28نومبر 2018ء کا دن بر صغیر کی تاریخ میں بہت عظیم دن کے طور یاد کیا جائے گا۔ اس روز کرتارپور صاحب کاریڈور کی سنگِ بنیاد ڈالی گئی۔ یہ مبارک دن پنجاب میں تو ایک طرح سے تہوار سا بنا منایا گیا۔چاروں طرف خوشیوں کا ماحول اور مسرتوں کی فضا تھی۔ لوگ ایک ودسرے کو بھدائیاں دے رہے تھے ۔ میرے خیال میںشاید یہ پہلی بار ہوا کہ سب لوگ ایک سیاسی خبر پر تاحال ایک دوسرے کو مبارک دے رہے ہیں۔ پنجاب میںشائع ہونے والے ہر اخبار کی پہلی سرخی بھی یہی واقعہ تھا اور اخبارات کے پہلے صفحہ کی پیشانی پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی تصویر تھی اور خبر کا متن کرتار پُور صاحب کے کاریڈور کے نیو ڈالنے کی تفصیلات پر مبنی تھا۔ اس اقدام سے پنجابیوں کی ایک دیر ینہ دلی خواہش پوری ہوئی کہ وہا ںجانے کا راستہ کھل گیا۔
سکھوں کے پہلے گُرو نانک دیو صاحب کی زندگی کے دو بڑے مقام پاکستان میں واقع ہیں۔ ان کی پیدائش رائے بھویں کے تلونڈی گاؤںمیں ہوئی ،جو پاکستان میں واقع ہے اور اس کا موجودہ نام ننکانہ صاحب ہے۔ ہر سال دیسی مہینے ’’کارتک ‘‘ کی پورنماشی کے دن ان کا گُروپُرب منایا جاتا ہے۔ اس میں شرکت کرنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں سکھ ہندوستان سے واگہہ بارڈر کے ذریعہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب جاتے ہیں۔ دنیا کے اور بہت سارے ملکوں کے علاوہ پاکستان میں رہنے والے سکھ بھی یہاں کافی بڑی تعداد میں حاضری دیتے ہیں۔ اس موقع پر ساری رات کا کیرتن چلتا ہے اور اتنے سارے لوگوں کے لئے رہنے اور کھانے کے لئے لنگر کا انتظام بھی وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ یہاں بہت بڑا گُردوارہ واقع ہے اور اس شہر میں کافی بڑی تعداد میں سکھ بھائی آباد ہیں۔ سکھو ں کادوسرا بڑا مقام کرتار پور ہے جہاں گُرو نانک جی نے اپنی زندگی کے آخری 18؍ سال گزارے۔ اس وقت انہوں نے کھیتی باڑی کی اور لوگوں کو خود محنت کرنے کا بہت عمدہ پیغام دیا۔ گرو جی کا ایک شلوک( فرمان ) ہے:’’ کرت کرو ، ونڈ شکو اور نام جپو‘‘ ۔۔۔یعنی ہاتھ سے محنت مشقت کرو اور محنت کا جو پھل ملے اس کو دوسروں کے ساتھ بانٹ کر کھائو اور رب کا نام لو۔
کرتار پُور کے پاس گرودوارا ڈیرا بابا نانک ہے جو ہندوستان کے ضلع گرداس پُور میں واقع ہے۔ اُدھر کرتارپُور پاکستان کے ضلع نرووال میں پڑتا ہے۔ دونوں کا آپسی فاصلہ کوئی پانچ کلو میٹر ہے لیکن دو ملک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے نزدیک ہوکر بھی یہ آپس میں بہت دور ہو گئے ہیں۔ ڈیرا بابا نانک سے ایک کلومیٹر کی دوری پر دو ملکوں کی سرحد پڑتی ہے۔ اس جگہ بی ایس ایف والوں نے دوربین نصب کی ہوئی ہے جو عقیدت مندوں کو گرودوارہ کے درشن کے لئے رکھی گئی ہے۔ لاتعداد لوگ اپنی آستھاؤں کے ساتھ اسی دوربین سے گرودوارا کرتار پور کے درشن دیدار کرنے کی تمنا روزپوری کر تے ہیں۔ گرودوارہ نظر آتے ہی لوگ ہاتھ جوڑ کر اس کی جانب احترام اور محبت کے ساتھ اپنا سر جھکا دیتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ اکثر وہاں شردھالوؤں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔اگر موسم صاف نہ ہو تو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں ۔ یہاں درشن کے لئے لوگ بڑی دیر تک اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔بلاشبہ عقیدت مندوں کے اندر اس گرودوارہ کا دیدار کرنے کی بہت تڑپ موجود ہوتی ہے۔
