پر پلتا رہے گا؟ وہ کب اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا خواب دیکھتا رہے ہوگا؟ کب وہ اپنے والدین کو سہارا دینے کے قابل بنے گا اور کب وہ اپنی کمائی سے اُنہیں کوئی راحت دلائے گا،کب وہ اپنے بہن بھائیوںکی تعلیم دلانے اور اُنہیں خوشیاں دلانے کا فرض پورا کرے گا؟
ایسے کتنے ہی سوالات ہیں جو آج کے تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈر نوجوانوں کی زندگیوںاندر ہی اندر ایک سانپ ڈَس رہے ہیںاور اُن کی جوانیوں کو بد سے بدتر بنا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں زیادہ تر نوجوان اب مایوسی اور ذہنی تناؤ کے شکار نظر آرہے ہیں۔ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھی ایک خاصی تعدا د ہے جنہیں بے کاری نے جسمانی طور پر انتہائی خستہ کرکے رکھ دیا ہے،اور وہ محنت و مشقت کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گئے ہیں۔گویا وہ جسمانی طور پرمعذورافراد میں شامل ہوچکے ہیں۔حق تو یہی ہےکہ ذہین اور باشعور تعلیم یافتہ نوجوان،اپنے گھریلوں حالات ،اور مستقبل کی فکر میں وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہوجاتا ہے،اس کے ارمانوں کا خون ہوجاتا ہے اور وہ دن بہ دن جسمانی اور ذہنی طور پرلاغر ہوجاتا ہے۔بغور جائزہ لیا جائے تو آج کے تعلیم یافتہ نوجوان کویہی فکر کھائی جارہی ہے۔ ایک فارم کو بھرنے کے لئے پیسے اُسے اپنے والدین سے ہی لینے پڑتے ہیں ،جہاں فارم بھرنا ہے، وہاں تک آنے جانے کے لیے بھی کرایہ بھی والدین کو ہی دینا پڑتا ہے۔ دوران ِتعلیم اورامتحان کے دنوں بھی یہ بوجھ والدین اٹھا تےتھے اوراب تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی انہیں یہ بوجھ بدستور اُٹھانا پڑتا ہے۔چنانچہ جب حصول تعلیم کے دوران نتائج آتے ہیں تو نہ صرف وہ نوجوان خود خوش ہوتا تھا بلکہ اُس کے والدین بھی خوشیاں مناتے تھے۔مگر جن کے پاس دولت اور اثرورسوخ ہوتا ہے،وہ تو کہیں نہ کہیں روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے،اورغریب نوجوان امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد بھی ناکارہ رہ جاتا ہے،بعض اوقات نتائج آنے کے بعد امتحان کو ہی رد کیا جاتا ہے کیونکہ امتحان میںدھاندلی ہوچکی ہوتی ہے، اس صورتحال میں اب یہ امید لگائے بیٹھنا کہ نوجوان اپنی توانائیاں کارآمد کاموں میں صرف کریں،ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایسا محسو کیا جاتا ہے کہ جیسے ان امتحانات میں اپنا وقت اور توانائی لگانا، دونوں چیزیںبے کار ہے۔
حال ہی میں چھ لاکھ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے 1800 اکاؤنٹ اسسٹنٹ آسامیوں سمیت 10 ہزار درجہ چہارم ملازمتوں کے لئے درخواستیں دی ہیں، جس سے جموں وکشمیر میں بے روزگاری کا پتہ چلتا ہے، حکومت ہند کو ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوانوں میں مایوسی کی سطح کا تصور کرنا چاہئے۔ حالیہ سروے کے مطابق 2.5 لاکھ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان جس میں پی ایچ ڈی اسکالر، ایم فل طلبا اور پوسٹ گریجویٹ شامل ہیں، نے گزشتہ برس محکمہ روزگار کی طرف سے جموں وکشمیر میں بے روزگار افراد کی تعداد کا پتہ لگانے کے لئے شروع کی گئی مہم کے دوران اپنا اندراج کرایا ہے اور اس میں وہ کثیر تعداد میں گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ شامل نہیں ہیں جنہوں نے اپنا رجسٹریشن نہیں کرایا تھا۔
