جو لوگ ممبئی کی لوکل ٹرین سے سفر کرتے ہیں اُنہوں نے اِس اعلان کا تجربہ کیا ہوگااور جزبز بھی ہوئے ہوں گے۔میں نے جب پہلی بار سُنا توحیرت اور کم تری کے احساس نے مجھے تھوڑی دیر کے لئے ضرور جکڑ لیا اور میں نے اپنے سینئرساتھی مسافر سے پوچھا کہ ایسا اعلان کب سے اور کیوں ہو رہا ہے؟اُن کا جواب یہ تھا کہ آپ کہاں ہیں یہ تو مہینوں سے ہو رہا ہے۔وہ اعلان یہ تھا کہ ’’فلاں گاڑی چھتر پتی شیوا جی مہاراج ٹرمِنس جا رہی ہے۔‘‘ چونکہ گاڑیاں ہر ۲۔۴؍منٹ پر جاتی رہتی ہیں اور ممبئی کا ہر لوکل اسٹیشن اِس اعلان سے ہمہ وقت گونجتا رہتا ہے اور چھتر پتی شیوا جی’’ مہاراج‘‘ کی آواز سے ہر شہری بادل نا خواستہ محظوظ ہوتا رہتا ہے!اِس نام میں پہلے ’مہاراج‘ نہیں جڑا ہوا تھا صرف چھتر پتی شیواجی ٹرمنس تھا جسے مختصراً سی ایس ٹی کہتے تھے اور اِس ’’مہاراج‘‘ کے جڑجانے کے بعد آج بھی سی ایس ٹی ہی کہتے ہیں۔میرے فاضل ساتھی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک آرڈر کے تحت ’مہاراج ‘ جوڑ کر کہا جانے لگا ہے اور ممکن ہے کہ ریاستی حکومت کی ایما ء پر ایسا کیا گیا ہو۔سی ایس ٹی سے پہلے اِسے وِی ٹی یعنی وِکٹوریا ٹرمِنس کہتے تھے۔اگر نام کے بدل دینے سے کرداراور نتائج میں تبدیلی آنے لگے تو سبھی اِس کا نفاذ کرنے لگیں گے اور پھر کوئی کام نہیں کرے گا۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ شان و شوکت کاغذ پر نہیں بکھیری جاتی۔اگر بکھیری بھی جاتی ہے تو وہ رزمیہ (ایپِک) کہلاتی ہے یا فکشن۔
مودی حکومت نے اِس برس جو این سی آر ٹی کے تاریخ کا نصاب تیار کیا ہے اُس میں ’’گجرات کے مسلم کش فسادات۲۰۰۲‘ء‘ سے ’’مسلم‘‘ لفظ نکال دیا ہے ،یعنی اب طلبہ اسے صرف ’’گجرات فسادات‘‘ پڑھیں گے لیکن مودی حکومت یا بی جے پی اس کا کیا کرے گی جو ہندوستان سے باہر تاریخ مرتب کی جا رہی ہے اور خود ہندوستان میں جو انفرادی طور پر تاریخ دان سرگرم عمل ہیں اور جن کی کتابیں وقفے وقفے سے منظر عام پر آتی رہتی ہیں،اُس سچائی کو مودی حکومت کیسے زائل کر سکتی ہے؟ممتاز تاریخ دان رومیلا تھاپر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ کہا ہے کہ تاریخ نویسی کسی کمیٹی یا حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک انفرادی عمل ہے ،اس پر حکومتوں کو غور کرنا چاہئے۔مودی گجرات کے مسلم فسادات کے داغ کو مٹا نہیں سکتے خواہ اس کے لئے وہ کچھ بھی کر لیں۔اِس حساب سے مودی حکومت کو چاہئے کہ ۱۹۸۴ء کے ’’سکھ فسادات‘‘ کو بھی ’’دہلی فسادات‘‘ کے نام سے بدل دے۔
یہ بات یوں شروع ہوئی کہ گزشتہ دنوں اُتر پردیش کے سنگھی گورنر رام نائیک نے امبیڈکر کے تعلق سے اپنی دانست میں گویا ایک انکشاف کر دیا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اُنہوں نے ملک کے مفاد میں ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اور اِس سے ملک میں ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار ہوگی اور ممکن ہے مرکزی حکومت اِس سے خوش ہو کر انہیں مزید ترقی دے دے اور اعزاز و اکرام سے بھی نوازے۔موصوف نے یہ دریافت کر لیا ہے کہ امبیڈکر صاحب کا آئینِ ہند پرجو دستخط ہے وہ یوں ہے یعنی’ بھیم راؤ رام جی امبیڈکر‘۔