۲۰۱۴ء کے اخیر میںجب جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہوئے تو اُن کے نتائج چونکانے والے تھے کیونکہ بی جے پی پہلی بار جموں کی ۲۵؍ نشستوںپر جیت گئی۔ یہ جیت اُس وقت مودی لہر کا چمتکار ی کا اظہار تھی۔۸۹؍نشستوں والی جموں کشمیراسمبلی میں مفتی سعید کی پارٹی پی ڈی پی کو ۲۸؍ اور بی جے پی کو ۲۵؍نشستیں ملی تھیں، جب کہ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو ۱۵؍ کانگریس کو ۱۲؍ اور چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو ۷؍نشستیں مل گئی تھیں۔ظاہر ہے انتخابی نتیجہ واضح نہیں تھا ۔اسی پس منظر میں دوڈھائی ماہ طویل صلاح مشورے کے بعد مفتی صاحب نے کشمیری عوام کی خواہشات کے خلاف بی جے پی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے مخلوط سرکار بنالی کہ گرچہ یہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کا ملن ہے لیکن اس سے فائدہ کشمیر ی عوام کا ہوگا۔بی جے پی ملی جلی حکومت بن جانے سے بہت خوش تھی کیونکہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ سنگھ کی حکومت ریاست میں بن سکی تھی اور اس کا ایک نائب وزیر اعلیٰ بھی تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جوڑ توڑکا سارا کریڈٹ مودی کو جاتا ہے ۔ اسی لئے بیشترقومی میڈیا اور بی جے پی بھکتوں نے اسے مودی کا ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ قرار دیا تھا ۔ ۷؍جنوری ۲۰۱۶ء کو مفتی سعید کی موت کے بعد محبوبہ ۴؍اپریل ۲۰۱۶ء کو بی جے پی کی حمایت سے ریاست کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کے طور حلف لیا اور ودسال سے زائد عرصہ تک وزارتِ عالیہ کا منصب سنبھالنے کے بعد بھاجپا نے کی ڈی پی کی حمایت۱۹ ؍ جون کو واپس لے لی۔ اس کارروائی کو بھی مودی نواز میڈیا اور مودی بھکت مودی کا ’ماسٹر اسٹروک ‘ قرار دے رہے ہیں یعنی معاملہ چت بھی میری پٹ بھی میری والا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ناپاک اتحاد( سیاسی سوجھ بوجھ والے مبصرین نے ایسا کہا تھا) وجود میں آیا تھا، اُس وقت بھی مودی کا’ ماسٹر اسٹروک‘ تھا اور جب اتحاد کو بی جے پی نے پارہ پارہ کیا تب بھی ’ماسٹر اسٹروک‘ ہے۔ اصل یہ ہے کہ بیشتر میڈیا ہاؤسیز مودی بھکتی میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے ملاتے ہیںاورجھوٹ گھڑ کر رائے عامہ کو مودی کی حمایت میں موڑ دیتے ہیں۔عوام کا حافظہ ویسے تو کمزور ہوتا ہے لیکن یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے کہ لوگ اسے بھول جائیں۔نوٹ بندی کرتے وقت مودی جی نے قوم کو اس کے’’ فوائد‘‘ بتائے تھے، جن میں سے ایک یہ بھی بتایا تھا کہ اس سے ’’دہشت گردی‘‘ کی روک تھام ہوگی۔اُن کا اشارہ کہیں اور نہیں بلکہ کشمیر کے نامساعدحالات کی طرف ہی تھا۔اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ جنگجوؤں کے پاس جو’’ بلیک منی ‘‘ہے، نوٹ بندی سے وہ صفر ہو جائے گی اور روپے پیسے کی قلت سے یہ اپنا کھیل کھیل نہیں سکے گی۔نوٹ بندی کا ایک اور جواز وزیر اعظم نے یہ بھی دیا تھا کہ جو جعلی روپے بقول ان کے پاکستان ہمارے ملک میں بھیجتا ہے، اُس کی حیثیت کوڑا کرکٹ کے برابر ہو جائے گی کیونکہ اُنہی جعلی روپیوں سے اسلام آباد ملی ٹنٹوں کی فنڈنگ کرتا ہے۔