میر ابراہیم سلفی
کچھ واقعات و حادثات جگر کو چھلنی کر دیتے ہیں،کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں ۔کیونکہ ہماری حالت اور ایک دوسرے سے متعلق ہمارا سلوک درندوں جیسا ہے۔ہماری نسبت نبی کریم ؐ کے ساتھ ہے جنہوں نے اپنے مخالفین کے لئے بھی کردار رحمت پیش کیا ۔یہاں خود کو اسلام کے متبعین کہلانے والے شریعت کی ان مبارک تعلیمات کو تار تار کر رہے ہیں ۔کردار و گفتارشیطان جیسا اور دعوے فرشتوں جیسے۔مساجد میں بندہ مومن اپنے وجود کو رب العالمین کے سامنے جھکا کر اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ میں خالی ہاتھ ہوں ،زمین پر گر چکا ہوں ،بے بس اور فقیر ہوں لیکن زمینی حقائق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اب نفرتوں کے بازار مساجد میں بھی سجائے جاتے ہیں ،دلوں کا حسد ،ایک دوسرے کی عداوت دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور نام لیتے ہیں سیرت نبی کریمؐ کا۔ہم اس قدر سنگدل بن چکے ہیں کہ دوسری کی تڑپ دیکھ کر ،دوسرے کی تباہی و بربادی دیکھ کر ہمیں سکون ملتا ہے ۔جب کوئی مدد کے لئے پکارتا ہے تو ہم اپنی عیاشیوں اور خرافات میں ڈوبے رہتے ہیں ۔گھریلو سطح کی بات کی جائے تو گھر میں بزرگ والدین اس معاشرے کے سب سے ضعیف اور مظلوم افراد ہیں ۔ان پر ظلم و جبر کرنے والے غیر نہیں بلکہ ان کا اپنا خون ،ان کے اپنے اولاد ہیں ۔سماجی سطح پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ مجبوریوں کا فائدہ اٹھانا جانتا ہے ،حالات کے ماروں کویہاں کھلونوں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ،ان کا استحصال ہر سطح پر کیا جاتا ہے ۔ایک وقت تھا کہ کسی کا درد ،کسی کی تکلیف ،کسی کے مسائل دور کرنے کے لئے اور ان کو حل کرنے کے لئے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اور سہارا بن کر کھڑے رہتے تھے ،گھر میں پڑی جوان بیٹی کا نکاح کرانے کے لئے پورا گاؤں اور پوری سوسائٹی پہل کرکے یہ فریضہ انجام دیتے ،کسی گھر کی حالت زار دیکھ کر خفیہ طریقے سے اس کے بچوں کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا ،لوگوں کی خوشی میں خوش ہوکر اور لوگوں کی تکالیف میں درد محسوس کرکے ایک دوسرے کا ساتھ دیا جاتا تھا ۔کوئی بیمار ہوتا تو پورا محلہ تیمارداری کرنے کے لئے آتا ،علاج و معالجہ کے لئے پیسے دئے جاتے ،فخر سے ایک دوسرے کے معاملات میں بہتری کے لئے آگے آتے تھے۔کوئی مقروض ہوتا تو ذمہ داران اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھا کر قرض کی ادائیگی کیا کرتے تھے ۔لیکن حالات بدل گئے ،لوگوں کے احوال بدل گئے ،سوچنے کا ڈھنگ تبدیل ہوگیا ،مادہ پرستی نے اپنا جھال بچھا دیا ،لوگ حیوانیت کی حد پار کرگئے ۔کس کی نظر لگ گئی اس مہکتے ہوئے چمن کو،کس نے اس گلشن کے پھولوں کو روند ڈالا؟ ہاے حسرت! زمینی حالات پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اہل ثروت خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں ،کسی کے آنسوؤں دیکھ کر دل کی سختی دور نہیں ہوتی بلکہ مزہ لئے جاتے ہیں ،لطیفے سنائے جاتے ہیں ۔کوئی بھوکا مرجائے کوئی پوچھنے والا نہیں ،کسی کی عزت نیلام ہورہی ہو تو دفاع کرنے کے بجائے افواہ بازی کی فضاء گرم کی جاتی ہے ۔ رشتوں کی پہچان نہیں ،آنکھوں میں حیا نہیں ،دلوں میں درد نہیں ۔کیا ہوگیا اس معاشرے کو؟
