بھارتی وزیراعظم نریندر مودی19مئی ہفتے کوسری نگرپہنچے توان کے دورے کے دوران حفاظتی انتظامات کے نام پر ساراسری نگر مکمل طور فوجی چھائونی میں تبدیل ہوچکاتھا ۔زمین سے فضاء تک کئے گئے سخت ترین سیکورٹی انتظامات کے درمیان سری نگرمیں جھیل ڈل کے کنارے واقع سینٹورہوٹل میںوزیراعظم نے 330میگاواٹ کشن گنگا ہائیڈیل پروجیکٹ اور سرینگر میں1200کروڑ کی لاگت سے 42کلومیٹر تعمیر ہونے والے رنگ روڈ کا رسمی طورسنگ بنیاد رکھا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی کشمیری عوام ان پروجیکٹوں سے عملی طور لاتعلق رہے ۔ 19؍ مئی کوانہوں نے متحدہ مزاحمتی قیادت کی کل پر ہمہ گیر کشمیر بند سے یہ بات اظہر من الشمس کر دی کہ وہ سب سے پہلے کشمیر حل چاہتے ہیں۔۔۔ایک ایسا حل جوپُرامن ہو، منصفانہ ہو ، قابل قبول ہو ، دیر پا ہو اور عوامی خواہشات سے لگاکھاتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس حقیقت کے باوجودکہ کشمیری قوم نئی دلی سمیت پوری دنیا کوباربارڈنکے کی چوٹ پر یہی پیغام اپنی عظیم قربانیوں ،مظاہروںاوراحتجاجوںکے ذریعے دیتی چلی آ رہی ہے ، دلی میں کشمیر حل کو کیوں ثانوی حیثیت بھی نہیںدی جارہی ہے ؟ معروضی طور دیکھا جائے تو اصولاًمسئلہ کشمیر کوئی لا اینڈ آرڈر ، مراعات ، مفادات ، سڑک ، بجلی، پانی، نوکری کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اصلاًڈیڑھ کروڑکشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کا مسئلہ ہے ۔اس کے حمتی حل کے لئے دو ہی راستے کھلے ہیں : اول استصواب کا راستہ ، مطلب یہ کہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو حق دیا جائے کہ وہ رائے دیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ، یا سہ فریقی مذاکراتی میکانزم اختیار کر کے انڈیا پاک اور کشمیری عواکی مزاحمتی قیادت مل بیٹھ کر عوامی خواہشات کے عین مطابق کسی حل فارمولے پر متفق ہو جائیں ۔ کشمیری عوام سترسال سے اسی واحد مطالبے کو منوانے کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں اور تکلیفیں اٹھارہے ہیں ہے ۔ انہیں ا س سے غرض نہیں کہ کہاں پائیڈل پروجیکٹ لگ رہے ہیں اور کدھر سڑکوں کا جال بچھ رہاہے ، وہ پہلی فرصت میں اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرنا چاہتے ہیں ۔اس تعلق سے وہ ان وعدوں کا وفا چاہتے ہیں جو وزیراعظم مودی کے پیشروئوں نے یواین کے عالمی فورم اور دہلی میں ہی نہیں بلکہ کشمیر آکر سرینگر کے تاریخی لالچوک میں کشمیر کے عوام سے کئے ہیں کہ انہیں استصواب رائے کا حق دیا جائے گا۔ ان عدوں کے علیٰ الرغم نئی دلی عارضی ۷ دہائیوں سے کشمیریوں کو تماشہ دے کر بہلانے کی ناکام کوششیں کر تی جارہی ہے۔
