عبدالرشید سرشار
تانبے کی سرکھی لئے ڈھلتے سورج کے سائے میں کریم صوفی، ایک پرانے نان بائی، اپنے وسیع اور پرانے تنور کے دہانے پر کھڑے تھے۔ غور کیجیے! یہ تنور محض روٹی پکانے کی بھٹی نہیں تھا، بلکہ ایک گمنام ہنرمند کی محنت اور اُس عہد کی سادگی کا مظہر ہے جب انسان خود کفیل اور اپنی فطرت سے قریب تھا۔ اندر خوبانی، بید اور سیب کی لکڑیوں کے دھیمے شعلے سُلگ رہے تھے؛ ہر شعلہ، ماضی کے کسی بھلے وقت کی ایک بھولی بسری یاد تھا۔
روٹیاں لگاتے وقت، کریم صوفی کی گرد آلود آنکھیں محض “شیرمال” کی حفاظت نہیں کر رہی تھیں بلکہ وہ اپنے فن کی پاکیزگی اور بے لوث خدمت کے تقاضوں کو پورا کر رہی تھیں۔ اُسی اثناء میں، لکڑی کے اُس پرانے کاؤنٹر پر بیٹھی ایک چنچل مینا، “نانِ خشک” کا ٹکڑا لےکر بھاگنے کی جسارت کر رہی تھی۔ یہ فطرت کی اُس بے نیازی کا ثبوت تھا جو انسان کی مصروفیت سے بے خبر رہتی ہے۔
دُھویں اور راکھ کا ایک مستقل پردہ کریم کے گرد تنا رہتا۔ ایک میلے ماسک کے باوجود، لکڑی کے جلنے کی سرانڈ اس کی ناک کے نتھنوں میں سنسناہٹ پیدا کرتی۔ وہ کدال کی طرح کا لمبا آلہ، جسے وہ پیار سے “بھالن جگانے والا” کہتا تھا، استعمال میں لاتا۔ کیا خوب نام ہے! یہ بھالن گویا دَورِ حاضر میں مرجھائی ہوئی قوم کی روح تھی جسے ایک مسلسل کوشش سے جگانا اور زندہ رکھنا لازم ہے۔ راکھ ہٹانا دراصل، غفلت کے پردوں کو ہٹا کر اصل شعلۂ حیات کو تازہ رکھنے کے مترادف تھا۔
دکان کا داخلی منظر ایک قدیم آرٹ گیلری کا سماں پیش کرتا تھا، جہاں ہر شے اپنے حال پر قناعت کر رہی تھی:
کونے میں رکھا اسٹیل کا بھاری، زنگ آلود ٹرنک، جس میں میدے کی چند بوریاں رکھی تھیں، ایک صبر آزما دور کی یادگار تھا، جب ہر شے مشکل سے میسر آتی تھی۔
لکڑی کے تختے پر گُندھے ہوئے آٹے کے پیڑے قطار در قطار ایک دستکار کی مسلسل اور باوقار محنت کی کہانی بیان کر رہے تھے۔
دھوئیں اور دہائیوں کی راکھ نے دیواروں کو جو مٹیالا وقار عطا کیا تھا، وہ خود ایک تاریخ تھا۔
اور ہاں، اُس ٹرنک کے پہلو میں پکی ہوئی مٹی کا حقہ اور سردیوں کی دوست کانگڑی پڑی تھی —۔ یہ دونوں اشیاء دکان کو محض ایک نان بائی کی جگہ سے نکال کر بزرگوں کی سبھا اور تہذیبِ رفتہ کا مرکز بنا دیتی تھیں۔
سردیوں کے دنوں میں کریم صوفی کی یہ دکان کسی سیاسی جلسہ گاہ سے کم نہ تھی۔ یہ اُس زمانے کی یاد تازہ کرتی ہے جب انسان دستیاب چیزوں کو استعمال کرکے خود کو موسمی شدت سے بچاتا تھا۔
غور کیجیے! پرانے مکانات، جن میں دو دو فٹ چوڑی کچی اینٹوں کی دیواریں اور مٹی کا فرش ہوتا تھا، سردی میں نہایت کفایتی اور مؤثر ثابت ہوتے تھے۔ باورچی خانے میں جلتا چولہا، صرف کھانا نہیں پکاتا تھا، بلکہ گھر کی دیواروں میں محبت اور باہمی حرارت بھرتا تھا۔ یہ تدبیریں عقل اور کم خرچی کا بہترین نمونہ تھیں۔
مگر آج! آج سائنس و ٹیکنالوجی کا جو طنطنہ ہے، اس نے ہمیں کس جگہ لا کھڑا کیا ہے؟ کنکریٹ کے فلک بوس فلیٹ، لوہے اور سیمنٹ کی بے پناہ آمیزش سے بنے ہیں اور نو انچ کی سیمنٹ کی دیواریں، جن میں سے سردی کی تیز دھار پار ہو جاتی ہے۔ کھانا پکانے کے لئے چولہا ناپید، اب ہر شے بجلی کے بل بوتے پر چلتی ہے۔ اور یہی تو ستم ظریفی ہے کہ ذرا سی برف کیا گری، بجلی کی تاریں زمین بوس اور نئی تہذیب کے کمزور اور پرانے لوگ اس نظامِ زندگی سے اکتا چکے ہیں۔
افسوس! عالی شان فلیٹوں میں کوئی کونا بزرگوں کےلئے سلامت نہیں بچا، جہاں ان کے دکھ درد کو سمجھا جاتا۔ نوجوان نسل اپنی ہی دنیا میں گم ہے، اینڈرائیڈ سسٹمز کے ساتھ سوشل میڈیائی دوستوں سے رشتہ نبھارہے ہیں اور نتیجتاً رشتۂ ازدواج تک کمزور پڑ گئے ہیں۔
لیکن یہاں، اس میلی کچیلی کریم صوفی کی دکان میں، ایک اخلاقی درس پوشیدہ ہے۔ یہاں دادا، پردادا، اور چچا، سب لوگ ایک تہذیبی رشتہ استوار کر بیٹھتے ہیں۔ جلتی لکڑی سے اٹھنے والی مانوس بو انہیں اپنے اسلاف کی پرانی خوشبو محسوس کرواتی ہے۔
سائنس کی رو سے حقہ مضرِ صحت ہو، مگر اس مجلس اور محفل میں سب کا مل جل کر بیٹھنا، باہمی گفتگو کرنا اور ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنا، یقیناً روحانی اور معاشرتی صحت کے لئے مفید ہے۔
خراب موسم کی شاموں میں، یہ بزرگ لوگ کریم صوفی کی دکان پر بن بلائے محفل جماتے ہیں، وہ حقہ پیتے ہیں، اپنے تجربات اور پرانی یادوں سے دامن کو باغ و بہار بناتے ہیں۔ یہ نان بائی کا تنور ان کے سرد دلوں میں یادوں کی گرم جوشی بھر دیتا ہے۔ یہ دکان نہیں، یہ تو ایک وقت کا وہ پُل ہے جو انہیں جدیدیت کے سیلابِ بے راہ روی سے نکال کر، قدیم سکون اور باہمی الفت کی آغوش میں پہنچاتا ہے، اور یہیں ہماری بقا کا راز مضمر ہے۔
���
حالسیڈار ویری ناگ، اننت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛7006146071