سہیل بشیر کار
یوں تو محسن کشمیر سید السادات، سالار عجم میر سید علی ہمدانی ؒ کی زندگی پر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے لیکن اس میں اکثر افراط و تفریط پایا جاتا ہے، اگرچہ سید السادات پر لوگوں نے بہت اچھا لکھا ہے، ان ہی میں محترم خاکی فاروق صاحب کی زیر تبصرہ کتاب ’’میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ ہے،یہ ایک جامع کتاب ہے اس میں نہ صرف حضرت میر سید علی ہمدانی کی حیات زندگی پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ ان کی خدمات اور تعلیمات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے، اس کتاب سے قاری کے اندر داعیانہ مزاج پیدا ہوتا ہے۔داعیان حق کے دلوں میں دعوت و تبلیغ، شہادت حق اور غلبہ دین کا شوق و ذوق اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
آپ کا اصل نام علی تھا کشمیر اور بیرون کشمیر آپ نے میر سید علی ہمدانی ،امیر کبیر، علی ثانی اور شاہ ہمدان کے القاب سے شہرت پائی اور انہی القابات کی وجہ سے آپ آج بھی مشہور ہیں۔آپ کی ولادت 12 رجب المرجب 713 ھ مطابق 22 اکتوبر 1313 ع میں ہوئی ،آپ کی پیدایش ایران کے مشہور شہر ہمدان میں ہوئی جو کہ تہران سے 220 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔آپ کا نسب باپ کی طرف سے بھی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے اور ماں کی طرف سے بھی ،آپ کی پرورش جس خاندان میں ہوئی وہ ایک دیندار، خدا ترس اور علم و حکمت اور عرفان سے آراستہ تھا اور اس میں بڑے بڑے امراء و علماء اور بزرگ پیدا ہوئے، آپ ایک کامیاب مبلغ اور ممتاز عالم و عارف تھے۔آپ نے دعوت و تبلیغ اور اشاعت اسلام کے سلسلے میں وسط ایشیا اور ایران کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ کشمیر اور لداخ و بلتستان کا دورہ کیا، آپ ایک کامیاب داعی تھے۔آپ کے ہاتھ پر ہزاروں لوگوں نے دین حق قبول کیا، میر سید علی ہمدانی ؒ بچپن سے ہی بڑے ذہین اور بے حد ہوشیار تھے، عام بچوں کی مانند بچپن کی شوخیاں، شرارتیں ان میں مفقود تھیں۔ان کی توجہ بچپن سے پڑھائی کی طرف تھی، جب حضرت کی عمر چار سال ہوئی تو ان کے والد محترم نے انہیں تعلیم و تربیت کے لئے علاوالدولہ سمنانی کے سپرد کیا جوکہ اپنے وقت کے بلند پایہ عالم دین تھے، ان کے پاس آپ نے قرآن کریم کو حفظ کیا،آٹھ سال کے ہوئے تو ایک اور عارف شیخ تقی الدین ابو البرکات علی دوستی کے ہاں مزید تعلیم کے لیے بھیجا،اس کے بعد آپ کی تربیت شیخ محمود مزدقانی نے کی ،بعد ازاں آپ نے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔بقول مصنف اس سفر کا مقصد :
(۱) حصول علم و عرفان،(۲)جاہدہ نفس ،(۳)شہرت سے بیزاری، (۴)ائنات میں موجود اللہ کی تخلیقات پر غور و فکر کرنا اور (۵)دعوت و تبلیغ تھا۔
جب 756 ھ میں ایران میں سیاسی انتشار پیدا ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی، ایسا ماحول دعوت و تبلیغ کے لیے موزوں نہ تھا، لہٰذا آپ نے اپنے وطن کو 773 ھ میں خیر آباد کہا اور تاجکستان ہجرت کی ،یہاں آپ نے ایک دعوتی مرکز قائم کیا۔شاہ ہمدان تین بار کشمیر آئے اور یہاں قیام کیا اور اپنی دعوت کا آغاز کیا،آپ ایک کامیاب داعی رہے ہیں۔آپ کی ذات ہمہ گیر تھی آپ نے جہاں لوگوں کی انفرادی اصلاح کے لیے ’’اوراد فتحہ‘‘ لکھی وہیں حکمرانوں کی اصلاح کے لیے ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ بھی لکھی، آپ نے جہاں لوگوں کی اصلاح کے لیے منظم کام کیا، وہیں آپ نے حکمرانوں کے نام کئی خطوط ارسال کیے۔ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی مکمل اصلاح کے لیے کوشاں تھے، آپ نے کشمیر کے لوگوں کو جہاں دینی تعلیم دی، وہیں ان کی معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے بھی مفید کام کیا۔
مصنف نے 352 صفحات پر مشتمل کتاب کو 18 ابواب میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب ’’عالم اسلام پر ایک نظر‘‘ میں شاہ ہمدان کے دور کے عالم اسلام پر روشنی ڈالی ہے، چند ہی صفحات میں مصنف نے اس وقت کے عالم اسلام کو وضاحت سے بیان کیا ہے، اس باب کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اسی دور میں امام ابن تیمیہ اور ابن قیم بھی عالم اسلام میں موجود تھے۔اسی طرح مشہور مفسر قرآن ابن کثیر بھی شاہ ہمدان کے ہم عصر تھے،امام ذہبی بھی اسی دور میں موجود تھے، مشہور مورخ علامہ ابن خلدون ،مشہور سیاح ابن بطوطہ اور مشہور شاعر امیر خسرو کا بھی یہی دور تھا۔کتاب کے دوسرے باب ’’میر سید علی ہمدانی ؒ ولادت سے نکاح تک‘‘ میں مصنف نے ان کے ابتدائی زندگی کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے۔