اس میں دورائے نہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر کی اصل حقیقت تسلیم نہ کرلی جائے تب تک دلی کی جانب سے اٹھایاجانے والا کوئی بھی عارضی قدم نتیجہ خیز ثابت ہوگا اورکشمیر کی سرزمین نامساعدت حالات کی بھٹی میں جھلستی رہے گی۔ ا س زمینی صورت حال صورت حال کو بد لنے کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ دلی کے حکمران نتیجہ خیز اقدامات کی شروعات جموںوکشمیر سے تمام کالے قوانین (AFSPA اورPSA)کے خاتمہ سے کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ا س بابت پہل کر یں کہ مسئلہ کشمیر سے جڑے تینوں فریقوں کے درمیان ایک بامعنی ڈائیلاگ شروع ہو ۔ وقت آگیا ہے جب کشمیر کے حوالے سے اصل مسئلہ کو اس کے اپنے تاریخی پس منظر میں اورکشمیری عوام کے جذبا ت و احساسات کے مطابق حل کرنے کیلئے کمر ہمت کس لی جائے ۔ نیز اس امرپر سنجیدہ غوروفکر کی ضرورت ہے کہ جس عظیم مقصدکے لئے کشمیری عوام تحاشہ قربانیاںدے کر استقامت کے ساتھ چل رہے ہیں ،اس کو نظر انداز کر کے کیا آج تک دلی مسئلہ کشمیر کے مستقل حل سے گریز پائی کر کے کشمیر میں سوائے قبرستانوں کی تعداد بڑھانے اور ظلم وتشدد کی بھٹیاں سلگانے کے اور کچھ حاصل کرسکی ؟ اب اس مائنڈ سیٹ کو بدلتے ہوئے اس بات کو عملی طور کر دکھانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کاحل نہ گولی ہے نہ گالی بلکہ اس کا حل صرف کشمیریوں کی سیاسی امنگوں کے مطابق کشمیر حل کے ایک متفقہ نقش ِ راہ وضع کر نے میں ہے۔ بصورت دیگر سٹیج پر ڈائیلاگ بازی ایک بے سود عمل ہے ۔ واضح رہے کہ ا س سے قبل نریندر مودی نے 2؍اپریل2017اتوارکو سرینگر جموں شاہراہ پر چنانی ناشری ٹنل کا افتتاح کرتے ہوئے کشمیری نوجوانوں کونمرودی لہجے میں پیغام دیا تھا کہ انہیں’’ سیاحت یا دہشت ‘‘میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔اہل کشمیرنے اس پرسوال اٹھایاتھاکہ ٹنل بنانا اگر ہم پرکوئی احسان ہے توپھرانگریزسے آزادی کی جنگ کیوں لڑی گئی؟ پھر برطانوی سامراج کے خلاف کوئٹ انڈیاکی تحریک کا مقصد کیا تھا ؟ اس منطق کی رُوسے اہل ہند کو انگریزکارہین منت رہناچاہئے تھااوراُس کے سامنے گردن خم کرکے اطاعت شعاربن جاناچاہئے تھا۔19؍مئی ہفتے کی تقریرکالب لباب بھی یہی تھامگرآج بھی کشمیری عوام اپناوہی سوال دہرارہے ہیں جس کاجواب وہ چنائی ٹنل کے وقت وہ پوچھ رہے تھے۔
سچائی یہ ہے کہ انگریزسامراج نے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میںغاصبانہ قبضہ کیاتھااوراس کے باوجودکہ برطانیہ نے ہندوستان میں بہت سارے تعلیمی، ترقیاتی اورتعمیری کام کئے ہندوستانی عوام اپناحق آزادی حاصل کرنے کے لئے اس وقت تک برسرجدوجہدرہے جب تک ہندوستان کوبرطانوی سامراج سے ہند کو آزادی نہ ملی۔علیٰ ہذالقیاس ریاست جموں وکشمیرایک متنازعہ خطہ اورحل طلب مسئلہ ہے ۔ریاستی عوام گذشتہ سات عشروں سے اپنا پیدائشی حق حق خودارادیت مانگتے ہیں۔جب تک ریاست جموں وکشمیرکے عوام کوان کابنیادی اورپیدائشی حق نہیں مل جاتا۔تب تک کشمیریوں کوتعلیم اورروزگارکے مواقع فراہم کرنے اورریاست میںبنیادی اسٹریکچرکی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔لہٰذااگربھارت کشمیریوں کی روز مرہ سہولیات وضروریات کا اہتمام سڑک ، پانی اور بجلی کر تا ہے تو اس کے لئے اخلاقی طوریہ اس کاپابندہے۔