آج کی تاریخ میں نوٹ بندی کے باوجود زمینی حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ مودی سرکار میں کشمیر کی نامساعدت میں ہزار گنا اضافہ ہوا ۔بلاشبہ مودی جی کی بے ہنگم پالیسیوں نے کشمیر کا ستیاناس کر دیا، مثلاً جہاں ۲۰۱۴ء تک کشمیر جانے والے سیاحوں کی تعداد ۱۴؍لاکھ سے زیادہ ہوتی تھی، وہ اب گھٹ کر ۸؍لاکھ سے بھی کم ہوگئی ۔کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ مودی جی اور بی جے پی نے دانستاً یہ سب کیا تاکہ کشمیریوں کی کمر ٹوٹ جائے۔کشمیر کی دگرگوںحالت کے لئے صرف اور صرف مودی ہی ذمہ دار ٹھہرتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ پی ڈی پی کی الل ٹپ حمایت واپس لئے جانے تک وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی اور انہیں ٹی وی کی خبروں سے پتہ چلاتھا کہ ریاست کی مخلوط سرکار گئی۔اس سے قبل نوٹ بندی کے فیصلے کے متعلق بھی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو کچھ بھی پتہ نہیں تھا کیا ہونے والا ہے ، انہیں بھی قوم سے وزیراعظم کے خطاب کے وقت معلوم پڑا تھا کہ کیا ہوا۔ہندوستان کی جمہوریت جس راستے پر چل پڑی ہے ،اس سے آمریت کی بو آتی ہے ، اس لئے وزیر خارجہ شسما سوراج کی بھی کوئی منصبی معنویت نہیں دکھائی پڑتی ۔اسی طرح ’’سرجیکل اسٹرائک‘‘ کے وقت بھی وزیر دفاع منوہر پاریکرکو اندھیرے میں رکھنے کی بات کہی گئی تھی ۔بہر حال جب مفتی سعید کے ساتھ مل کرحکومت بنائی گئی تھی کشمیر میں چہار جانب سے برہمی کا اظہار ہوا تھا، تو اس وقت اہل کشمیر کو پی ڈی پی نے کشمیر پر پاکستان سے مذکرات ، حریت سے ڈائیلاگ ، دفعہ ۳۷۰ کی حفاظت،افسپا کی واپسی ، پاور پروجیکٹوں کی واپسی ، تعمیر و ترقی کے سبزباغ دکھائے گئے اور بی جے پی نے کہا تھا کہ پارٹی یہ سب ملکی مفاد میں کر رہی ہے ۔اب جب کہ محبوبہ مفتی کو حکومت سے بے دخل کیا گیا تو بھاجپا اسے بھی قومی مفاد کا نام دے رہی ہے ۔بات در اصل یہ ہے کہ پورے ملک میں مودی اور اُن کی پارٹی کے خلاف لہر چل رہی ہے ۔ایسے میں ’’کشمیر کارڈ‘‘ محض انتخابی سود وزیاں کے نقطہ ٔ نظر سے کھیلا جارہاہے اور پریوار چاہتا ہے کہ بھولے بھالے عوام کو ۲۰۱۹ء کے الیکشن تک انہی ہوائی قلعوں اور سنسنی خیزیوں سے بہلایاجائے ۔جنوبی ہند میں تو اس کارڈکا کوئی اثر نہیں ہوگا لیکن شمالی ہند کے چند علاقوں خاص طور پر اُتر پردیش میں اسی بہلاوے سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اُدھرعین ممکن ہے کہ لوک سبھا الیکشن اسی برس کے اخیر میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی اسمبلیوں سمیت کروالئے جائیں اوریہ بھی ممکن ہے کہ مہاراشٹر میں بھی اسمبلی کے انتخابات پارلیمانی الیکشن کے ساتھ ہو جائیں کیونکہ کشمیر میں ہونے والی بھاجپا سیاست سے پیداہونیوالے ارتعاش کو بہت دنوں تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔یہ بالکل طے ہے کہ جموں کشمیر میں الیکشن ان کے ساتھ نہیں ہوگا کیونکہ گورنر ووہرا نے اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا بلکہ معطل رکھا ہے۔