راقم یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے کہ شریعت کے دعوے دار حقوق العباد کی معرفت حاصل کریں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج میں پنپتے ہوئے انہیں چیزوں کا خاتمہ کیا تھا ۔انصار صحابہ کی قربانیاں کسے یاد نہیں ،تاریخ کا یہ سنہرا باب آج بھی فخر سے بیان کیا جاتا ہے ۔لیکن کیا ہمارا کردار انصار مدینہ کی ترجمانی کرسکتا ہے ؟ بلکل بھی نہیں ۔تاریخ اسلام کے یہ مبارک اوراق مزے اٹھانے کے لئے نہیں پڑھے جاتے بلکہ اپنی تربیت کے لئے زیر مطالعہ لائے جاتے ہیں ۔غزوات و سرایا میں شرکت ،اپنے جان و مال کی قربانی ،اپنے نفوس پر دوسروں کو ترجیح دینا انصار صحابہ کا کردار مبین تھا ۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپؐ نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔’’(صحیح مسلم ) حجتہ الوداع کے موقع پر بھی امام الانبیاء نے ملت اسلامیہ کے سامنے یہی وصایا رکھی تھیں۔اسلام کی مبارک تعلیمات اتحاد و اتفاق کا درس دیتی ہیں ،صفوں کو جوڑنے کی بات کرتا ہے ،غلاموں پر شفقت کا درس دیتا ہے ۔یہاں راقم یہ بات قاری کے ذہن میں ڈالنا چاہتا ہے کہ ہر عروج کے پیچھے زوال ہوتا ہے، لہٰذا اپنی حدود میں رہیں ،اللہ کی مخلوق پر رحم کریں ،آسمان والا آپ پر رحم کرے گا۔
بعض زخموں سے چور افراد تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنا درد کسی کے سامنے بیان نہیں کر پاتے ۔آپ اپنی زندگی میں مشغول ہیں ،آپ کو ہر نعمت سے نوازا گیا ہے ،اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر ایک کا یہی معاملہ ہے۔کتنے ہی لوگ غلط راہوں پر چل پڑے ؟ وجہ بس یہ تھی کہ ہم نے ان کے دکھ کا ادراک نہیں کیا۔ہمارے وقت کا بیشتر حصہ فضول کاموں میں صرف ہوتا ہے، لیکن کسی کی بات سننے کے لیے ہمارے پاس فرصت نہیں ،کسی کے حالات جاننے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ۔اس معاشرے کی تباہی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں تڑپتی ماؤں کے دل زخمی ہے ،ان کی بد دعائیں ہم پر مسلط ہوگئی ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا معاشرے میں جرائم کی شرح کیوں بڑ رہی ہے ؟ ہمیں صرف تبصرہ کرنا آتا ہے جبکہ ہمیں طبیب کا کام انجام دینا تھا ۔ہم تو مصلح بنائے گئے تھے مگرہم مفسد بن گئے ۔اگر درد کی زبان ہوتی ،اگر جذبات کی لسان ہوتی ،اگر احساسات کی ترجمانی ہوتی توشاید ہمارے کلیجے پھٹ جاتے ۔صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’تم ہرگز جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤاور اُس وقت تک تم ایمان والے نہیں بن سکتے، جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اُسے بجالاؤ تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ (پھر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:) آپس میں کثرت سے سلام پھیلاؤ۔‘‘ یہ جذباتی باتیں نہیں بلکہ شریعت نے ہمیں اس بات کا مکلف ٹھہرایا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے لئے جینا اور مرنا ہے ۔
عصر حاضر کے مدارس اور خانقاہوں میں مربیین ،اساتذہ اور مشائخ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے طلباء کے قلب و جوارح کو ملت کے درد سے آراستہ کریں ۔جذبۂ ایثار کی روح اپنے تلامذہ میں پھونکے ۔والدین اس بات کے مکلف ہیں کہ روز اول سے ہی اپنی اولاد کو درس انسانیت سے مزین کریں ۔وہ عکرمہ ہی تھا جو یرموک کے کنارے شدت پیاس سے شہید ہوگیا لیکن جذبہ ہمدردی کی ایسی مثال بیان کی کہ پڑھتے ہوئے بھی جسم کانپ اٹھتا ہے ۔یہی ہمارے اسلاف تھے ۔عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ ملت کے نوجوانوں کو سیرت النبی و سیرت اسلاف پڑھائی جائے اور سکھائی جائے ۔نفوس قدسیہ کا تعارف کروایا جائے ۔ملت کے خطباء اور ائمہ مساجد روایتی طریقہ سے ہٹ کر مساجد میں دروس قائم کریں اور نوجوان ملت کو اپنی حقیقی وراثت سے متعارف کرائیں ۔حقوق العباد کی مشق عملی زندگی میں کرنی ہے ۔اس کڑی میں ایک عظیم حدیث کا تذکرہ لازمی کرنا ہے جس سے اس امر عظیم کی عظمت ہم پر عیاں ہو جائے گی ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی پاسداری کی جائے ۔جس طرح سیرت طیبہ کی اعلی مثالیں ہم تک پہنچی ہے ،اسی طرح ہم بھی انسانیت کے خیر خواہ بن کر خود کو امر کریں۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں کی سختی دور کرکے جذبہ ایثار سے ہم کو نوازے۔آمین
رابطہ6005465614