اس لئے کشمیری عوام کویہ کہہ کر ٹرخایا نہیں جاسکتاکہ ہم ہیں جواپناپیٹ کرتمہارے لئے انفراسٹراکچربنارہے ہیں۔انگریزنے برصغیرکے عوام پرطاقت کے بل پراپنی جبری بالادستی قائم کرلی اور1858 ء میں سارا ہندوستان برطانوی اقلیم میں شامل ہو گیا۔برطانوی سامراج نے قریب سو برس تک متحدہ ہندوستان پر حکومت کی اوریہاں تعمیر و ترقی کے ضمن میں جو کچھ بھی کیا وہ اپنی حکمرانی کی سہولت کے لئے کیا ، اگرچہ اس کا فیض مقبوضہ لوگوں کو بھی پہنچا۔ جب تک انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کی حیثیت سے ہندوستان میں رہا، اس کا اولین مقصد تجارت تھا یا سازشیں کر کے مقامی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنا ، ان ریاستوں کو اپنا باج گزار بنا نا اور ان کی زمینوں کا مالیانہ وصول کرنا تھا۔ اس کے باوجود ایسٹ اِنڈیا کمپنی نے اپنے آخری ایام میں برصغیر کی 3 مشہور یونیورسٹیوں کی بنیاد ڈال دی تھی۔ مدراس ، کلکتہ اور بمبئی یونیورسٹیاں1857 کے اوائل میں قائم ہوئی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسٹ اِنڈیا کمپنی کا تمام کاروبار اور عوامی رابطہ اِن ہی علاقوں سے رہا جہاں یہ یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ مقامی طورپر انگریزوں نے سڑکیں اور علاقائی ریلوے لائن بھی بچھانی شروع کر دی تھی، لیکن انگریزی راج کے آنے کے بعد پورے برصغیر میں ریلوے کا نظام قائم ہونا شروع ہو گیا۔آج بھارت یاپاکستان میں جوریلوے نظام قائم ہے انگریزکابنایاہواہے ۔برطانوی سامراج نے اس خطے کو پختہ سڑکوں کا نظام دیا جس سے بڑے بڑے شہر ان دیہاتوں سے جڑ گئے ، جہاں سے آج ہماری معاشی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ ہمارے دیہاتوں کو رابطہ سڑکیں میسر آئیں ،ڈاک اور تار کے سسٹم سے عوام کو تیز پیغام رسانی کی سہولت میسر آئی ،مشنری اور حکومتی مدرسوں کا جال بچھا۔ عوام کی تفریح اور معلومات فراہم کرنے کے لئے ریڈیو سٹیشن وجود میں آئے۔ انگریزی راج نے برصغیرکے آثارِ قدیمہ کو جو تہ ِ زمین مدفون تھے ،ان کو نہ صرف دریافت کیا بلکہ دنیا میںبرصغیرکی تاریخی اہمیت کو روشن کرایا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلا پرنٹنگ پریس کلکتہ میں 1775 میں نصب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کلکتہ علم، ادب میں تمام ہندوستان سے آگے تھا۔ سامراجی حکومت نے ذرائع ابلاغ کو عام کیا، اخبار نویسی کی ہمت افزائی کی، جس سے عوام میں سماجی اور سیاسی شعور پیدا ہوا۔ انگریزی سامراج نے ہی آل اِنڈیا کانگریس بنوائی اور پھر 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کو عالم ِوجود میں آنے کا موقع ملا۔اِسی مسلم لیگ نے بالآخر پاکستان بنا دیا۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے نمایاں لیڈر انگریز کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے پڑھ کر انگلستان سے بیرسٹری کی قانونی تعلیم حاصل کر کے آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوئے۔