ہم نے اسی حوالے سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جاوید احمد ڈار ولد محمد سبحان ڈار سے بات کی جن کا تعلق بارہمولہ کے چندوسہ علاقے کا ہے، انہوں نے کہا میں نے اپنا ایم اے بی ایڈ سال 2017 میں مکمل کیا تھا، لیکن کہیں ملازمت نہیں پا سکے۔ درجنوں فارم اور امتحانات میں حصہ لیا لیکن اگرچہ میں نے بہت بار امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن کہا گیا کہ اس امتحان میں دھاندلی ہوئی ہے اور امتحان کو رد کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی بار پیسے اور اثر رسوخ والوں کو ہی جگہ ملی، ہم غریب تھے ،کچھ حاصل کرپائے۔ اس کے بعد میں نے ریڈی پر سبزی بیچنا شروع کر دیا ، میں گھر والوں پر مزید بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا، آخر کار میں ایم اے بی ایڈ ریڈی والا بن گیا۔اس کے ساتھ ایک اور بے روزگار تعلیم یافتہ فرد سے بات چیت ہوئی جس کا نام سجاد احمد لون اور ان تعلق سوپور سے ہے، ان کا بھی ایسا ہی حال تھا، تین مضامین سے ایم اے کر چکے ہیں لیکن نوکری نہیں مل سکی۔ انہوں نے ڈھابے پر ویٹر کی نوکری شروع کر دی۔ جاوید اور سجاد جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بےروزگار جوانوں کی مثالیں ہمارے یہاں لاکھوں میں دیکھنے کو ملیں گی، لیکن کوئی ان ہونہار طالب علموں کی روداد سننے کو تیار نہیں۔
بے روزگاری ایک ایسی لعنت ہے جو اپنے ساتھ دوسری بہت سی مصیبتیں لے کر آتی ہے۔ بے روزگاری، مفلسی، بھوک اور بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کا اثر ایک تو بے روزگار شخص بلکہ کنبے کے افراد کی جہالت، بد حالی اور پریشانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ عصمت فروشی، چوری، ڈاکہ زنی، بے ایمانی کے واقعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان جرائم کا ایک بڑا سبب بے روزگاری اور مفلسی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کے انفرادی اور سماجی نقصانات کے علاوہ سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بے روزگاری کا اثر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ دنیا کی نظر میں وہ ملک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جو اپنے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو نوکریاں فراہم نہیں کر سکتا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کا مطلب ہے ملک کے تعلیمی منصوبوں سے جو ملک کو ترقی اور فائدہ ہونا چاہیے تھا وہ سب بیکار اور ضائع ہو رہا ہے۔
معاشرے میں بے روزگاری ایک سماجی بُرائی تصور کی جاتی ہے، جس سے خطرناک حالات جنم لیتے ہیں ،افلاس فاقہ کشی پیدا کرتی ہے اور فاقہ کشی سے کئی بیماری جنم لیتی ہیں جو انسان کو موت کے منہ میں لے جاتی ہے ۔یہ معاشی بیماری پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے اور ملک کی سیاسی صورت حال بھی متاثر کرتی ہے۔ بے روزگاری قانون کا احترام کرنے والے اچھے شہریوں کو بھی مجرم اور ڈاکو بنا دیتی ہے، اس سے بدعنوانی پھیلتی ہے، جھوٹ بڑھتا ہے، برائیاں جنم لیتی ہیں اور پھرانسانی کردار کا تاریک پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ بے روزگار انسان سے شرافت اور ایمانداری کی توقع کرنا ناممکن ہوجاتا ہے،جو اپنے یا اپنےبیوی بچوں کے لیے دو وقت کا کھانا اور بیماری میں دوائی میسر نہیں کرسکتا تو اس سے اچھے امور توقع کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے اور غربت کے باعث کا لوگوں کاایک طبقہ اب غربت کی نچلی سطح پر آچکا ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے کہ آئے دن سننے میں آتا ہے کہ فلاں جگہ دو وقت کی روٹی میسر نہ ہونے پر ماں اپنے بچوں سمیت خود سوزی کردیتی ہے ، باپ اپنے بیوی بچوں سمیت دریا برد ہوجاتا ہے، اگر غربت کی شرح کم کرنے پر نیک نیتی ،انسان دوستی اور سچے دل سے کام کیا جائے اور لاچار طبقے کو ہنر مندی سکھا کر روزگار فراہم کیا جائے تو بے روزگاری کی شرح میںمیں کمی آسکتی ہے۔ اب پھریہی سوالات اُبھر آتے ہیں کہ کیا جموں و کشمیر میں غربت کو مٹایا جاسکتا ہے؟ تو جواب باکل واضح ہے کہ کیوں نہیں؟ اگر حکمران منصوبہ سازی سے کام کریں کہ جموں و کشمیر کو غریب سےاُ نہیں غربت مٹانی ہے تو ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ کشمیر میں تعمیر نو ہو ، بے روزگارکو روزگار اور بےگھر کنبہ کو ایک مناسب گھر بناکر دیئے جائیں، ہنر مندی کا کام سکھانے کے مرکز قائم کئے جائیں، اور جب تک وہ باہنر نہ بن جاتے تب تک انہیں اپنا گھر بار چلانے کے لئے مناسب امداد دی جائے، خواتین گھریلو سطح پر کام کرکے اپنی غربت میں کمی لاسکتی ہیں اور ہنر مند افراد کو ایک چھوٹے پیمانے پر روزگار دیا جائے ۔ تعلیم اور علاج مفت دیا جائے، حکومت اور نجی شعبہ کے ملازمین کے لیے مفت رہائش اور زمیندار طبقہ کو گزارہ لائق اراضی دے، کاروبار کے لیے لوگوں کو آسان اقساط پر بلا سود قرضے فراہم کریں۔ غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ موجودہ معاشی اور سیاسی نظام میںبھی یکسر تبدیلی آنا شروع ہوگی، وہ بھی پوری طرح آئین و قانون کے تحت وسیع تر جمہوریت کی شکل میں آئے گی۔ جب جموں و کشمیر میں الیکشن کا وقت ہوتا ہے تب حکمران ووٹ مانگنے آتے ہیں، اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، نوکریوں اور روزگار فراہم کرنے کی آڑ میںوہ تعلیم یافتہ جوانوں کو جال میں پھنسا لیتے ہیں کہ۔لیکن افسوس! جب عوام کے ووٹ سے جیت کر ایوان بالا تک پہنچتے ہیں، تو سب سے پہلے یہی سیاسی لیڈران اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کو بھول جاتے ہیں،طاقت ، کرسی اور عیاشیوں میں مد ہوش ہوجاتے ہیں، اور یہی سچ ہے کہ عوام کو صرف ووٹ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ امیر کے پڑوس میں بھوک رقص کرتی رہتی ہے مگر امیر کبھی غریب کے گھر کی حالت دیکھنا پسند نہیں کرتا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں صرف گوشت پوست انسان رہ گئے ہیں ، انسانیت مر گئی ہے ، ہم اتنے بے حس کیسے ہوگئے ، ہم تو مسلمان ہیں، پھر اتنی بے حسی کیوں ہے ، اپنے سوا ہمیں دوسرا کیوں نظر نہیں آتا۔
اگر جموں و کشمیر میں بھی نجی سیکٹر کو فروغ دیا جاتا اور بڑے بڑے کار خانے لگائے جاتے ،اُس سے بھی بے روزگاری پر قدغن لگائی جاسکتی تھی۔ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں زیادہ سے زیادہ نوکری کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ سیاسی یا مذ ہی مسائل کو نظر انداز کر کے پوری انسانیت کی ترقی کے بارے میں سوچے ۔ اگر ہم سبھی واقعی نو جوانوں کی موجودہ صورتحال کی طرف سنجیدہ ہو جائیں تو ہمیں جلد سے جلد کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ ہمیں جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو ایسے ہی مایوسیوں کے دلدل میں جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ میری دعا ہے کہ جموں و کشمیر سے جلد از جلد غربت کا خاتمہ ہوجائے، اللہ تعالیٰ ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں اور جوانوں کو روزگار عطا فرمائے،تاکہ کوئی بھی افلاس و بھوک کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت خود کشیاں نہ کریں۔ اللہ ہمارے ملک کو غربت سے نجات دلائے اور ہمارے بہن ،بھائی، بزرگ، بچے، سکون و راحت کی زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھوں میں سجے سب خواب پورے ہوسکیں۔آمین
رابطہ/ 6005293688
[email protected]