اہم بات اِس میں یہ ہے کہ امبیڈکر کے نام میں ’’رام جی‘‘ ہے۔یوگی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے کہ جہاں بھی امبیڈکر کا نام لیا یا لکھا جائے اُس میں ’رام جی‘ ضرور لگایا جائے اور پورا نام لکھا جائے۔یہ صحیح ہے کہ دستخط کرتے وقت آنجہانی امبیڈکرپورا نام لکھا کرتے تھے کیونکہ ایک عام آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ دستخط کو ہمیشہ برقرار رکھا جاتا ہے اور ایک بار جیسا دستخط استعمال میں آگیا اُس سے پھر مفر نہیں لیکن بی جے پی اور آرایس ایس کے ذہنی دیوالیہ پن کو کیا کہا جائے کہ اِتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے اور اسے بھی سیاسی طور پر بھُنا نا چاہتے ہیں۔وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ چونکہ امبیڈکر ’رام جی ‘لکھا کرتے تھے اس لئے وہ ایک پکے رام بھکت ہوئے۔یہ کیسی حماقت ہے کہ وہ اِتنا بھی نہیں جانتے کہ ’رام جی‘ امبیڈکر کے والد محترم کا نام تھا اور درمیانی نام کی جگہ والد کا نام لکھنا ضروری ہوتا ہے ۔در اصل یہ لوگ سب کچھ جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہیں۔چونکہ انہیں کام تو کرنا نہیں ہے اس لئے ایسے خرافات میں لگے رہتے ہیں۔امبیڈکر یا امبیڈکر کے پیرو خود کو کبھی بھی ’رام بھکت‘ کہلوانا پسند نہیں کریں گے کیونکہ ’رام بھکت‘ کی تعبیر جو بی جے پی اور آر ایس ایس نے پیش کی ہے وہ ایک پُر تشدّد مخلوق کی ہے۔اصل میں بی جے پی کی مایوسی جسے انگریزی میں فرسٹریشن کہا جاتا ہے وہ کرناٹک میںجگ ظاہر ہے۔انتخابات جیتنے کے لئے وہ مختلف حربوں کا اختراع کرتی ہے اور تمام کو ایک ساتھ استعمال میں بھی لاتی ہے ۔ایک دو حربے بھی کام آگئے تو وہ کامیاب ہو جاتی ہے لیکن کرناٹک میں اس کے تمام داؤ پیچ اُلٹے جا رہے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس کے ستارے اب گردش میں ہیں۔
صرف چند روز پہلے کی بات ہے کہ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار یدی یورپاّ کو سب سے زیادہ بدعنوان کہہ دیا۔یہ فرسٹریشن نہیں ہے تو اور کیا ہے؟اس کے علاوہ سچائی زبان پر آہی جاتی ہے۔یدی یورپاّ کے تعلق سے ایک عالم جانتا ہے کہ وہ کتنے بدعنوان ہیں لیکن بی جے پی جو خود کو بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرتی ہے ،سچ بات تو یہ ہے کہ یہ نہ صرف بدعنوان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ خود بھی اس میں گلے تک ڈوبی ہوئی ہے اور کرناٹک کے لوگ اسے اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔یدی یورپاّ کے علاوہ بی جے پی کے پاس کوئی دوسرا چہرہ بھی نہیں ہے جو وہ کرناٹک کے عوام کے سامنے پیش کر سکے جب کہ موصوف ۷۵؍ برس کی عمر کو پار کر چکے ہیںاور مودی کے خود ساختہ عمر کی پابندی والے اُصول پر بھی پورا نہیں اترتے ،تو پھر کیا وجہ ہے کہ مودی کی پہلی پسند یدی یو رپاّ ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مودی بدعنوانی کے زبردست حامی ہیں۔یدی یورپاّ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ ’لنگایت‘ ہیں ۔لنگایت کے ووٹ کرناٹک میں ۱۷؍فیصدکے قریب ہیں جو ہمیشہ سے بی جے پی کی جھولی میں رہے ہیں لیکن کانگریس کے موجودہ وزیر اعلیٰ سدّا رمیا نے اُنہی( بی جے پی اور آر ایس ایس) کی چال سے اُنہیں شکست دینے کا انتظام کر لیا ہے ۔