یورپ میں مختلف شعبہ جات میں جو ترقیاں ہو رہی تھیں، خواہ وہ انجینئرنگ کا شعبہ تھا یا طِب کا، ہندوستانیوں کو انگریز نے ان کار آمد شعبوں سے محروم نہیں رکھا۔ لیبارٹری اور ریسرچ پر مبنی ایلوپیتھک طریقہ علاج نہ صرف ہم سے متعارف کروایا، بلکہ طب کی تعلیم کے بہترین اِدارے دئیے ۔یہ اِدارے بین الاقوامی شہرت و اعتباریت کے حامل ہیں۔ تعلیم کے حصول کے لئے جدید خطوط پر مدرسے انگریز نے ہی بنائے۔ ہندئووں کی تعلیم کے لئے آشرم اور دھرم شالائیں تھیں، جہاں یوگا، گیتا، رامائین ، ہندی جوتش، حساب اور کلاسیکی فنونِ لطیفہ اور جڑی بوٹیوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ہندو آشرم پھر بھی کچھ نہ کچھ دنیاوی علم سکھاتے تھے ۔ اس خطے میں فوج کی تربیت کا معیار اور نظم و ضبط کی داغ بیل انگریز نے ڈالی تھی۔ اِسی طرح انجینئرنگ کے شعبے میں انگریز نے بجلی کی پیداوار اور ترسیل کو اولین اہمیت دی ۔ متحدہ ہندوستان میں پہلا ہائڈل پاورڈیم دارجلنگ آسام میں بنا ،جو صرف محدود ضروریات کے لئے تھا اور دوسرا پنجاب میں سر گنگا رام نے رینالہ خورد ھائڈل پروجیکٹ کے نام سے اوکاڑمیں بنایا۔دنیا کا سب سے بڑا اور مربو ط نہری نظام متحدہ ہندوستانی پنجاب کو انگریز سے ملا جو تقسیم کے بعد تمام کا تمام نظام پاکستان کے حصے میں آیا۔انگریزنے انیسویں صدی عیسوی کے آغاز پر جدید ترین نہری نظام تعمیر کروایا جو آج دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام کہلاتا ہے، اس نظام کے تحت پانچ دریاں پر مختلف جگہوں پر 20 بڑے بند اور ہیڈ ورکس باندھ کر 48 نہریں نکالی گئیں جن کی کل لمبائی چالیس ہزار میل ہے۔ 1981، 82 کے اعداد وشمار کے مطابق 77100 لاکھ ایکڑ رقبہ نہروں کے ذریعہ سیراب ہوتا ہے۔ اس نہری نظام نے پاکستان کو نئے شہر دئیے ۔ لائل پورجوآج فیصل آبادکے نام سے مشہورہے اورجوجو پاکستان کا بڑا صنعتی مرکز کہلاتا ہے، اِسی نہری سسٹم کے ذریعے وجود میں آیا۔ چھوٹے چھوٹے دیہات بڑے شہروں میں تبدیل ہو گئے جیسے سرگودھا، خوشاب وغیرہ۔ نئے شہروں کی آبادکاری کی وجہ سے ہی (Townplaning)اور(Wasa) واٹراورسیوریج کا تصور ملا۔ انگریز کے آنے سے پہلے والے لاہور کا نقشہ دیکھ لیں۔ تنگ اور بے ہنگم گلیاں اور راستے، پکی سڑک کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ جب یورپ پتھروں کی سڑکیں (Cobbled streets) بنا رہا تھا تواس خطے کی گلیاں اور راستے تانگوں اور بیل گاڑیوں کی ٹاپوں سے اُڑتی خاک سے اٹی ہوئی ہوتی تھیں۔ ٹیکسلا، ہڑپہ اور موئنجودڑو کی ٹان پلانگ کا برصغیر کے رہنے والوں کو معلوم ہی نہیں تھا۔یہ درست ہے کہ انگریز نے جو بھی ترقیاتی کا م برصغیر میں کئے وہ ہندوستانیوں کی بھلائی کے لئے نہیں تھے۔ اس نے یہاں سے خام مال لے کر اپنی صنعت چلانی تھی، جس کے لئے جدید مواصلاتی نظام درکار تھاجو خطے کو سڑکیں، ریلویز، بندگاہوں اور ڈاک و تار کی شکل میں ملا ۔