سہیل بشیر کار، بارہمولہ
اگر بین الاقوامی شخصیت پر لکھنا ہو تو یہ آسان ہے کیونکہ اس موضوع پر بہت سارا مواد انٹرنیٹ پر موجود ہے۔لیکن کشمیر کی شخصیات پر خیالات تحریر کرنا قدرے مشکل ہے۔اس کے لیے انتہائی محنت کی ضرورت ہے کیونکہ گوگل پر مواد موجود نہیں ہے۔مبارکبادی کے مستحق ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنے علاقے کے بارے میں لکھیں خاص کر ان لوگوں کے بارے میں جن کی قوم مقروض ہو،عزت مآب خاکی محمد فاروق کا شمار ان چنندہ افراد میں ہوتا ہے جو اپنے علاقے (کشمیر) کے بارے میں برابر لکھ رہے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب ’علماء کشمیر کی دینی و علمی خدمات‘ اس سلسلے میں ایک اہم اضافہ ہے۔اس سے پہلے بھی آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں،آپ کا تعلق ضلع بڈگام سے ہے،آپ اپنی کتابوں کی تالیف کے لیے انتہائی جاں فشانی سے کام لیتے ہیں،زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے جہاں ان شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جن پر اس سے پہلے بہت لکھا گیا ہے، وہیں ان عظیم ہستیوں پر بھی لکھا ہے جن پر زیادہ مواد دستیاب نہیں۔
570 صفحات کی مزکورہ کتاب میں 370 سے زائد علماء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔کتاب کے تقریظ اول میں دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ کے مفتی محمد اسحٰق نازکی لکھتے ہیں: ’’اس کتاب میں واجب الاحترام مصنف و مرتب جناب خاکی صاحب نے وادی کے نامور اہلِ علم و عرفان، اصحاب دانش و بینش اور دین و دعوت کے حوالے سے کوئی ۳۷۰ افراد و اشخاص کا تذکرہ کیا ہے اور کافی مراجع و مآخذ کے خزانوں کو چھان مارا ہے،اس طرح تاریخ کے ہر طالب علم کے لیے بالخصوص اور عام پڑھے لکھے حضرات کے لیے بالعموم منتشر مواد کو یکجا کرکے جناب خاکی صاحب نے طالب علمانہ انداز میں خود در در کی خاک چھان کر ایک خوشنما اور متنوع پھولوں کا ایک حسین گلدستہ شائقین کے لیے پیش کیا ہے۔ یہ جان جوکھوں کا کام ہے اس کو وہی جان سکتا ہے جو اس طرح کے میدان تالیف و تصنیف کے شاہ سوار ہوتے ہیں۔ یقینا ًخا کی صاحب اس میں الحمد للہ سوفی صد کامیاب ہیں۔‘‘ (صفحہ 23)
ماہنامہ ‘الحیات کے مدیر اعلی ڈاکٹر جوہر قدوسی مصنف کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اس کتاب میں واجب الاحترام مصنف و مرتب جناب خاکی صاحب نے وادی کے نامور اہلِ علم و عرفان، اصحاب دانش و بینش اور دین و دعوت کے حوالے سے کوئی ۳۷۰ افراد و اشخاص کا تذکرہ کیا ہے اور کافی مراجع و مآخذ کے خزانوں کو چھان مارا ہے، اس طرح تاریخ کے ہر طالب علم کے لیے بالخصوص اور عام پڑھے لکھے حضرات کے لیے بالعموم منتشر مواد کو یک جا کر کے جناب خا کی صاحب نے طالب علمانہ انداز میں خود در در کی خاک چھان کر ایک خوشنما اور متنوع پھولوں کا ایک حسین گلدستہ شائقین کے لیے پیش کیا ہے۔ یہ جان جوکھوں کا کام ہے اس کو وہی جان سکتا ہے جو اس طرح کے میدان تالیف و تصنیف کے شاہ سوار ہوتے ہیں۔ یقینا ًخا کی صاحب اس میں الحمد للہ سوفی صد کامیاب ہیں۔‘‘ (صفحہ 27) داعی و محقق ڈاکٹر شکیل شفائی لکھتے ہیں :’’مصنف نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ تذکرہ مکمل ہو، تحقیقی ہو، معلوماتی ہو، افراط و تفریط سے پاک ہو، عام فہم ہو اور تاریخ کا معتبر حصہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مصنف نے قدیم علماء ومشائخ کے ساتھ ساتھ جدید علماء و دانشوروں کو بھی کتاب میں جگہ دی ہے۔ صاحب تذکرہ کے بارے میں جتنی اہم باتوں تک مصنف کی رسائی ہو سکی ، کتاب میں درج ہیں۔ تصنیفات و تالیفات کا تعارف بھی دیا ہے۔ حوالہ جات معتبر کتب سے دیے گئے ہیں جو کتاب کے استناد پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ تذکرہ ہمیں اپنے اسلاف کے بارے میں صحت مند معتدل اور درست رائے قائم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مصنف کے قلم سے قبل ازیں کئی علمی شاہکار منظر عام پر آچکے ہیں جو تذ کرہ اور سوانح نگاری سے مصنف کی دلچسپی اور اس فن سے مزاج و مذاق کی ہم آہنگی کی طرف مشیر ہیں۔ مجھے امید ہے سابقہ کتب کی طرح یہ کتاب بھی علمی اور فکری حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔‘‘(صفحہ 33)عالم دین ڈاکٹر مظفر حسین ندوی لکھتے ہیں:’’ہمارے اس خطے میں کچھ افراد اب کہیں کہیں پائے جاتے ہیں جو سلبی حالات کو اثبات میں تبدیل کرنا جانتے ہیں جو اندھیریوں کے چراغ ہیں ان میں ہمارے قابل قدر مصنف ایک کہنہ مشق مؤلف محترم خا کی محمد فاروق صاحب ہیں۔ جنہوں نے علمائے کشمیر کا بالاستیعاب سوانح حیات اور ان کی گراں قدر خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔‘‘(صفحہ 37)
عام طور پر سب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے بغیر تعصب کے لکھا ہے۔زیر تبصرہ کتاب مصنف نے واقعی تعصب کے بغیر لکھی ہے۔کتاب میں ہر مسلک اور مکتبہ فکر سے وابستہ عالم دین کے بارے میں بغیر کسی تعصب کے روشنی ڈالی گئی ہے۔کتاب پڑھکر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مصنف کسی خاص مکتبہ فکر کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔انسان کتنا بھی چاہے اس کی تحریروں میں اپنے مکتبہ فکر سے وابستہ افراد کے لئے رگ حمیت پیدا ہوتی ہے لیکن مصنف نے ہر مکتبہ فکر کے عالم دین کے خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے، عام طور پر سوانح حیات جب عالم دین کی لکھی جاتی ہے تو انہیں مافوق الفطرت شخصیت کے طور پیش کیا جاتا ہے۔ان کے علمی اور عملی کارناموں کی جگہ ان سے منسوب کشف و کرامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ عظیم انسانوں کو بحیثیت انسان دیکھنا چاہتا ہے تاکہ ان کی زندگی عام انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ ہو،کتاب کی یہ خوبی ہے کہ مصنف نے علماء کرام کے عملی پہلوؤں کو ہی نمایاں کیا ہے، انہوں نے دکھایا ہے کہ دین اسلام کے فروغ کے لئے کیسی کیسی کوشش علماء کرام نے کی ہے۔
دین کے نام پر بہت سی بدعات رواج پاگئی ہیں۔ان بدعات کو ختم کرنے میں بھی علماء کرام نے اہم رول ادا کیا،شیخ حمزہ اور ریشیت کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں: ’’اسلام سے پہلے کشمیر میں ایک طبقہ ریشیوں کا تھا جو دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں اور گھپاؤں میں فاقہ کشی اور ترک لذات کی زندگی گزارتے تھے۔ لیکن جب حضرت شیخ العالمؒ ترک دنیا کی زندگی کو چھوڑ کر دعوت و تبلیغ کے میدان میں کود پڑے، تو انہوں نے ان ریشیانِ کشمیر کو شریعت اسلامیہ سے آشنا کر کے سنت نبویؐ کا پابند بنایا۔ جنگل پیمائی کے بجائے اشاعت اسلام اور معاشرے کی فلاح و بہبود کی طرف انہیں راغب کیا۔ مگر حضرت شیخ العالمؒ کی وفات کے تقریباً سو سال بعد ان میں پھر ترک دنیا اور رہبانیت کے رجحانات بڑھنے لگے۔ انہوں نے دسویں صدی ہجری (سولہویں صدی عیسوی) کے آغاز ہی سے حکمران طبقہ کی لالچ طمع ، خود غرضی، اور مستقل خانہ جنگیوں سے تنگ آکر دنیا سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی، نہ وہ شادی کرتے اور نہ گوشت کھاتے تھے، بلکہ وہ سوکھی روٹی اور جنگلی پھل کھا کر گزر بسر کر لیتے تھے۔ ان میں اکثر ریشی اَن پڑھ، لکھنا پڑھنا در کنار مکتب کی ابتدائی تعلیم سے بھی بے بہرہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے مذہب کا کوئی علم نہ تھا۔شیخ حمزہ مخدوم نے جب یہ حالت دیکھی تو انہوں نے ان کے ساتھ روابط بڑھا کر انہیں اسلامی سلوک و تصوف سے واقف کر کے اسلامی شریعت کے پابند بنایا۔ حضرت شیخ اور ان کے خلفا نے ان کو زہد و تقویٰ اور عبادت وریاضت میں تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ حصول علوم ، سماجی فلاح و بہبود کے کاموں اور رزق حلال حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت کرنے کی طرف راغب کیا۔‘‘ (صفحہ 109)