کتاب کے تیسرے باب ’’کشمیر اسلام سے پہلے‘‘ میں مصنف نے کشمیر کے سیاسی ، مذہبی اور، اخلاقی پس منظر کو پیش کرکے، میر سید علی ہمدانی کے زمانے پر خامہ فرسائی کی ہے۔چوتھے باب ’’میر سید علی ہمدانی ؒ نے کشمیر کی طرف توجہ فرمائی‘‘ میں دکھایا ہے کہ آپ نے کشمیر آنے سے پہلے سید حسین سمنانی کو کشمیر بھیجا ،جنہوں نے یہاں کی ہر چیز کا جائزہ لیا اور اس کی رپورٹ شاہ ہمدان کو پیش کی ،الغرض آپ زبردست دور اندیش تھے، اس لیے یہاں آنے سے قبل اچھی طرح منصوبہ بندی کی۔
پانچویں باب’’ میر سید علی ہمدانی کا پہلا دورہ کشمیر‘‘ حضرت امیر کبیر، شہاب الدین کے زمانہ حکومت میں 774 ھ میں کشمیر پہنچے، یہاں سلطان کے بھائی نے آپ کا والہانہ استقبال کیا۔اس باب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پہنچ کر شاہ ہمدان نے پہلا کام یہ کیا کہ آپ نے حضرت بلبل شاہ ؒ کے کام کا گہرائی سے جائزہ لیا، دوسرا کام آپ نے یہ کیا کہ دربار سلطنت کے ذمہ داروں اور دیگر با اثر افراد سے رابطہ قائم کیا، اس کے بعد آپ مکہ روانہ ہوئے۔
چھٹے باب ’’میر سید علی ہمدانی ؒ کا دوسرا دورہ کشمیر‘‘ سے معلوم پڑتا ہے کہ آپ نے پہلے دورہ کے چھ سات سال بعد دوبارہ کشمیر آئے لیکن یہ دورہ آپ کا زیادہ منظم تھا، اس بار آپ نے اپنے ساتھ بلند کردار والے افراد ساتھ لائے۔لکھتے ہیں: ’’تاریخ اور مختلف تذکروں سے اشارہ ملتا ہے کہ انہوں نے اس جماعت کا انتخاب کشمیر کے سیاسی ، اقتصادی ، معاشرتی، ثقافتی اور دیگر حالات کو مد نظر رکھ کر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت میں عالم و فاضل ، فقیہ و محدث ، قاری و حافظ ، صوفی و عارف مقرر و مدرس کے علاوہ اعلیٰ پایہ کے ادیب و شاعر اور فنکار و دستکار اور کاریگر بھی شامل تھے، جو فن و ہنر اور کاریگری میں اپنی مثال آپ تھے۔ یہی جماعت ہے جس نے یہاں بعد میں اپنی کوششوں اور کاوشوں سے سیاست و اقتصادیت، اخلاق و معاشرت، زبان وادب اور تہذیب و تمدن میں عظیم انقلاب برپا کر دیا۔‘‘ (صفحہ 102) ۔اس دورہ میں آپ پیر پنجال سے کشمیر میں داخل ہوئے، راستے میں ہی آپ کے ہاتھ پر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔اس باب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے بادشاہ سلطان قطب الدین نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کا والہانہ استقبال کیا۔
ساتویں باب ’’کشمیر کے مختلف علاقوں میں دعوت و تبلیغ کا کام‘‘ میں مصنف نے دکھایا ہے کہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں آپ نے کیسے دعوت و تبلیغ کا کام کیا۔اس سلسلے میں انہوں نے کشمیر کے مختلف گاؤں، قصبوں اور علاقوں میں اپنے رفقاء کرام کو دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں بیجھا آگے مصنف نے مختلف علاقوں کے کاموں پر روشنی ڈالی ہے، آپ کے ساتھ جو داعی تھے، انہیں مختلف علاقوں میں بھیجا۔مصنف لکھتے ہیں: ’’انہوں نے اپنے اکثر رفقاء کو اہل کشمیر کو اسلامی علوم و فنون،شعر و ادب، حرفت و ہنر اور صنعت کاری سے باخبر کرنے کے لیے یہی سکونت کرنے کی تاکید کی ،جس سے اہل کشمیر کے عقائد و اعمال کے ساتھ تہذیب و تمدن ،ادب و ثقافت ،معاشرت بھی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔‘‘ (صفحہ 124) ۔کتاب کے آٹھویں باب ’’دیگر دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی کام ‘‘ میں مصنف لکھتے ہیں کہ حضرت امیر کبیر نے رؤسائے کفار کو دعوت دی ۔اسی طرح رؤسائے کفار میں بھی بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔اسی طرح آپ نے اس دوران امراء و وزراء کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی کیا۔کسی بھی کام کو منظم طریقے سے سر انجام دینے کے لیے دعوتی مراکز کا قیام لازمی ہے۔۔۔۔۔(جاری)
( رابطہ۔ 9906653927)
[email protected]