سرینگر// وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ تما م متعلقین کے ساتھ بات چیت اور پاکستان کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ جموں کشمیر میں امن کی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں جن کی آبیاری اور زرخیز کاری کی ضرورت ہے۔وزیر اعلیٰ نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ سنگبازی کے واقعات کے بعد سخت سیکورٹی کریک ڈائون کی وجہ سے کشمیری نوجوانوں، یہاں تک کہ بچوں میں بھی اجنبیت کا احساس پایا جارہا ہے۔ایک خبر رساں ایجنسی کو تفصیلی انٹرویو کے دوران محبوبہ مفتی نے مرکزی سرکار کی طرف سے کشمیریوں تک پہنچنے کی حالیہ کوششوں کا خیر مقدم کیا جن میں 15اگست کی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر،من کی بات پروگرام میں کشمیری نوجوان کا ذکر، تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہونے کا مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا اعلان اور بھاجپا جنرل سیکریٹری کا وہ بیان بھی قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے ہر کسی کے ساتھ مذاکرات کی حامی بھری ۔اس ضمن میں محبوبہ مفتی کا کہنا تھا’’یہ علامات وادی کشمیر کیلئے خوش آئند ہیں جہاں کے لوگ امن کے لوٹ آنے کا بڑی صبری سے انتظار کررہے ہیں‘‘۔ وزیر اعلیٰ نے کہا’’امن کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوگئی ہیں ، ان کی آبیاری اور زرخیز کاری کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد امن کا ثمر ملے گا‘‘۔ انہوں نے الیکٹرانک میڈیا پر الزام عائد کیا کہ یہ ادارے وادی میں پیش آنے والے ایک چھوٹی سی واردات کو ایک قومی واقعہ کی طرح پیش کرتے ہیںاور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے کشمیرمیں ہمیشہ آگ لگی رہتی ہے ،پھر کشمیر کے بارے میں زوروشور کے بحث و مباحثے کرائے جاتے ہیںجن میں کشمیریوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایسی حرکتوں سے کشمیری بقیہ ملک سے الگ تھلگ ہوکر رہ جاتے ہیں اور بقیہ ملک کشمیریوں سے!جس کا سیاحت پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سیاحوں کی وادی آمد میں بھاری کمی واقع ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اب یہ تعداد روزانہ 4000سے5000تک پہنچ گئی ہے جو پہلے 10000سے12000تھی، بیشتر ہوٹل اور ہائوس بوٹ خالی پڑے ہیں ، ٹیکسی کمپنیوں کا کاروبار ٹھپ اور دکانیں بند پڑی ہیں۔ محبوبہ مفتی نے مزیدکہا کہ وادی کشمیر کی پوری70لاکھ آبادی کو جنگجوحامی کے بطور پیش کرنا غلط ہے جبکہ انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق یہاں صرف200سے300مقامی جنگجو ہیں۔وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا’’آپ200جنگجوئوں کی بات تو کرتے ہیں لیکن فوج میں کام کررہے ہزاروں کشمیریوں کا تذکرہ نہیں کرتے‘‘۔ انہوں نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ پتھرائو کے واقعات کے بعد سخت سیکورٹی کریک ڈائون کے باعث کشمیری نوجوانوں، یہاں تک کہ8سال کی عمر کے بچوں میں بھی بیگانگی کا احساس پایا جاتا ہے ۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطح پر سامنے آنے والے حالیہ بیانات وادی میں امن قائم کرنے اور کشمیریوں کو عزت و وقار کی زندگی دینے کرنے کا ایک موقعہ فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا’’اب صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ان(کشمیریوں) کی عزت کے ساتھ انگلی پکڑے رکھی جائے‘‘۔محبوبہ مفتی نے بتایا کہ ان کی حکومت ہر کسی کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہے جیسا کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین ایجنڈا آف الائنس میں بھی کہا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ سال2000کے اوائل کی طرح اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہوئی بات چیت کی طرز پر امن مذاکرات کی حمایت کرتی ہیں جب کشمیری علیحدگی پسندوں کو قیام امن کی کوششوں کے تحت پاکستان سے بات کرنے کی اجازت دی گئی اور اسی دوران نئی دلی بھی اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات میں مصروف رہی۔اس حوالے سے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا’’ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ریاست میں مستقل قیام امن کا راستہ تلاش کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ وہ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور وہ(راجناتھ سنگھ) بہت معاون ہیں۔ہند پاک تعلقات کے بارے میں محبوبہ مفتی نے اگر چہ موجودہ کشیدگی کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا ، تاہم انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو فوری طور پر بات چیت شروع کرنی چاہئے۔ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا’’ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لایا جائے کیونکہ ہند پاک تعلقات کے جموں کشمیر پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں، دونوں ملکوں کے مابین بہتر تعلقات ہمیشہ ریاستی عوام کو بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرتے ہیں‘‘۔انہوں نے کانگریس کی قیادت والی سابق یو پی اے سرکار پر الزام عائد کیا کہ وہ واجپائی کے دور میں امن عمل کو لیکر حاصل کی گئی پیشرفت کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی۔