ملک کی تقسیم کے بعد بہت سارے تاریخی گرودوارے پاکستان کی تحویل میںآ گئے تھے۔ سکھ ہر روز جو ارداس (prayer) کرتے ہیں، اس میں دعا کی جاتی ہے کہ جن گردواروں کو پنتھ سے جدا کیا گیا ہے، ہر سکھ کو اُن کے درشن دیدار نصیب ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ تقسیم تو ایک ملک کی ہوئی تھی لیکن اس کی آری پنجاب کی چھاتی پر اس طرح چلی تھی کہ ایک پنجاب کے دو پنجاب بن گئے۔ ایک کا نام مشرقی پنجاب پڑ گیا اور دوسرے کا مغربی پنجاب۔ بعد میں دونوں ملکوں نے ان صوبوں کا نام ہی پنجاب ہی رکھ دیا گیا۔اسی طرح ایک ہی نام کی دو یونیورسٹیاں آر پار پائی جاتی ہیںَ ایک پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ اور دوسری پنجاب یونی ورسٹی لاہور ۔ پنجابی زبان میں مشرقی پنجاب کو ’’چڑدا پنجاب‘‘ یعنی وہ جگہ جہاں سے سورج چڑھتا ہے اور مغربی پنجاب کو ’’لہندا پنجاب‘‘ بولتے ہیں یعنی جدھر سے سورج ڈوب جائے ۔
پنجالی لوگ جب ویزا لے کر کسی دوسرے ملک مثلاً انگلینڈ یا امریکہ جاتے ہیں تو وہاں دونوں طرف کے پنجابی لوگوں کا الگ ہی لباس اور زبان ہوتی ہے اور جب پاکستان جانے کے لئے ویزا لگتا ہے، تو لوگ، اپنی بولی، اپتی زبان میں بات چیت کر تے ہیں اور پنجابیوں کو ایک ہونے کانشہ سا طاری ہو جاتا ہے۔ اسی لئے حال ہی میں یہ دیکھا گیا کہ کرتار پور گرودوارے کے کار یڈور کے لئے جو بھی پروگرام ہوئے، اُن سے یہ امکانات روشن ہوئے کہ اب آر پار کے پنجابیوں کو آپس میں ملنے جلنے کے مواقع بڑھ جائیں گے ۔ دونوں طرف کے پنجابیوں کی مشترکہ دلی تمناہے کہ انڈیا اور پاکستان میں پائیدار دوستی قائم ہو۔
دُکھ کی بات ہے کہ خوشی کے اس موقع پر بھی کڑواہٹوں کی باتیں بھی کافی کچھ چلیں۔ مانا کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی مسائل کی دیواریں کھڑی ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے سنجیدہ شکایتیں ہیں لیکن ان سب کے نپٹارے کے لئے لوگوں کا آپس میں ملنا جلنا اور آنا جانا لگارہنا دائمی مفاہمت کی پہلی شرط یا پہلا قدم ہے۔ یہ ایک امید افزاء بات ہے کہ ہندوستان کے شہریوں کو کرتار پُور جانے کے لئے ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی، غالباً صرف پاسپورٹ درکار ہوگا۔ کچھ لوگوں کو پاسپورٹ کی شرط بھی مشکل لگ رہی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسی طریق عمل وضع کیا جائے کہ عقیدت مند پار جائیںا ور بلا خوف وخطر دیدار کر آئیں۔ امن کے متوالوں کو اطمینان رکھنا چاہیے، اُمید رکھنی چاہیے، دعا کرنی چاہیے، کہ کبھی نہ کبھی ایسا ہی ہو گا۔ آخر جب یورپ کے 22؍ ملکوں کو آپس میں آنے جانے کے لئے جب نہ پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے نہ ویزے کی تو ایسا تجربہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ اس سلسلے میں وقت شاید بہت سارا لگ جائے مگر ایک نہ ایک دن ساری دنیا میں ایسے ہی ہونا ہے۔ بندہ کب تک مصنوعی لکیروں کی قید میں رہے گا؟ جب دنیا بھر سے لوگ ہندوستان اور پاکستان میں سیر سپاٹے کے لئے آتے ہیں، تو ہندوستان اور پاکستان کے لوگ آر پار سیر وسیاحت یا گھومنے پھرنے کے لئے کیوں نہیں آ جا سکتے؟ آخر یہ دو ملک ایک دوسرے کے شہریوں کو ٹورسٹ ویزا کیوںنہیں دے سکتے ؟ بہر حال ایک حساب سے کر تار پور صاحب کاریڈور یک طرفہ ہے کیونکہ اس سے صرف ہندوستانی شہری ہی اُدھر جا سکیں گے، پاکستان کے لوگ ادھر نہیں آسکیںگے۔ اس لئے انصاف کا تقاضا ہے کچھ اور کاریڈور بنیں جس سے مشرقی پنجاب والوں کو بھی مغربی پنجاب والوں کی خدمت اور تعلق داری کا موقع ملے۔ اسی طرح اور ریاستوں کے اندر بھی ایسے کاریڈور کھولے جانے چاہیے۔ ایسے کئی مقام راجستھان کے تھر ، سندھ اور کشمیر میں پڑتے ہیں تاکہ لوگ وہاں سے بھی یہاں وہاں آئیں جائیں۔ ایسی ہوا چلے تو دوستی پکی یاری مفید ثابت ہو تو کدھر رہیں گے مسائل اور منافرتیں، لیکن اس کے لئے دونوں جانب سے کلیجہ اور سیاسی عزم اور خلوصِ دل چاہیے ۔
رابطہ9878375903