۲۸نومبر 2018 برصغیر کی تاریخ میں ہند پاک کشیدگی کم کر نے کی جانب ایک اہم دن کے طور یاد کیا جائے گا ۔اس روز پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے سکھ کمیونٹی کی دیر ینہ مانگ پوری کر تے ہوئے کرتار پور راہ داری کی تعمیر کا سنگ ِ بنیاد رکھا ۔اس موقع پر منعقدہ تقریب میں شریک بھارت کے سابق کرکٹر اور ریاستی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کے بقول وزیراعظم عمران خاں نے تین ماہ قبل جو بیج بویا تھا اس سے امید اور نئی صبح کا پودا نکل آیا ہے۔ عمران خان نےکرتارپور راہداری کا سنگِ بنیاد رکھ کر ایک تاریخی کام سر انجام دیا۔ اس راہداری کے لیے پاکستان اور بھارت کی سرحد سے چار کلومیٹر سے زائد طویل سڑک تعمیر کی جارہی ہے اور دریائے راوی پر پل بھی بنایا جائے گا۔ اس منصوبے کو چھے ماہ میں مکمل کرنے کا ہدف طے ہے۔ پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد بھارت سے سکھ یاتری بغیر ویزا کے آر پار سرحد پر دستیاب ایک پرمٹ کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں تاکہ اپنی پانچ سو سالہ پرانی عبادت گاہ گوردوارہ کرتار پور صاحب تک براہِ راست آ جا سکیں۔ بانارووال اور شکر گڑھ کے درمیان نالہ بئیں کے کنارے اور دریائے راوی سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پاک بھارت سرحد پر سفید رنگ کی ایک عالی شان اورخوبصورت دھارمک عمارت کھڑی ہے جو مغلیہ طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی بلندی 50 فٹ سے زائد ہے، اوپر سنہری رنگ کے جاذب نظر اور دلکش کلس دور سے ہی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں۔ اس عمارت کی 3 منزلیں ہیں۔ گنبدوں اور محرابوں کو سینے سے لگایا ہوا یہ پانچ سو سال قدیم گوردوارہ ہے ۔ یہاں سکھ مذہب کے بانی گرونانک دیو جی کی قبر اور مڑھی (آخری آرام گاہ) ہے، اس کے ساتھ ایک قدیم کنواں اور پچاس ایکڑ سے زائد زرعی اراضی ہے جو گوردوارہ کے نام وقف ہے، جب کہ یاتریوں کے لیے لنگرخانہ، گیسٹ ہاؤسز، سیکورٹی آفس اور گیانی کی رہائش گاہ یہاں موجودہے۔ گوردوارہ کے باہر ریسٹورنٹس اور دکانیں بھی ہیں۔ گوردوارہ کرتار پورسکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ہے۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ برس یہیں دریائے راوی کے کنارے کرتار پور نامی گاؤں میں بسر کیے۔ یہاں وہ اپنی گزربسر کے لیے کھیتی باڑی کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتے تھے اور ایک اللہ ہی کی عبادت کرتے تھے اور لوگوں کو سچائی کی طرف بلاتے تھے۔ وہ خود کو گرو یعنی استاد کہلاتے تھے۔ گرونانک صاحب کا انتقال اسی گاؤں میں 70 برس کی عمر میں 22 ستمبر 1539ء کو ہوا۔ ان سے عقیدت و محبت رکھنے والوں میں سکھوں کے علاوہ مسلمان بھی شامل تھے۔ چنانچہ اس وقت کرتارپور میں ان کی ایک قبر بھی موجود ہے، جب کہ اس قبر سے 20 فٹ دور اُن کی ’’مڑھی‘‘ بنائی گئی ہے۔ سرحد سے متصل بھارتی پنجاب میں ایک چبوترہ بنا ہوا ہے جسے گرو درشن یا درشن پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ بھارت میں سکھ مذہب کے پیروکار جو پاکستان نہیں آسکتے، وہ اس چبوترے پر کھڑے ہوکر گوردوارہ کرتا پور کا درشن یا دیدار کرتے ہیں۔
پاکستان میں جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد جب عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تو سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو جو آج کل پنجاب میں ریاستی وزیر بھی ہیں، عمران خان کی تقریبِ حلف برداری میں ذاتی حیثیت میں شریک ہوئے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں تقریب کے دوران گلے لگایا اور نہایت پر تپاک انداز میںپیشکش کی کہ پاکستان بھارتی سکھ برادری کو اُن کے مقدس مقام گوردوارہ کرتارپور تک آسان رسائی فراہم کرنے اور سرحد سے کرتارپور تک راہداری کھولنے پر تیار ہے۔ یہ بلاشبہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی سکھ برادری خصوصاً بھارتی سکھوں کے لیے بہت بڑی خوش خبری تھی، چنانچہ اس پیش کش کا دنیا کے ہر گوشے میں آباد سکھ برادری نے زبردست خیرمقدم کیا۔ اب یہ پیش کش ایک حقیقت کا روپ دھارن کر چکی ہے ۔پاکستان کی جانب سے بھارت کو کرتارپورتک بغیر ویزا آسان رسائی فراہم کرنا یقیناً اسلام آباد کے جذبۂ خیرسگالی کا اظہار ہے،امید کی جانی چا ہیے کہ دونوں ملکوں میں افہام وتفہیم اور بحالیٔ اعتماد کے مزید دروازے کھل جائیں گے۔ پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے راہداری کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کی دعوت پہلے وزیراعظم نریندر مودی نے مسترد کی، پھر وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی تقریب میں شرکت سے معذرت ظاہر کردی، اب جب اسلام آبادکی طرف سےایک مستحسن قدم اٹھایا گیا ہے، امید کی جانی چاہیے کہ ہندوستان بھی بحالی ٔ اتحاد کے موثر اقدامات کر نے میں پیچھے نہ ہٹےگا۔