اِسی طرح اسے لوکل انتظامیہ کو چلانے کے لئے جدید تعلیم کی ضرورت تھی تاکہ دیسی بابوں سے کام چلایا جا سکے۔اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پورے ہندوستان میں سکولوں کا جال بچھا دیا۔ انگریز نے برصغیرمیں اپنی قانون سازی کی اورپھر عوام کواس کے استعمال کی تربیت دی۔انگریزنے متحدہ ہندوستان میںاپناسامراجی نظام چلانے کے لئے ڈسٹرکٹ بورڈز کا نظام قائم کیاجہاں سے ہمارے مستقبل کے سیاست دان قانون سازی کا علم حاصل کر کے ہمارے لیڈر بنے۔ ایک طرف یہ ساری صورتحال لیکن دوسری طرف برطانوی سامراج بہرصورت برصغیرپرقابض قوت کے طورپرموجودتھی۔
اس سارے منظرنامے کوسامنے رکھتے ہوئے اگر وزیراعظم نریندر مودی کے پیمانہ ٔ فکر سے سوچا جائے تو برطانوی سامراج کو ایسی تعمیر و ترقی کے بعد بھارت کو کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑنا چاہئے تھا ،نہ ہی گاندھی،نہرو، سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ اور آزاد کو برطانیہ سے آزادی مانگنی چاہئے تھی اور اپنی آزادی کیلئے تحریک چلانی چاہئے تھی۔کشمیری مسلمانوںکا مودی کو وہی جواب ہے جو گاندھی نے ایک برطانوی آفیسر جس نے ان سے کچھ اسی قسم کا سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا :بھارت آزاد ہوجائے گا تو کیونکر زندہ رہے گا؟ اس کا جواب میں گاندھی نے کہا تھا کہ وہ ایک کمزور و ناتوان اور نالائق آزادی کو طاقت ور، لائق اور مال دار غلامی اور بیرونی تسلط پر ترجیح دیں گے۔ بہر صورت بھارتی وزیراعظم کو تدبر وتفکر سے اہل کشمیر کے ا صل جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ کشمیریوںنے 19؍ مئی کو ہمہ گیرسول کرفیوکر کے مودی جی کو بزبان حال بتلادیاکہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ اور حل طلب مسئلہ ہے ،اس لئے سہولیات اور پیکجوں کی سیاست کر کے کشمیری عوام کا دل جیتا جا سکتا ہے نہ وادی کشمیر میں امن کی بہاریں چھاسکتی ہیں۔اگر بات صرف یہی ہوتی توپھرامسال پچھلے 4ماہ 200سے اب زائد کشمیری نوجوان ابدی نیند کیوں سوجاتے؟پھرنوجوان اپنی آنکھیں کیوں کھودیتے ؟ اگر درد کا درماںسری نگرکارنگ روڈہی ہے توہزاروں کشمیری نوجوانوں جیلوں میں نظربند کیوں؟ امر واقع یہ ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل نہیں نکالا جاتا اس خطے میں قیام امن اور تعمیر وترقی یا وکاس نام کی کوئی چیز ممکن نہیں۔کشمیرکی عصری تاریخ گواہ ہے کہ سابق وزرائے اعظم واجپائی اورمن موہن سنگھ نے بھی اپنے اپنے دوراقتدارمیں کشمیر میں کثیرالنوع پیکیجزکااعلان کیا ، سرینگرمظفرآبادبس سروس ، آرپارٹرکوں کے ذریعے تجارت، بانہال ٹنل تا بارہمولہ تک ریل رابطہ وغیرہ سب کچھ کیا،خودمودی جی نے چنائی ٹنل بنواکراس کاافتتاح اپنے ہاتھوں سے کیالیکن اس کے باوجوکشمیری اپنے بنیادی مطالبے سے دستبردار ہونے پر تیارنہ ہوئے کیونکہ وہ صرف کشمیر حل چاہتے ہیں اوربس ۔