بلال صابر، کلکتہ یونیورسٹی
نسل در نسل افعال کا منتقل ہونا آدمؑ کے وقت سے جاری ہے بلکہ ہر وہ کام جس کی زندگی میں ضرورت ہے، ہر بات جو خیر کا باعث ہے، ہر طریقہ جو احسن ہے ،اس کی نقل اور اس میں ترمیم و اضافت کے ساتھ ہر آنے والے نے اپنا حصہ دیا ہے، اپنے آپ کو شامل کیا، چاہے وہ ذریعہ معاش ہو، ازدواجی زندگی ہو، سماجی خدمت و مدد ہو، تعلیم و تربیت ہو سیر و تفریح ہو، تہذیب و ثقافت کی ترویج ہو یا کھیل کود ۔ان ساری چیزوں کا پتہ ہمیں اپنے بزرگان سے ملتا آیا ہے اور ہم نے بہ خوشی ان تمام چیزوں کو قبول کیا اور ترمیم کے ساتھ ہر عمل کو خوبصورت بنانے کی کامیاب کوشش بھی کی، لیکن اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے بعد سے جس عمل کا قحط برصغیر کے بیشتر گھروں میں پڑا، وہ ہے کتب بینی کا، مطالعے کا، کتابوں سے محبت کا اور یہ مسئلہ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر لئے بلک رہا ہے۔
موجودہ دور میں لگ بھگ ہر طرح کی سہولت ہر معاملے میں برقی صورت میں موجود ہے، یعنی ایک روپے کے کاغذ سے لے کر ایک عرب کی زمین لینے تک کا کام چٹکیوں میں ایک کلک سے ہوجاتا ہے، جو واقعی ایک غیر معمولی ترقی ہے۔ ماضی کے تعلیمی اعداد و شمار اور آج کے تعلیمی اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تب انگلیاں دانتوں تلے دبانے سے کوئی نہیں روک سکتا کیوں کہ اس صدی نے تعلیم کو ایک ایسی عبادت کے طور پر قبول کیا جو بلا تفریق ہر مذہب و ملت کی گھٹی میں شامل ہوگئی، لیکن پھر بھی وہ روشن دماغی جو اکابرین کے ہاں موجود تھی، وہ خوش الحانی جو ماضی کے کسی مکتب سے فارغ شخص کی جھولیوں میں پڑی تھی، وہ فکر اور معنی آفرینی جو کسی جیل میں بند قیدی کے خامہ کی جاگیر تھی، وہ ہمارے حصے کیوں نہیں آ رہی ہے۔ کچھ تو غلط ہورہا ہے اس نسل کے ساتھ یا پھر یہ خود ہی کررہی ہے۔ جی ہاں! اس نسل نے ہر میدان میں لمبی چھلانگ لگائی لیکن نصاب سے باہر نکلنے کے خیال نے انہیں شاید ڈرا دیا ہے یا پھر انہیں نصاب سے باہر کی دنیا کی سیر کروانے والا کوئی نہیں ملا، جی ہاں! میں بات کتب بینی کی کررہا ہوں ،میں درسی کتابوں کے ساتھ ساتھ دیگر کتابوں کے مطالعے پر حروف خرچ کررہا ہوں، کیا وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے بعد ایک دم سے لائبریریوں کی کتابوں میں دیمک براجمان ہوگئے ،کرسیاں خالی ہوگئیں، کتابوں کے صفحات ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے۔ اسکول ،کالج یونیورسٹی میں آج بھی لائبریریاں موجود ہیں لیکن ان میں پڑھنے والوں کی تعداد ویسی ہی ہے جیسی اس ملک کی معاشیات، غلطی کہاں ہو رہی ہے کہ ہمارے آنے والے ریڈرس آ نہیں پا رہے؟
کیا اسکولوں میں لائبریری کی اہمیت نہیں بتائی جا رہی یا انہیں نصاب سے باہر جانے کی اجازت نہیں مل رہی؟ کیا کالجوں کی لائبریریاں طلباء کو سالوں تک بیٹھنے کی اجازت نہیں دے رہی یا لکچررز و پروفیسرس نے ان کو جکڑ رکھا ہے۔ کیا یونیورسٹیز میں کمپیٹیشن اور گولڈ میڈلسٹ ہونے کے لالچ نے نئی نسل کو نصاب سے باہر اور لائبریری کے اندر جانے سے روک رکھا ہے یا اساتذہ کی جی حضوری سے فرصت نہیں مل رہی؟