مصنف نے جہاں متقدمین علماء کرام کا تذکرہ کیا ہے؛ وہیں متاخرین علماء کا بھی تذکرہ کیا ہے، متاخرین میں جہاں آپ نے حضرت عبدالرحمن بلبل شاہ، حضرت امیر کبیر، حضرت میر سید علی ہمدانی، حضرت سلطان العارفین وغیرہ کا ذکر کیا ہے وہی متاخرین میں مولانا سعدالدین، مولانا محمد بخاری، مولانا نور احمد ترالی، میر واعظ مولانا محمد فارق، ڈاکٹر قاضی نثار احمد وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے،اس طرح یہ علماء کرام کی ایک شاندار تاریخ ہے۔
مصنف نے علماء کرام کی کتابوں کا بھی بہت ہی خوبصورتی سے تعارف پیش کیا ہے۔حضرت بابا نصیب کی تصانیف کے بارے میں لکھتے ہیں:’’حضرت بابا نصیب ؒ ایک اعلیٰ پایہ کے مصنف تھے۔ انہوں نے نثر ونظم میں لگ بھگ ۲۲ کتابیں لکھیں،ان میں اکثر نایاب ہیں، البتہ جو موجود ہیں وہ یہ ہیں : تذکرہ مشائخ کشمیر، مجموعه در انساب مشائخ کشمیر،
نور نامہ ، رسالہ ضرور یہ خورد، قابل ذکر ہیں۔ ۲۰؎
’’ آخر اس عظیم عالم دین اور عارف با اللہ نے ۷ ۱۰۴ھ کو انتقال کیا۔‘‘ (صفحہ 163) ڈاکٹر سید محمد فاروق بخاری کی تصانیف کا تعارف اس طرح کراتے ہیں: ’’انہیں درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف پر بھی کامل عبور حاصل تھا۔ انہوں ں نے اپنی مختصر زندگی میں ایک درجن سے زائد علمی اور تحقیقی کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیفی کام کا بنیادی موضوع کشمیر میں اشاعت اسلام اور اس کے مختلف پہلو تھا۔ ان کی تصانیف کی تفصیل یہ ہے: ۱۔کشمیر میں اسلام منظر و پس منظر،۲۔ علامہ محمد انور شاہ کشمیری (شخصیت اور علمی کمالات)،۳۔ کشمیر میں اسلام کی اشاعت،۴۔ کشمیر میں عربی علوم اور اسلامی ثقافت کی اشاعت،۵۔ کشمیر میں اسلامی ثقافت کے تاریخی مراحل،۶۔ کشمیر میں عربی شعر وادب کی تاریخ،۷۔ علامہ انورشاہ اور ان کے تذکرہ نگار،۸۔ البصائر،۹۔ علمائے کشمیر کا شاندار ماضی،۱۰۔ سیرت حضرت شاہ ہمدان،۱۱۔ سیرت حضرت میر محمد ہمدانی،۱۲۔ سیرت حضرت شیخ نجم الدین کبری،۱۳۔ دینیات دو حصے مکمل۔ (صفحہ 554)
کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب مستند حوالوں سے مزین ہے، کثرت حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف محترم نے کتاب کی تیاری میں بہت ہی محنت کی ہے۔کتاب کی اہم خوبی اس کا نہایت ہی آسان اسلوب ہے،کتاب میں روانی ہے۔ قاری دوران مطالعہ بوریت محسوس نہیں کرتا۔
راقم کا ماننا ہے کہ ہر عالم کے تذکرہ کی شروعات تاریخ پیدائش، تاریخ وفات، مقام پیدائش سے ہونی چاہئے تھی ،ساتھ ہی بہت سے علماء کا تذکرہ نہایت ہی مختصر کیا گیا ہے،ضرورت اس بات کی ہے اس میں تھوڑا سا اضافہ کیا جائے۔مزید یہ کہ کچھ علماء کرام جو کشمیر میں تو پیدا نہیں ہوئے، البتہ ان کے اسلاف کشمیری تھے،ان ہستیوں کو بھی علماء کشمیر میں شامل کیا گیا ہے۔ مثلاً علامہ اقبال۔
راقم کا ماننا ہے کہ ان علماء کرام کا تذکرہ اگر الگ باب میں ہوتا تو بہتر تھا۔یہ کتاب کشمیر کے ہر گھر کی ضرورت ہے۔مصنف نے ہم جیسے طالب علموں کو اپنی میراث سے جوڑا ہے۔وہی لوگ عظیم بن جاتے ہیں جو اپنے اسلاف سے جڑے ہوں،خوش قسمتی سے ہمارا ماضی شاندار رہا ہے۔ضرورت تھی بغیر تعصب کے اس کا احاطہ ہو۔مصنف اپنی اس کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ 572 بڑے صفحات کی زیر تبصرہ کتاب کو ‘مکتبہ اسلامیہ نوگام سرینگر نے نہایت ہی اہتمام سے شائع کیا ہے،کتاب کی قیمت 700 روپے مناسب ہے۔یہ کتاب مکتبہ اسلامیہ نوگام سے فون نمبر 7006531215 پر حاصل کی جا سکتی ہے۔
مبصر سے رابطہ :9906653927