گزشتتہ اٹھائیس سال سے پورے کشمیر میں سیاسی حالات کسی بھی ا عتبارسے سدھر نے کانام ہی نہیں لے رہے اور نہ خون خرابے کا سلسلہ کہیں رُکنے کا اشارہ دے رہاہے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ مسئلہ کشمیر ابھی تک سیاسی طور حل کر نے سے اعراض کیا جارہاہے ۔گھمبیر صورت حال کے تناظر میںالبتہ سال2016ء سے تادم تحریر خصوصی طور حالات کا سفر جنوبی ہند کے لئے بہت ہی ناگفتہ بہ رہا ۔ یہ سال اپنا نصف سفر طے کرکے اپنے اگلے پڑاؤ کی جانب بڑ ھ رہا تھا، اورطوفانی حالات کا بہاؤ اپنے معمول پر تھا کہ 8؍جولائی کی شام کوکرناگ میں ہوئے انکاؤنٹر میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت جان بحق ہوئے ۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی پھیلنے کی دیر تھی کہ کشمیر کے اطراف وجوانب میں تو اس کے ردعمل میں ماتم برپا ہوا اور ہر چہارجانب احتجاج کا الوا پھوٹ پڑا ۔ بجائے اس کے کہ وردی پوش اس ہمہ گیر سوگواری کا ادراک کر کے صبر وتحمل سے کا م لیتے، فورسز نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اورہلاکتوں کا نہ رُکنے والا مہیب سلسلہ شروع کیا ۔اس سے عوامی ردعملا ور تیکھا ہوا، مزاحمتی تحریک کو نئی جلّا ملی ، عوام کا متحد ہ اور بے خوف کردار حقیقت بن کر سامنے آیا۔یہ کسی خواب سے کم نہیں تھالیکن دوسری جانب ا س دوران ایک سو سے زائدپیر و جوان قبرستانوں کی زینت بنے اور ہزاروں اپاہج ہوئے ، سینکڑوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے۔ پھر سال 2017 ’’آپرویشن آل آؤٹ ‘‘ کے نام سے مزید خون ریزیوں اور مارا ماری میں گزرا ۔ یہ سلسلہ اب نئے سال میں بھی جاری ہے ۔ چند دن قبل شوپیان میں آرمی کے ہاتھوں دو نوجوانوں کا سفاکانہ قتل اب سال2018
کو خون کے آنسو رُلا رہاہے ۔ واضح رہے یہ سب خود کو جنوبی کشمیر کی لاڈلی ماننے والی پی ڈی پی کی حکومت کے دوران ہورہاہے اور اسی حکومت کی کرم فرمائی سے صرف جنوبی کشمیر کی ماوؤں اور بوڑھے باپوں کی جھولیوںمیں ایک مختصر عرصہ میں 72؍لاشیں سونپ گئیں۔ستم بالائے ستم مظلوم عوام کی آنکھوں کی بینائی چھین لینے کا ریکارڈ بھی بنایا گیا۔صنف نازک پر بھی ایسی ہی کرم فرمائیاں ہوئیں ، چنانچہ رہمو پلوامہ کی سائمہ سے لے کر سدو شوپیان کی انشاء مشتاق تک کے اُجالوں کو اسی حکومت کے زیر سایہ گھپ اندھیرے کی نذر کردیا گیا۔
2016ء کے بعد اگرچہ وادی کشمیر نے تھوڑی سے راحت کا سانس لیا لیکن جنوبی کشمیر میں آہ و فغاں کی داستانیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ اس دوران عوامی احتجاجوں کا مرکز عسکریت پسندوں کے خلاف آ وپریشنز سپاٹ اور دیہاتوں میں CASOکے مقامات بنے۔ مظاہروں کے جواب میں فوجی بندوقوں کے دہانے نہتے عوام پر کھلتے رہتے ہیں،ان مظاہروںکو لے کر سول کلنگس کا جواز بڑی آسانی سے تراشا جاتاہے ۔ بنابریں اب جنوبی کشمیر کے لگ بھگ ہر انکاونٹر میں کسی نہ کسی شہری کی ہلاکت کی خبر ضرور ملتی رہتی ہے۔ فتلی پورہ پکھرپورہ، ٹھوکرپورہ،کیلر،گنو پورہ شوپیان، لیتر پلوامہ کے معرکے حالیہ چند مہینوں کے قابل ْذکر واقعات ہیںجہاں عوام الناس کو جانی نقصانات اٹھانے کے ساتھ ساتھ اربوںروپے کی مالیت کے سیب،گاڑیوں،ملبوسات ، مکانوںاور کارگاہوں کو چند لمحوں میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے دیکھنا پڑا۔ریاست جموں و کشمیر میں سیاست کو قاتلانہ تجارت کا درجہ دے کرصاحب اقتدار لوگوں نے اپنا اپنا کاروبار انسانی خون اور بستیوں کی تباہیوں کو بنارکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس خطہ میں آتشیںحالات میں جھلستے لوگ عرصہ دراز سے اپنے آپ کو کبھی بھی محفوظ ومامون نہیں پا رہے ہیں۔ بی جے پی اسمبلی ایسے جگر سوز وارداتوں سے بھلے ہی اپنا ووٹ بنک بڑھائیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پی ڈی پی کی مرہمی سیاست کی پول جنوبی کشمیر میں کھل رہی ہے۔
اس بات کے گواہ اہل کشمیر ہی نہیں کہ آسمان میں محو پرواز پرندے اور کشمیر کے شجر وحجر اس بات کے گواہ ہیں کہ AFSPAکا کالا قانون کس نے پہلی بار کشمیر میں لاگو کروایا اور پھر کس طرح قانونِ انسانیت کے پرخچے اڑانے والے اسے کالعدم کرانے کے جھوٹے وعدے اور سبز باغ دکھا تے رہے ۔ 1990ء میں افسپاکی یہ دودھاری تلوار کشمیریوں پر الل ٹپ لٹکا دی گئی۔افسپا یعنی آرمڈ فورسز ایکٹ کے سیکشن ۴ کے تحت فوج کاکوئی بھی جونئیر کمیشنڈ آفسر شک کی بنیاد بنا کر کسی بھی کشمیری کے خلاف کوئی بھی ملٹری کاروائی کر سکتا ہے اور قانو کے کٹہرے میں اس کا کوئی موخذہ نہ ہوگا۔اس قانون نے یہاں کون سے گل کھلائے وہ ہر کس و ناکس پہ عیاں ہے۔اس کی ایک عنایت یہ ہے کہ کشمیر میں نہ صرف ایک لاکھ قبروں میں ہیں بلکہ آج بھی ہزاروں پیر وجوان زیر حراست لاپتہ ہیں۔ اٹھائیس سال کے عرصہ میںقبرستانوں کے قبرستان آباد ہوگئے، بے نام قبروں کی بھرمار ہوگئی، عصمتیں لٹیں ، خانوادے برباد ہوئے، انسانی حقوق کے جنازے اٹھے، اورافسپا جیسا کالا قانون ابھی تک نافذالعمل ہے جب کہ آرمی چیف اعلان کہہ رہے ہیں کہ اس دہشت پسندانہ قانون کی واپسی ابھی محال ہے۔ کشمیری قوم سوال کرتی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک اورانسانی حقوق کے عالمی ادارے جموں کشمیر میں ہرروز بڑھتے ہوئے بدترین بھارتی مظالم پر خاموش کیوں ہیں؟کیا انہیں یہاں کی قتل و غارت گری، اجتماعی قبریں، عصمت ریزیاں ،کشمیری نوجوانوں کا قید وبند، ان کے تعلیمی کیرئیر کو تاریک بنانے کی چالیں، جائیدادوں اور املاک کی بربادیاں نظر نہیں آتی ؟آخران کی زبانیں خاموش کیوں ہیں؟ مظلوم کشمیری یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ مشرقی تیمور کا مسئلہ ابھرا تو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے فی الفور حرکت میں آگئے اور انڈونیشیا کوانسانی حقوق کی پٹی پڑھا کر مسئلہ جلد حل کرنے کو کہا لیکن کشمیر جس کے بارے میں اقوام متحدہ اٹھارہ قراردادیں پاس کرنے کے باوجود عالمی ادارہ وہاں بھارتی قیادت کو مسئلہ کشمیر کاحل نکالنے کا مشورہ دینا اپنی شان میں گستاخی کیوں سمجھتا ہے؟ یہ ان اداروں کی دورخی پالیسی کو ظاہر کرتی ہے کہ فرانس اور ڈنمارک میں دہشت پسندانہ حملے میں مارے گئے لوگوں کے حق میںیہ ہمدرد ہیں لیکن کشمیر میں بہہ رہا انسانی خون انہین پانی سے سستا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیداروں کی منافقت کو بے پردہ کرتی ہے ۔ اگر کسی خونی واقعہ میں مسلمان ملوث ہوتو شرق و غرب میں پوری مسلم امہ دہشت گرد جتلایا جاتا ہے اور جب یہی’’ کارنامے‘‘ کشمیر میں وردی والے انجام دیتے ہیں تو ایسے خاموش ہوجاتے ہیں جیسے ان کو سانپ سونگھ گیاہو۔ اس وقت جنوبی کشمیر میں خاص کر مارکٹائی اور تباہ کاریوں کے بت نئے ریکارڈ بنائے جارہے ہیں مگر دنیائے انسانیت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ بے عیب سچ یہ ہے کہ کسی مبنی برحق آواز کو طاقت اور دہشت کے بل پر دبا یاتو جاسکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جاسکتا۔ اس سلسلے مین ایک چشم کشا انکشاف یہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ سال2017ء میں دو سو کے قریب عسکریت پسندوں کو مار ا گیا لیکن اسی دوران سو سے زائد نئے نوجوانوں نے عسکریت کے راستے کا انتخاب کرلیا۔ یہ نہ ختم ہونے والی سخت جانی دیکھ کر 1947 ء سے ہی مسئلہ کشمیر کے تئیں ہر نیا فارمولہ آزمانے والے بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کرچکے کہ افہام و تفہیم کا راستہ ہی فریقین کے منصفانہ حل کاضامن ہوسکتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق جنوبی کشمیر میں ہر پانچ دنوں کے بعد ایک دن ہڑتال ہوتی ہے، جس کے ساتھ ہی انٹرنیٹ سروس بھی بجلی کی طرح آنکھ مچولی کرتی رہتی ہے۔ستم یہ کہ عوام کے خلاف اس چھیڑی گئی جنگ کو بھارتی میڈیا’’ملکی دفاع یا پاکستانی سازش ‘‘قرار دینے کیلئے پوری مہارت استعمال میں لاتارہتا ہے ۔ اس میڈیا کے پاس اگر ضمیر ہے تو یہ خود سے سوال کرے کہ ہاتھوں میں قلم اور لیپ ٹاپ اٹھانے والے شوپیان کے شاکر احمد میر ،جاوید احمد بٹ اور سہیل جاوید کو کس ’’ملکی دفاع اور غیرملکی سازش ‘‘ نے خاک اور خون میں نہلایا ؟تینوں معصوم نوجوانوں کے والدین نے اپنے لئے اور اپنے لخت جگروں کے لئے نہ جانے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے،جو فوج کی گولیوں سے ایک دم چکنا چور ہوئے۔اگرچہ ایسے لخت جگروں کو جان بوجھ کر جاں بحق کر نا ریاست جموں و کشمیر میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی نسل کشی کے منظم پروگرام کے تحت ہزاروں جاویدوں اور شاکر وںکو دن کے اُجالے اور رات کے اندھیرے میںقتل کیا گیا۔ اب حکومت انکوائری بٹھائے تو کیا ہوگا ؟ شوپیان کی ہی آسیہ اور نیلوفر سے لے کر کپواڑہ اور کاکاپورہ کی شائستہ حمید سے لے کرسرینگر کے وامق فاروق اور طفیل متو تک ایسے سبھی کیسوں میںوقت گزاری کیلئے تحقیقاتی کمیشن بٹھائے گئے اور نتیجہ ایک ہی برآمد ہو اکہ بھول اپنے مارے گئے عزیزوں کو۔اسی لئے شوپیان کے جان بحق ہوئے نوجوانوں کے والدین نے اس تحقیقات کو ’’کبھی مکمل نہ ہونے والی تحقیقات‘‘ قرار دے کر اسے بے سود عمل بتلایا۔ہم نے گزشتہ اٹھائیس برس سے چلے آرہے نامساعد حالات میں قتل و غارت،خون ریزی،عصمت دری،ماردھاڑ، بدامنی،گرفتاریاں، نظربندیاں، کرفیو،ہڑتال، مظاہرے، چھاپے،تلاشیاں،حراستی ہلاکتیں، گولیاں، گمنام قبریںاور انسانی حقوق کی پامالیوںاور شہری آزادیوں کی مٹی پلید ہوتی دیکھی ہے۔یہاں کس کس ظلم وتشدد کا نام لیں؟کونسے ستم ہیں جو اہل کشمیر نے جرم بے گناہی کی پاداش میں نے نہیں جھیلی ہیں؟دراصل یہاں اسرائیلی طرز پر نسل کشی کی جارہی ہے جیسے فلسطین میںاسرائیل وہاں کے مسلمانوں کی آبادی تناسب گھٹا کر ان کے وطن میں غیر ملکی یہودیوں کو بسارہا ہے ۔اس امرواقع پر نام نہادعالمی برادری اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے حقیقت یہی ہے کہ جنوبی کشمیر میں مسلسل حالات نامساعد رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ بقیہ کشمیر میں حکومت ہند کا ’’مشن کشمیر ‘‘ پایہ ٔتکمیل کو پہنچا ہے ۔ نہیں قطعاًنہیں ، پورا کشمیر ظلم و جبر اورتشدد و تخریب کی سلگتی بھٹی میں دہک رہاہے ۔ البتہ گزشتہ دوسال سے جنوبی کشمیر کو خصوصی نشانے پر رکھاگیا ہے اور بیچ بیچ میں شمالی اور وسطی کشمیر میں ماردھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا جاتاہے ۔اس ساری تکلیف دہ تشدد کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ کشمیر حل کے لئے سچے دل اور مستحکم سیاسی عزم کے ساتھ تینوں فریق مل بیٹھیں۔ گفت وشنید سے اعراض کرنا اور بندوق کی نالی سے بے تحاشہ انسانی جانیں لینا، آبادیاتی ساخت بگاڑنا، قید وبند کی سلاخوں کے پیچھے لوگوں کو دھکیلنا، آباد بستیوں کو اجاڑنا اور عصمتیں تار تار کر نا۔۔۔ کیا انہی مظالم سے کشمیری عوام کو جبراً خاموش کرانا ایک احمقانہ سوچ نہیں ہے؟ اس طرزعمل کو ہٹلر اور مسولینی نے اختیار کر کے اپنے لئے تاریخ کے اوراق میں صرف نفرت اور بے توقیری کا سامان اکھٹا کیا۔ لہٰذا بہتری اور دانائی یہی ہے کہ ا س سے قبل کہ معاملہ اور بگڑجائے ’’آ وپریشن آل آؤٹ‘‘ کو ختم کرکے جنوبی کشمیر اور دیگر اضلاع میں بحالیٔ اعتماد کیے اقدامات کئے جائیں اور کشمیر حل کے سیاسی پیش رفت کی جائے ۔ نیز افسپا کی آڑ میں انسانیت کی مٹی پلید کر نے والے فورسز اہلکاروںکو جب تک انصاف کے کٹہرے تک لایا نہیں جاتا ،جموں کشمیر میں انسانی اقدار کی پامالی کا خطرہ کبھی نہیں ٹلے گا۔مار دھاڑ کے اس سلسلے کویہی روکئے اگر کشمیر میں واقعی امن اور سکھ شانتی کی فضا پیدا کر نے کی کوئی خواہش ارباب ِ اقتدار میں موجود ہے۔
رابطہ9906763589