کچھ تو ایسا ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہئےاور کچھ تو ایسا نہیں ہو رہا جو ہونا چاہئے، خیر ۔
کتب بینی ایک تعمیراتی عمل ہے اور اس کی عادت کسی کو وِدیا ساگر بناتی ہے، کسی کو وویکانندا، کسی کو شفاء الدولہ تو کسی کو سرسید اور یہ باتیں جس زمانے کی ہیں، اس زمانے میں یہ شوق تو آسان تھا لیکن اس کی عملداری مشکل۔ کیوں کہ کتابیں بہت آسانی سے دست یاب نہیں ہو پاتی تھیں، لیکن ہمارے عہد میں ایسی کوئی دقت نہیں ہے ،کوئی مشکل نہیں ہے، کتابیں شائع کی جا رہی ہیں، عالیشان لائبریریاں بنائی جا رہی ہیں لیکن ریڈرس کہاں گُم ہیں نہیں معلوم غلطی بہت جگہوں پر ہو رہی ہے اور غلط فہمی بہت ساری جگہوں پر، غلطی طلباء کے ابتدائی دور میں ہو رہی ہے کہ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی لائبریری کی یا کتب بینی کی عادت نہیں دی جارہی، ہر کام ڈیجیٹلی انٹرنیٹ سے حاصل کرنے کو کہہ دیا جارہا۔ میں نہیں کہتا کہ انٹرنیٹ سے مواد لینا کوئی گناہ ہے لیکن خدارا کلِک کی عادت کا قلق سمجھیں، آج اگر آپ کے طلباء نے انٹرنیٹ کے بہ جائے کسی لائبریری سے استفادہ حاصل کیا ہوتا تو اس کی زندگی کی عادتوں میں ایک حسین عادت کا اضافہ ہوتا، کتابوں کے لمس کو محسوس کرنے کی عادت سے بہتر نئی نسل کے لئے اور کون سی عادت ہو سکتی ہے۔
کالجوں کا حال یہی ہے تین سال بچے پڑھنے آتے ہیں کلاسس کی خبر نہیں رہتی تو کچھ بچے اگر لائبریری جانا بھی چاہیں تو کوئی تاریخ دے کر انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ ابھی کوئی نہیں آسکتا یا کتابیں نہیں لے جا سکتا۔ (کچھ کالجز کو چھوڑ کر پورے ہندوستان میں اور پورے ہندوستان میں نہ سہی تو کم از کم بنگال میں تو یہی حال ہے) اور پھر ان گنے چنے بچوں کی کتب بینی کا شوق بھی ہوا میں موجود آکسیجن کی مانند ہوجاتا ہے جو ہوتا تو ہے پر ان کے سامنے نہیں آ پاتا کہ بےسود کوششیں کرکے کچھ نہیں ملتا، پھر یونیورسٹیز کے معاملے آتے ہیں، لائبریری کارڈ بنتے بنتے ایک سمسٹر گذر جاتا ہے، پھر امتحانات، پھر ہفتے میں تین چار دن کی اجازت، خیر یہ بھی بتاتا چلوں کہ نئی نسل کے 28فیصدطلباء دسویں اور بارہوں جماعت کے بعد تعلیمی سلسلے کو خیر آباد کہہ جاتے ہیں اور پھر 47فیصدطلباء گریجویشن کے بعد نوکریاں اور دیگر کورسس کی جانب چلے جاتے ہیں۔ بچے ہوئے 25فیصد یونیورسٹی تک رسائی حاصل کرتے ہیں ،کر پاتے ہیں، یہ میں نہیں اعداد و شمار کہہ رہے ہیں 2020 کے۔ اس لئے ہمیں ابتداء سے ہی نئی نسل کو کتب بینی کی جانب راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور آگے ان کے سفر میں آسانیاں پیدا کرنی چاہئے ورنہ اسی طرح کتب بینی سے دور اس نسل کے لئے کتب خانے ایک دن میوزم ہوجائیں گے۔
[email protected]