سرینگر//پردیش کانگریس کے سابق صدر پروفیسر سیف الدین سوز نے حریت کے ساتھ مذاکراتی عمل کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی خیمہ کشمیر کی آنسوئوں اور آہوں کی ترجمانی کرتا ہے۔شوپیاں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے سابق صدر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا کہ فوجی آپریشنوں کے دوران ایس او پی کیپاسداری نہیں کی جا رہی ہے،جس کی وجہ سے شہری ہلاکتیں ہو رہی ہے۔نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے پروفیسر سوز نے کہا کہ نوجوانوں کو مارنا کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے،بلکہ مرکزی حکومت کو چاہے کہ وہ جنگ بندی کا اعلان کر کے ان نوجوانوں سے بات کریں کہ انہوں نے کیوں بندوق اٹھائی ہے۔پروفیسر سوز کا کہنا تھا’’نوجوانوں کے دماغ میں بغاوت ہے،اور اس بغاوت کو دور کرنا ہے‘‘ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں جو اضطرابی کفیت ہیں،اس کو ایڈرس کرنا ضروری ہے۔سوز نے کہا’’ان نوجوانوں کو دہشت گرد کہنا آسان ہیں،مگر انکی بات سننا اس سے بھی آسان ہے‘‘انہوں نے مرکزی سرکار کو مشورہ دیا کہ وہ حریت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کریں،میں اسٹرئم بھی یہی موجود ہیں،وہ کئی بھاگے نہیں جا رہے ہیں۔سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ اگر ریاست میں اسی طرح کی صورتحال جاری رہی،تو یا پر کھبی بھی انتخاب نہیں ہونگے۔انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے نمائندے نے ریاست میں قیام امن کیلئے جو تھوڑی بہت کوششیں کی تھی،گزشتہ دن کے واقعے نے اس تمام محنت پر پانی پھیر دیا۔ ایک سوال کے جواب میں پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا کہ کرسی بدلنے سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اگر کرسی چھوڑ بھی دیں تو صورتحال تبدیل نہیں ہوگی،اور نہ ہی یہ مسئلہ حل ہوگا۔