وہ یوں کہ لنگایت کو الگ مذہب کا درجہ اُن کی کابینہ نے منظور کرکے مرکزکی مودی حکومت کو بھیج دیا ہے۔اگر لنگایت کوالگ مذہب شمار کر لیا جاتا ہے تو اِس رو سے وہ اقلیت کا درجہ حاصل کر لیں گے اور اِس طرح اقلیتوں کو جو بھی مراعات حاصل ہیں وہ ’لنگایت سماج‘ کو بھی مل جائیں گے۔یہ اعلان کرکے سدا رمیا نے بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگا دی ہے جس سے بی جے پی چراغ پا ہے اور کانگریس پر ہندوؤں کو تقسیم اور کمزور کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔اِس کو زائل کرنے کے لئے امیت شاہ لنگایت کے مذہبی رہنما جو اتفاق سے ۱۱۰؍ برس کے ہیں ،سے ملنے اُن کے مَٹھ پہنچ گئے اور اُن کے آگے سجدے میں گر پڑے لیکن دوسرے ہی روز مَٹھ کی جانب سے ایک بیان پریس کو جاری کیا گیا کہ وہ کانگریس کے موقف کی حمایت کرتے ہیں اور لنگایت ایک الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیںوہ اِس بات کا اعادہ کرتے ہیں۔یہاں پر بھی امیت شاہ کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب ستارے گردش میں ہوتے ہیں تو سب کچھ اُلٹا ہی ہوتا ہے۔اب اِس کا کیا کریں کہ کرناٹک کے ایک دیہی ضلع دیوانیگری کے ایک علاقہ’چل کیرے‘ میں جب امیت شاہ ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے تو اُن کے مترجم نے اُن کی باتوں کو یوں بیان کرنا شروع کیا کہ ’’مودی دلتوں ،غریبوں اور پسماندہ طبقات کے لئے کچھ نہیں کریں گے بلکہ وہ ملک کو تباہ و برباد کر دیں گے،برائے مہربانی اُن کو ووٹ دیں۔‘‘ اس کے علاوہ مترجم نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی اِن دنوں کچھ بھی اچھا نہیں کر رہی ہے ،یہ ہمیشہ غلط باتیں ہی کرتی ہے ۔ظاہر ہے مترجم کنّڑ میں لوگوں کو سمجھا رہا تھا۔امیت شاہ کو تو یہ بعد میں پتہ چلا ہوگا جب چڑیا کھیت چُگ گئی ۔بات دراصل یہ ہے کہ مترجم بھی ایک ہندوستانی عوام ہے اور اُس کے دل میں جو باتیں ہیں اور ملک میں جو انتشار اور افرا تفری کا ماحول دیکھ رہاہے اور بی جے پی کی چالبازیوں سے بھی واقف ہے تو سچائی اُس کی زبان پر آنا لازمی ہے۔یہی سبب ہے کہ اسے slip of tongue نہیں کہا جاسکتابلکہ اسے حقیقت کی عکاسی سے موسوم کیا جائے گا۔اِس کے علاوہ جب مودی جی وہاں پہنچے تو کر ناٹک کو وار ناٹک(Warnataka) کہا۔یعنی پھر وہی پرانی راگنی،مطلب جملے بازی۔کرناٹک میں نہیں لگتا کہ مودی کی کوئی جملہ بازی کام کرے گی کیونکہ سدا رمیا ابھی تک ان سے بہت بہتر نظر آرہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ’حکومت مخالف‘ کوئی لہر نہیں ہے۔کانگریس کے لئے کرناٹک کی جیت نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگی ۔اس کے بعد راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی سیاسی پنڈت کانگریس کے اقتدار میںآنے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔پھر ۲۰۱۹ ء کے عام چناؤ میں بی جے پی کو ہرانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جائے گا اور اس طرح ملک کو منووادی سلطنت سے کہیں نجات مل جائے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883