عمر عبداللہ اور غلام نبی آزادکے علاوہ کوئی بھی اسمبلی تحلیل کرنے کی بات نہیں کر رہا ۔بی جے پی اور پی ڈی پی اس پر خاموش ہیں۔اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ گورنرراج ایک عارضی انتظام ہے ۔ محبوبہ مفتی کے ذریعے خالی کی گئی لوک سبھا کی نشست (اننت ناگ اسلام آباد)پر ابھی تک ضمنی انتخاب نہیں ہو سکا اور سری نگر پارلیمانی حلقے پر جہاں ضمنی انتخاب ہوا تھا ،وہاں کل صرف ۷؍فیصد ووٹ پڑے تھے اور فاروق عبداللہ ایم پی منتخب ہو گئے تھے۔ اس لئے ریاست میں الیکشن کی بات کیسے ہو سکتی ہے؟اس لئے زیادہ امکان یہی ہے کہ ان ۴؍ریاستوں اور عام انتخابات کے بعد جس طرح کے حالات ہوں گے، بی جے پی انہی کے مطابق چلے گی۔اگر حالات پریوار کے موافق ہوں تو پھر سے پی ڈی پی کی حکومت بن جائے گی جس میں بی جے پی شر یک اقتدار ہوگی۔اس صورت میں محبوبہ وزیر اعلیٰ نہ ہوں گی بلکہ اُن کی پارٹی کا کوئی دوسرا لیڈر سامنے لایاجائے گا ۔ بی جے پی کو اپنے لوگوں سے کہنے کے لئے یہ بات بھی ہو جائے گی اور ادھر پی ڈی پی کی رہی سہی عزت بقیہ مدت کے لئے رہ جائے گی ۔
آج کے حالات میں پی ڈی پی صفر ہو گئی ہے۔اگرآج مذکورہ ۴؍ریاستی اسمبلیوںاور عام انتخابات کے سا تھ ریاست میں بھی الیکشن ہو جائیں تو پی ڈی پی کو ختم ہی سمجھئے لیکن بی جے پی جموں اور لداخ سے ختم نہیں ہوگی۔بھلے ہی اسے ۲۵؍ سیٹیں نہ آئیں لیکن اُس کی نشستیں ۲۰؍ کے آس پاس رہیں گی اور بہت حد تک ممکن ہے کہ ۲؍پارلیمانی نشستیں بھی اس کی جیب میں چلی جائیں۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جموں کشمیر میں اس دفعہ پارلیمانی الیکشن نہ بھی ہوں کیونکہ حالات اس کی اجازت نہیں دیں گے۔بی جے پی کو ۲؍ سیٹوں کی تھوڑے ہی پڑی ہے ،اس کی وسیع تر تناظر میں پورے شمالی ہندوستان پر نظر ہے ۔یہ سب کچھ کشمیر کے لوگوں کی قیمت پر ہونے کا خدشہ ہے۔گورنر راج من چاہے دنوں تک رہ سکتا ہے۔موجودہ گورنر ووہرا کی مدت ۲۸؍ جون کو ختم ہو رہی ہے۔بھلے ہی وہ کتنے بھی امور کشمیر کے ماہر ہوں، اُن کی جگہ پر کسی اور کو لایا جائے گا۔۹۰ء کی دہائی والے جگموہن جیسے گورنر کی تلاش بھی شروع ہو گئی ہے کیونکہ بی جے پی کو جاننے اور سمجھنے والے یہی کہتے ہیں کہ اس کا منشاء کشمیر کو سلجھانا نہیں ہے بلکہ مزید اُلجھانا ہے۔اپنے سابقہ کالم میں، میں نے کبھی لکھا تھا کہ کشمیر کے جلنے سے اگر بی جے پی اور مودی کا فائدہ ہو رہا ہے تو اسے پریوارکیوں بجھانا چاہے؟سوشل میڈیا پر بھی کچھ لوگ انہی اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس بار امر ناتھ یاترا کہیں گودھرا نہ ثابت ہو!اقتدار کی لالچ میں کچھ بھی ممکن ہے۔ غور طلب ہے کہ مودی جی کے ۴؍ برس طویل سخت گیریت کے پس منظرمیں کشمیر میں جنگجوئیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ جنگجو پڑھے لکھے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور مقامی بھی۔یہ خود حکومتی رپورٹ بھی ہے۔اب ہندوستانی عوام خود فیصلہ کریں کہ مودی جی نے کشمیر(اور کشمیریوں ) کو ہندوستان سے دور کیا یا قریب ؟طاقت ، روپیہ اور اہنکار سے کیادل جیتا جا سکتاہے؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883