یہ اس زبان کے تئیں سراسرمتعصبانہ سیاست برتی جارہی ہے اور۱۳۳۰ء میں یہی سیاست ‘ تعصب ‘ بغض اور نفرت ومغائرت فارسی زبان کے تئیں اختیار کی گئی تھی ، جب کہ اُس وقت کی حکومت نے فارسی کو سرکاری زبان قرار دیا‘ جس کے بعد محدودالفکر اور تنگ نظری کے شکار لوگ فارسی زبان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ فارسی میں چونکہ کافی اسلامی لٹریچر کافی منتقل ہوا تھا،اس وجہ سے تنگ نظر لوگوں نے یہ زبان سیکھنے والوں کو تعصب کی بنا پر کا طعنے دئے۔ آج ہو بہو یہی حال اردو کا کیا جارہا ہے کہ اسے مسلمانوں سے منسوب کر کے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ شیریں زبان ہمیشہ کے لئے فنائیت کا شکار ہو کر رہے گی‘ پھر شاید ہی اردو زبان کا سورج اپنی تابناک شعاعوں کے ساتھ کہیں نمودار ہو کر گلستانِ علم و ادب کو ایسی حرارت بخشے کہ داغ دہلویؔ کا یہ مشہور مصرعہ کسی کو حقیقت لگے ع
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
۴: آج کے تیز رفتار زمانے میں اُسی چیز کو ثبات ودوام حاصل ہے جو زمانے کی نزاکت اور رفتار کو سمجھتے ہوئے کشمکش اور انقلاب کو اپنا وطیرہ بنائے۔ بقول اقبال ؎
موت ہے وہ زندگی جس میں نہ ہو انقلاب
روحِ امم کی حیات کشمکش ِ انقلاب
اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کوئی زبان بھی تب تک باقی رہتی ہے جب تک اس میں زمانے کے شانہ بشانہ چلنے کا جذبہ و جنون ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ زبان کا لٹریچر زمانے کے موافق ہی تشکیل دیا جائے‘ لیکن بد قسمتی سے اردو زبان میں اس چیز کا قدرے فقدان ملتا ہے جس کے باعث ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ہماری ریاستِ کشمیر میں بھی یہ زبان عدم دلچسپی کی شکار ہو گئی ہے۔ آج کے انقلابی دور میں سائنس نے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی کو انقلاب کی زد میں لاکر انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال کر پوری دنیاکو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ،وہاں ہماری اس مظلوم زبان میں ابھی ابھی ان ہی گھسے پٹے اور نا ممکن قصے کہانیوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اورنوے فیصد سے زیادہ نثری وشعری ادب ان ہی نا ممکنات کے اردگرد تشکیل دیا جاتا ہے۔ در بھنگہ بہار کے ایک نوجوان ادیب احتشام الحق ؔ لکھتے ہیں:’’کوئی زبان جب تک وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوگی تو زندہ نہیں رہ سکتی ہے اور کوئی زبان محض ادب اور شاعری کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھتی ہے بلکہ اس کی بنیاد علمی ہوتی ہے‘‘(ماہنامہ ’’اردو دنیا‘‘ نئی دہلی، مئی۲۰۱۴ء) اردو زبان کا ادب اگر وقت کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا گیا ہوتا توآج یہ شیریں زبان اتنی بے بس اور لاچار نہ ہوتی ‘ اور اردو والے بھی مرثیہ خواں نہ ہوتے بقولِ شاعر ؎
وقت کے تقاضوں پر ہم اگر جئے ہوتے
کیوں ہماری زبان پر آج مرثیے ہوتے
۵: پانچواں مسلٔہ کشمیر میں اردو زبان کو یہ درپیش ہے کہ یہاں اچھے رسالوں کی اشاعت نہیں ہوتی ‘ حالانکہ کسی زبان کو ترقی اور فروغ دینے میں اچھے رسالے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اچھے رسالوں کی اشاعت کے بغیر کسی زبان کی ترقی کی توقع رکھنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے جو کہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔اچھے اور معیاری رسائل وجرائد سے میری مراد ایسے رسالے ہیں جو عوام کی توقعات وضروریات اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا، خاص کر 1980 ء سے قبل تک کہ ریاست جموں کشمیر سے باہر بھی ہندوستان بھر میں اردو زبان میں صدہا قسم کے رسالے نکلتے تھے جو لا تعداد شائع ہو کر گھر گھر کی زینت بنتے تھے۔ نصرت ظہیرؔ لکھتے ہیں:’’لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالوں کی جودنیاکبھی اردو کی ایک بڑی طاقت ہوا کرتی تھی آج خود اپنی بقا ء کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ آج کی نسل کو مشکل سے یقین آئے گا کہ ایک زمانے میں ما ہنامہ شمع‘ ماہنامہ بیسویں صدی‘ ماہنامہ خاتونِ مشرق‘کھلونا‘ بانو‘ روبی‘ آستانہ‘ آج کل‘ نیا دور‘ آواز‘شبستان اور ہما جیسے رسالے گھر گھر پڑھے جاتے تھے او ر اِن میں سے کئی کی تعدادِ اشاعت ایک لاکھ سے بھی اوپر ہوا کرتی تھی۔ یہ رسالے زندگی اور سماج کے مختلف گوشوں سے اردو والوں کوجوڑے رکھتے تھے اور ان کے خریدنے اور پڑھنے کو صحت مند تفریح مانا جاتا تھا۔(ماہنامہ اردو دنیا، نئی دہلی)
کشمیر سے باہر آج بھی ایسے رسالے شائع ہو رہے ہیں جن کو ملک بھر میں پڑھا جاتا ہے۔ جیسے ماہنامہ اردو دنیا‘ سہ ماہی سائینس کی دنیا‘ ماہنامہ عالمی سہارا‘ بزم سارا اور سہ ماہی فکر وتحقیق وغیرہ لیکن ہم کشمیر میں بد قسمتی سے اردو میں اچھے اور معیاری رسائل و جرائددوسری ریاستوںکے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالانکہ کسی زمانے میں جموں وکشمیر سے نکلنے والے رسالوں کو ملک کی دیگر ریاستوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا جن میں ماہنامہ ’’صدا‘‘ کو کافی مقبولیت حاصل تھی ۔ اُس کے بعد بھی حالانکہ یہاں اردو رسالے چھپتے رہے لیکن اُن میں قارئین کی دلچسپی کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی اردو زبان کا پاس و لحاظ ‘ بلکہ اُن رسالوں میں اردو کے فروغ کے بجائے چند لوگوں نے اپنے ذاتی اغراض اور مقاصد کو ترجیح دی جس کابراہِ راست اثر اردو پر پڑا۔ ریاست کے معروف شاعر مظفرایرجؔ رسالوں کے تئیں اس صورت حال کو گوشہ سازی سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ گوشہ سازی کے چلن میںدو طبقوں کا بڑا فائدہ ہے۔ ایک رسالے کے مہتمم کا دوسرا گوشہ گیر شاعر کا۔باقی قارئین کا کب نفع ہوا جو آج ہوگا۔(روز نامہ کشمیر عظمیٰ3 / اپریل۲۰۱۱ء)
وادی ٔ کشمیر سے کچھ معیاری مذہبی رسالے شائع ضرور ہوتے ہیں مگراُن کی اشاعت خالص مذہبی افکار کے فروغ و اشاعت پر مرکوز ہے۔ ان رسالوں میں ہفت روزہ مومن ، ہفت روزہ مسلم‘ ماہنامہ پیام‘ اور ماہنامہ الاعتقاد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ ریاستی کلچرل اکادمی کی جانب سے ’’شیرازہ‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ نکلتا ہے‘ جو اگرچہ معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ کئی خوبیوں کا حامل بھی ہے مگر یہ اردو رسالہ صرف خواص تک محدود ہے اور عوام کی دسترس سے باہر۔
۶: اردو زبان کاایک اور مسلٔہ اس میں وسائل روز گار کی عدم موجود گی بھی ہے۔ روز گار چونکہ آج کے انسان کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے، اس لئے جو چیز روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہو، ظاہر سی بات ہے انسان اُسے اپنانے سے گریز ہی کرے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو سیکھنے اور پڑھنے سے قبل اس تعلق سے طلبا ء اور اسکالروں کو اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔دوسرے ممالک اور ریاستیں تو بہر حال اردو میں روز گار کے وسائل پیدا کرنے کے ہر ممکن اقدامات کرتی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال دہلی میں قائم ادارے ’’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‘‘ کی ہے۔ اس نے ملک کی تمام ریاستوں میں چھوٹے چھوٹے مراکز قائم کئے ہیںجہاں بہت ہی کم فیس وصول کر کے نوجوانوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اردو سافٹ ویئر کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔اس کے لئے ادارہ انہیں اردو میں مفت کتابیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اس سب کے برعکس ہماری ریاست میں چند چاچابھتیجا ادارے اور نام نہاد ادبی تنظیمیں سال بھربند کمروں میں ادبی محفلوں کا انعقاد کرنے تک محدود ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان محفلوں کا انعقاد اردو زبان کی بقاء اور فروغ ِ زبان کے نام سے کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت میں ان کے پیچھے ادبی تاجروں کے ذاتی مفاد کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ افسوس کہ ان رنگے سیاروں سے سادہ لوح لوگ اردو زبان کی ترویج واشاعت اورتحفظ کی اُمید و ابستہ رکھے ہوئے ہیں۔
کشمیر میں اردو زبان کو درپیش مسائل کی جانب دھیان دینا وقت کااہم تقاضا ہے۔ اس تقاضے پر پوراپورااُترنے کے بعد ہی یہاں اردو کی بقاء و ترقی اور فروغ کے کچھ امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ اس زبان کو درپیش مسائل پر متعلقین کو ہر اعتبار سے غورو فکر کرنا ہوگا۔ جب تک اس مظلوم زبان کو ریاستی سطح پر مطلوبہ درجہ اور توجہ نہ ملے جس کی یہ اصل میںمستحق ہے‘ اور جب تک یہاں عوامی سطح پر اردو کو پیار اور دُلار نہ ملے ، ا س زبان میں روزگار کے و رسائل پیدا نہ کئے جائیں ، ارود کے معیاری جرائدو رسائل کی اشاعت کر کے ا نہیں عوامی دلچسپیوں سے ہم آہنگ نہ کیا جائے تب تک اس زبان کا حال افسردہ اور مستقبل مخدوش رہے گا۔ اس بارے میں اردو اساتذہ ،شعراء‘ ادباء ، قلم کاروں اور ارود صحافیوں دانشوروں کو بالخصوص متحرک وفعال ہو کراردو زبان کو اپنا جائز مقام دلانے کے لئے انتھک جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس کا کوئی متبادل نہیں ۔
فون نمبر8825090545